نیب،کرپشن اور احتساب!

ہفتہ 13 جولائی 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

چےئرمین نیب کا کہنا ہے کہ نیب کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی نیب یک طرفہ کارروائیاں کر رہی ہے تو ثابت کریں چند اراکین پارلیمنٹ کیخلاف مقدمات رجسٹرڈ‘شہادتیں موجود نیب کیسے آنکھیں بند کر لے کروڑوں‘اربوں راپے کی منی لانڈرنگ کی گئی پروڈکشن آرڈر پر باہر آنے والے کہتے ہیں سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے نیب کی سیاسی وابستگی ثابت ہو جائے تو استعفی دے دونگا۔


چےئرمین نیب نے اچھا کیا کہ نیب پر لگنے والے الزامات کا جواب دے کر اس تاثر کو زائل کر دیا کہ نیب حکومتی ایماء پر سیاسی انتقام کے لئے استعمال ہو رہا ہے ۔ملک میں کرپشن و بدعنوانی کے تدارک کے لئے 16 نومبر1999ء کو ایک صدارتی فرمان کے تحت وجود میں آنے والا ادارہ (NAB)جو سابقہ حکومتوں کی منشاء کے مطابق سیاسی انتقام کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے کرپٹ سیاستدان شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ نیب کبھی بھی ان کا احتساب نہیں کرے گا۔

(جاری ہے)

موجودہ حالات میں جس طرح نیب ایک آزاد اور فعال ادارہ کی حیثیت میں اپنی کارگردگی کا لوہا منوا رہا ہے ملک کا عام فرد اس کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دیتا ہے وزیراعظم عمران خان نے بھی متعدد بار کہا ہے کہ ادارے آزاد ہیں ادارے قانون کے مطابق کسی بھی کرپٹ اور مجرم کیخلاف کارروائی کرنے کے مجاز ہیں۔نیب کارکردگی کا جائزہ ورلڈ اکنامک فورم کی اس رپورٹ کی روشنی میں لیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نیب کارکردگی سے پاکستان میں ہونیوالی کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان عالمی درجہ بندی میں 102سے 99نمبر پر آگیا ہے جس سے عوام کا نیب کے ادارہ پر اعتماد بڑھا ہے۔کرپشن ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے پاکستان میں کرپشن و بدعنوانی نے ہماری سماجی‘سیاسی اور مذہبی زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے معاشرے کے اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی و تعلیمی ادارے بھی اس ناسور کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ۔

المیہ یہ ہے کہ جو لوگ معاشرہ میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں یہ لوگ کرپشن پر تقریریں تو کرتے ہیں لیکن کرپشن کی وجوہات اور اس کی پیدائش پر بات نہیں کرتے پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا یہ بہت افسوسناک باب ہے جس میں ہماری کرپشن‘موقع پرستی‘مذہبی بلیک میلنگ اور بے حسی کی جڑیں چھپی ہیں۔عمران خان کی حکومت کا یہ قصور ہے کہ ملک میں پہلی بار ایسے طاقتور سیاسی مافیا کے گرد گھیرا تنگ کر کے گرفتار کیا گیا ہے جو ملک کے قانون کواپنے گھر کی رکھیل سمجھتے تھے اس سے قبل اس سیاسی مافیا نے اپنے مفادات اور اقتدار کا تحفظ تو کیا لیکن عوام کو بے یارو مددگار ہی رہنے دیا۔

ہمارے سامنے ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر کے ترقی کے زینہ پر قدم رکھا چین کے موجودہ صدر نے جب اپنا عہدہ سنبھالا تو اس نے کہا کہ کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گاچاہے وہ شیر جیسی قوت رکھتے ہوں۔چین میں قانون ہے کہ جو بھی پندرہ لاکھ تک یا اس سے زیادہ کرپشن کا مرتکب ہوگا اسے سزائے موت دی جائے گی اس قانون کے تحت بننے والے مقدمات میں اب تک ننانوے فیصد کرپٹ افراد کو سزا مل چکی ہے بلکہ سیاسی رہنماؤں‘فوجیوں اور بیوروکریٹس کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔

نائجیریا میں جب کرپٹ اہلکاروں نے تیل کی آمدنی کی مد میں حاصل ہونیوالی رقم میں سے چار سو ارب ڈالر لوٹ لئے تھے تو وہاں کے صدر نے اپنے سات نکاتی پروگرام میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی کرپشن کی نشاندہی کرے گا اسے نہ صرف ریاست تحفظ دے گی بلکہ نشاندہی کرنیوالے کو کرپشن کی مد میں وصول ہونیوالی رقم کا پانچ فیصد بھی دیا جائے گااس اسکیم کے تحت دو سال میں نائیجیریا کو تیل کی آمدنی میں پہلے کے مقابلے میں تیس فیصد اضافہ ہوا۔

پاکستان میں سیاستدانوں نے اپنے اقتدار کی آڑ میں اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کو ممکن بنایابیرون ممالک میں جائیدادیں اور کاروبار بنائے جس سے ملکی معیشت کمزور ہوتی چلی گئی اور یہ ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔
اگر آج آصف زرداری جیسے سیاستدان جیل میں ہیں تو اس کا الزام عمران خان پر لگایا جا رہا ہے حالانکہ جعلی اکاؤنٹس کا مقدمہ مسلم لیگ ن کے دور میں ان کیخلاف بنایا گیااور دسمبر 2015ء سے ایف آئی اے جعلی بنک اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات میں مصروف عمل ہے ۔

آج نیب کے ادارہ کو اپوزیشن نے نشانہ بنایا ہوا ہے کہ یہ انتقامی کارروائی کر رہا ہے عوام سمجھتی ہے کہ نیب نے آصف زرداری کیخلاف از خود جعلی اکاؤنٹس کی انکوائری تو شروع نہیں کی سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد نیب کو انکوائری‘انویسٹی گیشن‘اور ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ ستمبر2018ء کو عدالت عظمی کے حکم پر جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات شروع کیں اور جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ 24دسمبر2018ء کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔

رپورٹ کے مطابق جن 29بنک اکاؤنٹس سے 42ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی وہ زرداری گروپ ‘بحریہ ٹاؤن اور اومنی گروپ کے ٹرائیکا ئی ملی بھگت سے آپریٹ ہورہے تھے اور جو قرضے سندھ بنک سے اومنی گروپ کو جاری کئے گئے ان میں سے تریپن ارب روپے آؤٹ سٹینڈنگ لونز ہیں اور اومنی گروپ کے قرضے تراسی مرتبہ ری سٹرکچر کئے گئے اس جے آئی ٹی رپورٹ نے آصف زرداری کی کرپشن کی بہت سی کہانیوں سے پردہ فاش کیا ہے۔

قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کی کہانی پاناما لیکس سے شروع ہوتی ہے ان مقدمات کا کیا دھرا بھی عمران خان حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اسکے بچوں کی آف شور کمپنیاں جب پاناما لیکس کے دستاویزات میں افشا ہوئیں تو اپوزیشن کے دباؤ پر نواز شریف نے خود عدالتی کمیشن بنا کر تحقیقاات کروانے کا اعلان کیا تھا لیکن حکومت اور اپوزیشن کے مابین کمیشن کے ٹرم آف ریفرنسز پر اتفاق نہ ہو سکااگست2016ء میں نواز شریف کو نااہل کروانے کے لئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی گئی۔

فروری 2017ء کو سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے اوراپریل کو سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سناتے ہوئے تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی جس پر ن لیگ کے قائدین اور کارکنان نے مٹھائیاں تقسیم کر کے خوشی کا اظہار کیا۔جے آئی ٹی رپورٹ جولائی2017ء کو پیش کر دی جاتی ہے اور سپریم کورٹ 28جولائی کو سابق وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیتی ہے جس کے بعد نواز شریف نے متعدد بار عوامی جلسوں میں یہ سوال اٹھایا کہ مجھے کیوں نکالا۔

کسی بھی معاشرے میں جب کرپشن کا ناسور سر اٹھاتا ہے تو وہ معاشرے تباہی سے دوچار ہو جاتے ہیں پاکستان میں جس طرح سیاستدانوں کی کرپشن کہانیوں نے ہا ہا کار مچائی ہوئی تھی اس سے تو ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ملک اب کبھی ترقی و خوشحالی کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا جب آپ غیر ممالک میں جائیدادیں اور کاروبار بنا کر ان ممالک کی معیشتوں کو مضبوط کریں گئے تو آپ کے ملک کی معیشت کیسے مضبوط ہو سکتی ہے۔

یہ وہی سیاستدان آج قانون کی گرفت میں ہیں جو سمجھتے تھے کہ ان کا کبھی احتساب نہیں ہو سکتا لیکن آج مکافات عمل کے سامنے یہ بے بس و لاچار دکھائی دیتے ہیں ان کی چیخیں اور آہ و بکا اس بات کی غماز ہیں کہ یہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں لیکن سویلین اور عسکری قیادت یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ کرپشن اور کرپٹ افراد کا جب تک تدارک نہیں ہو جاتا یہ ملک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن نہیں ہو سکتا۔بلاتفریق احتساب وقت کی اشد ضرورت بن چکا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیب چےئرمیں اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ احتساب سب کا ہوگاچاہے وہ برسراقتدار ہیں یا نہیں ملک لوٹنے والوں کو چھوٹ نہیں دی جائیگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :