مہنگائی کیخلاف عملی اقدامات کی ضرورت!

بدھ 23 اکتوبر 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

ملک جہاں سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے وہیں حکومت کو اندرونی و بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے جبکہ عوام مسائل کے دلدل میں دھنسی جا رہی ہے۔اس وقت ملک میں اسی فیصد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں‘دس کروڑ کے لگ بھگ افراد بیروزگار ہیں‘کروڑوں افراد کے پاس علاج کے لئے کوئی سہولت موجود نہیں‘نوجوان نہ صرف تعلیم ‘صحت اور روزگار سے محروم ہیں ‘پچپن فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے‘کمر توڑ مہنگائی نے تو جیسے عام آدمی سے جینے کا حق تک چھین لیا ہے یہ ایسے مہلک مسائل ہیں جو عوام کی پشت پر کوڑے کی صورت برس رہے ہیں۔

موجودہ ملکی حالات کا زائچہ تو یہ بتا رہا ہے کہ جیسے حکومتی بیانات اس کی بے بسی کو ظاہر کر رہے ہیں ڈالر کی اڑان سے جو عوام پر مہنگائی کاعفریت نازل ہوا ہے اس سے عوام کے دلوں میں موجودہ حکومت کے لئے کوئی ہمدردی کے جذبات اجاگر نہیں ہوئے بلکہ اس مہنگائی کے سونامی نے تبدیلی سرکار سے عوام کو بد دل کر کے رکھ دیا ہے ۔

(جاری ہے)

کمر شکن مہنگائی کے سونامی نے پہلے ہی اشیائے ضروریہ عام آدمی کی دسترس سے دور کر دی ہیں اس وقت ملک بدترین معاشی بد حالی سے دوچار ہے برامدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں زرمبادلہ کے زخائر کم ترین سطح پر ہیں ریاستی امور چلانے کے لئے حکومت کے پاس پیسے نہیں جس سے ملک میں معاشی زبوں حالی کے سونامی نے عوام کو بے یقینی کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

موجودہ حکومت پر مفاد عامہ کے برعکس فیصلوں کی وجہ سے عوام کے تحفظات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو کہ اس وقت احتساب کے عمل سے گذر رہی ہیں ملک کے موجودہ حالات نے گویا ان کے سیاسی تن مردہ میں پھرسے جان ڈال دی ہے اور مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ آزادی مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے سر جوڑ چکی ہیں۔ اپوزیشن کا اصل مسئلہ مہنگائی نہیں اہل دانش بخوبی سمجھتے ہیں کہ شریف برادران اور زرداری نیب اور حکومت پر اس تحریک کے ذریعے ضروردباؤ بڑھا سکتے ہیں جس کا فائدہ اپوزیشن کو ہوگا اور حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گااوریہ ملک معاشی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کا بھی شکار ہو جائے گااور یہ صورتحال ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بڑی تکلیف دہ ہو گی۔

بدقسمتی سے تحریک انصاف کی کابینہ کے وزراء اپنی اپنی وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے عوام کو اپنے قول و فعل سے مایوس کن صورتحال سے دوچار کر رہے ہیں ایسی صورتحال میں عوام کو دور دور تک تبدیلی سرکارکے اقدامات کی بدولت ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی دکھائی نہیں دے رہی عوام حکومت کے مفاد عامہ کے بر عکس اقدامات کی بدولت مایوسی کے دوراہے پر آکھڑی ہے جس کی بنیاد پر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔

عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ حکومت کرپٹ افراد کا احتساب کر رہی ہے عوام تو حکومت کے اقدامات سے پریشان ہے کہ قومی دولت اور وسائل لوٹنے والے قومی مجرموں کے کئے دھرے کی سزا انہیں کیوں دی جارہی ہے بے شک حکومت کرپٹ افراد کو آئین و قانون کے مطابق سزا دے لیکن عوام سے کئے وعدوں کی پاسداری کے بر عکس ایسے اقدامات نہ اٹھائے جائیں جس سے عوام کی کمر میں مزید خم پڑ جائے۔

سات دہائیوں سے خودساختہ جمہوریت کے پروردہ حکمرانوں نے پہلے ہی اس عوام کو فریبی نعروں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا اگر تحریک انصاف کی حکومت بھی عوام کی ترجیحات کے مطابق اقدامات نہ اٹھا سکی تو پھر اس ملک اور عوام کو بحرانوں کی دلدل سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ملک کی نصف سے زائد آبادی پہلے ہی خط غربت کی لکیر کے نیچے بنیادی سہولیات کے بغیر اپنے شب و روز بسر کر رہی ہے عوام نے موجودہ حکومت کو اس لئے منتخب نہیں کیا تھا کہ عوام کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا جائے۔

عوام تو پہلے ہی اس سے قبل حکمرانوں کے روٹی‘کپڑا اور مکان ‘بدلتا پاکستان اور کھپے پاکستان جیسے دلپذیر نعروں کے نشتروں سے چھلنی ہے شاید تحریک انصاف کی حکومت ان زخموں کا مرہم بنتی لیکن حکومت نے عوام کو اپنے اقدامات اور بیانات کی بدولت مایوسی کے دوراہے پر لا کھڑا کیا۔المیہ یہ ہے کہ چاروں موسموں سے مزین‘بہترین آبپاشی نظام‘زراعت‘قدرتی ذخائر‘بہترین جغرافیہ کا حامل ملک اپنی عمر کی اکہتر بہاریں گذارنے کے باوجود اغیار کی دی ہوئی بیساکھیوں کے سہارے لاغر قدموں سے چل رہا ہے۔

ایماندار اور پرعزم قیادت کے فقدان کے باعث یہ ملک ابھی تک اپنی اساس سے آشنائی حاصل نہ کر سکاجس کی وجہ سے ہر آنیوالے اشرافیہ حکمرانوں نے اس بے دردی کیساتھ اس کی قومی دولت اور وسائل کیساتھ کھلواڑ کیا کہ اس ملک میں پیدا ہونیوالے ہر نومولود کی سانسیں تک صیہونی و دجالی قوتوں کے پاس گروی رکھ دیں۔اس وقت معشیت کی ناؤ ڈوبتی چلی جا رہی ہے ادارے خساروں کے بوجھ کے باعث تباہ حال ہیں‘کمر شکن مہنگائی‘بیروزگاری‘دہشتگردی‘انصاف کی عدم دستیابی‘کرپشن و بدعنوانی جیسے مہلک مسائل کھٹن چیلنجز بن کر حکومت کی گرہ سے بندھ چکے ہیں لیکن تاحال حکومت ریاستی امور تک چلانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے جس سے اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ آنیوالے دن عوام کے لئے کسی سوہان روح سے کم نہیں جس کے باعث عوام کو ان مشکل حالات کا سامنا کرنے کے لئے پل پل ذہنی‘قلبی اور اعصابی اذیت سے گذرنا پڑے گا۔

ان حالات سے قطع نظر حکومت کو چاہیے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جس سے مزید مہنگائی نہ بڑھے ایسا نہ ہو کہ عوام ایسی تبدیلی سے بلبلا اٹھے۔عوام تو پہلے ہی اکہتر برس سے حکمرانوں کی دی گئی خود ساختہ جمہوریت کے عوض حیرت کدوں کے در پر سر پھٹکتی جمہوری لوازمات کی تلاش میں سرگرداں ہے اگر یہ حکومت بھی اسے طوطا چشم دلپذیر وعدوں کی بھینٹ چڑھا دے گی تو پھر یہ عوام جو پہلے ہی سیاسی دھوکہ منڈی میں نیلام ہوتی آرہی ہے اس کو اس فریبی سیاست کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کے لئے کون سا مسیحا آئے گا۔

گو حالات مشکل ترین ہیں لیکن حکومت کو چاہیے کہ عوام کو ریلیف دے کیونکہ اس حکومت کے ساتھ عوام اور آنیوالی نسل نو کا مستقبل وابستہ ہے۔ روٹی‘کپڑا ‘مکان‘تعلیم اورصحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے عوام کو اقوام متحدہ کے چارٹر آئین پاکستان کے مطابق بنیادی حقوق چاہیے ۔ ہر وہ حکمران روز محشر جوابدہ ہے جو عوام کے دوام سے مسند اقتدار پر براجمان ہوا ہے وزیر اعظم عمران خان نے جو عوام کی آنکھوں میں خوش کن تبدیلی کے خواب چنے ہیں ان کو ٹوٹنے سے بچائے عوام نیا پاکستان کی شکل میں مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے لئے آپ کی پشت پر کھڑی ہے لیکن عوام کی ترجیحات کے بر عکس فیصلے نہ کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :