تیل کی قیمت میں اضافہ، مہنگائی اور کاروباری کارٹلز

ہفتہ 18 جولائی 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

حکومت نے کورونا اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے کے پیشِ نظر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بہت کمی کر دی تھی لیکن گزشتہ ماہ اچانک ان کی قیمتوں میں 25 فیصد تک کا اضافہ کر دیا۔ ماہِ جون شروع ہوتے ہی ملک بھر کے پیٹرول پمپوں پر پیٹرول کی قلت پیدا ہو گئی جس کی بنیادی وجہ تھی کہ پیٹرول پمپ مالکان اور کچھ سپلائی کمپنیوں نے پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی کر لی کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ آنے والے دنوں میں پیٹرول مہنگا ہو جائے گا اس طرح وہ غیر معمولی منافع کمانا چاہتے تھے۔

حکومت جو ہر ماہ کی یکم تاریخ کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے نے ان کمپنیوں کے دباوٴ میں مقررہ تاریخ سے چار روز پہلے ہی قیمتیں بڑھا دیں۔ حالانکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں بہت کمی ہو گئی ہے۔

(جاری ہے)


تیل کی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ سے مربوط کر دیا گیا ہے، عالمی مارکیٹ میں جب بھی تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور حکومت بری الذمہ ہو جاتی ہے اور جب بھی تیل کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو حکومت اس کا پوری طرح فائدہ عوام کو پہنچانے کی بجائے ان مصنوعات پر ٹیکسوں کی مد میں اضافہ کر کے خود اپنے خزانے کو بھرنے کی کوشش کرنے لگ جاتی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات پر مختلف طرح ٹیکس لگائے جاتے ہیں جن میں کسٹم ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی، ویٹ اور طرح طرح کے سیس شامل ہیں۔ انٹر نیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمت 41 ڈالر فی بیرل، امپورٹ کرنے کا کرایہ 2.16 ڈالر فی بیرل، بینک کے ایل سی چارجز 9 فیصد، انشورنس چاجز وغیرہ ٹوٹل 2.01 ڈالر فی بیرل، وارفیج چارجز 2.0 فیصد 1.25 ڈالر فی بیرل، آئل کمپنیز مارجن 0.90 فیصد 1.10 فی بیرل، ریفائننگ چارجز 1.2 ڈالر فی بیرل یہ سب ملا کر ٹوٹل 48.82 ڈالر فی بیرل ہو گیا۔

ایک بیرل میں 159 لٹر ہوتے ہیں۔ اس طرح حکومت کو پیٹرول 51.27 روپے فی لٹر پڑتا ہے جس پر سیلز ٹیکس 17 فیصد، ایکسائز ڈیوٹی 3.15 فیصد، یکم جنوری 2019ء سے 6 فیصد مزید ٹیکس توٹل 26.15 فی لٹر اس طرح تمام جائز ٹیکس ڈال کر حکومت کو فی لٹر 64.67 روپے فی لٹر دینا چاہئے جو کہ 100 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخوں میں کمی کا اثر پیداواری اور زرعی شعبے کی خوشحالی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا تھا لیکن ملک میں ایسے کاروباری کارٹلز سرگرم ہیں جو اشیاء کے نرخ مقرر کرنے کے حوالے سے حکومتی اتھارٹی کو مسلسل چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔

جیسا کہ گزشتہ دنوں میں گندم اور چینی کی وافر موجودگی کے باوجود ان کے نرخ بڑھتے رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی صرف وافر دستیابی ہی ضروری نہیں ہے بلکہ حکومت اور اس کے اداروں کو ایسا مٴوثر نظام تشکیل دینے کی بھی ضرورت ہے جس سے نرخوں پر کنٹرول رہے اور ان کارٹلز اور مافیاز کو سخت سزائیں مل سکیں جو ناجائز منافع خوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت قیمتوں میں کمی لانے کے لئے اقدامات عمل میں لائے اور صوبوں میں مارکیٹ پرائسنگ کا جائزہ لے کراسے بہتر بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان عوامل کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کی جائے جو اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ مانیٹرنگ کا نظام سخت کرنے سے محض جزوی کامیابی حاصل کی جا سکے گی کیونکہ وہ عوامل اسی طرح کارفرما ہوں گے جو اشیائے صرف کی گرانی کا سبب بنتے ہیں تو قیمتیں کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ذرائع آمد و رفت مہنگے ہونے سے اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں کیونکہ مختلف اشیاء کی نقل و حرکت کے لئے بھی عام طور پر یہی ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں لیکن حکومت انہی ذرائع کو مہنگا کرتی چلی جا رہی ہے جس کی ایک مثال پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ ہے۔ چونکہ کاشتکاری کا زیادہ تر کام ڈیزل پر منحصر ہوتا ہے۔ سینچائی سے لے کر نقل و حمل تک ڈیزل سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے کسان بھی پریشانی کا شکار ہیں۔

ڈیزل کی قیمتوں میں 25روپے اضافے سے کاشتکاری کی لاگت بہت بڑھ جائے گی۔ اس طرح کھاد کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ زرعی لوازمات کے نرخوں میں اضافہ بھی کھانے پینے کی اشیاء مہنگا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جن کی تیاری کے کسی بھی مرحلے میں اس کا بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔

چنانچہ یہ بات سو فیصد یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جب تک توانائی کے ان ذرائع کے نرخوں میں مناسب کمی نہ لائی جائے گی اس وقت تک مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ دوسرا انتظامی شعبے میں پائی جانے والی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے بھی مہنگائی روز افزوں ہے۔ اشیاء کے معیار اور قیمتوں پر نظر رکھنے والے ادارے اور افراد اپنا حصہ وصول کر کے ایک طرف ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف صارف اور دوکاندار آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں جس میں صارف کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی۔


وفاقی ادارہ شماریات نے گزشتہ ایک سال کے دوران روز مرہ استعمال اور اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں ہونے والے اضافے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ مالی سال 2019-20ء کے آخری ماہ جون میں ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں مہنگائی بڑھنے پر پی ٹی آئی نے حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ برسرِ اقتدار آ کر مہنگائی کم کریں گے لیکن آج ان کی حکومت بننے پر مہنگائی کم ہونے کی بجائے تیزی سے بڑھتی جار ہی ہے۔

دیگر چیزیں جو مہنگی ہو رہی ہیں وہ اپنی جگہ روزمرہ کے استعمال کی چیزیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق جون میں سالانہ بنیاد پر شہری علاقوں میں آلو 72 فیصد، پیاز 55 فیصد، دال مونگ 71فیصد، دال ماش 46 فیصد، انڈے 44 فیصد، دال مسور 34 فیصد، گندم کا آٹا 24 فیصد، گھی 24 فیصد مہنگا ہوا ۔ اس کے علاوہ ایک سال میں گیس 54 فیصد مہنگی ہوئی۔

گزشتہ دو برسوں میں مہنگائی تین سو فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ موجودہ دورِ حکومت میں مہنگائی کے عفریت نے جس تیزی سے عوام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اس کے پیشِ نظر یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ جو حسبِ منشا مصنوعات کے نرخ بڑھانے والوں اور ذخیرہ اندوزوں کی پکڑ کر سکے۔ حکومت نے خود بھی مہنگائی کو مہمیز دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اگر قیمتوں پر کنٹرول نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :