جنوبی پنجاب پر سیاست ؟

پیر 16 مارچ 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

 تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابات سال 2018ء سے قبل نہ صرف جنوبی پنجاب کو ایک الگ حیثیت دے کر صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا بلکہ اس اعلان کی تکمیل کا اعادہ بھی کیا تھااور یہی وجہ تھی کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ کے دوام سے اچھا خاصا سپورٹ بھی کیا۔جنوبی پنجاب کو ایک الگ شناخت دینے کے مطالبہ کو اس وقت مزید تقویت ملی جب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی پر مشتمل گروپ نے باقاعدہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کیااور یہ اعلان جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے سے مشروط تھا۔

اس اعلان کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے نہ صرف سو دن کے اندر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی عملی شروعات کا اعادہ کیا تھا بلکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس صوبہ کے قیام کے سلسلے میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔

(جاری ہے)

سو دن گذرنے کے بعد بھی تحریک انصاف اپنے کئے گئے اعلان کو تعبیر نہ دے سکی اب ڈیڑھ برس بعد ایک بار پھر تحریک انصاف کی حکومت نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا بہاولپور میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ بنایا جائیگا جو آئندہ ماہ سے اپنا کام شروع کرے گا وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ تعینات کئے جائیں گے ۔

اگر پاکستان میں صوبے قائم ہونے کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو قیام پاکستان سے لے کر 1969ء تک ملک میں پنجاب‘سرحد اور سندھ تین صوبے تھے اور 1969ء میں ہی بلوچستان کو بھی صوبہ کا درجہ دے دیدیا گیا تھا اور اس کے بعد اب تک کوئی نیا صوبہ نہیں بنایا جا سکا۔ پنجاب جو کہ بارہ کروڑ نفوس پر مشتمل ملک کا سب سے زیادہ آبادی کا حامل صوبہ ہے اس کے چھتیس اضلاع میں سے صرف لاہور میں ستاون فیصد بجٹ خرچ ہو تاہے جبکہ جنوبی پنجاب جو کہ پنجاب کا جنوبی حصہ ہے اس حصہ میں آباد اضلاع میں ایسے افراد بھی مقیم ہیں جن سے روزگار‘تعلیم اور صحت جیسی سہولیات کوسوں دور ہیں جنوبی پنجاب کے لوگ اپنے مسائل حل کروانے کے لئے کئی کئی گھنٹوں کی مسافت طے کر کے صوبائی دارالخلافہ لاہور کا رخ کرتے ہیں جنوبی پنجاب میں انتظامی اکائی نہ ہونے کے باعث وہاں کے لوگ مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے احساس محرومی سے دوچار ہیں۔

2008ء میں پیپلز پارٹی نے پنجاب کے اس جنوبی حصہ کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ پیپلز پارٹی کا سیاسی نعرہ عمل کی حد عبور نہ کر سکا اور اس سے قبل مسلم لیگ ن نے تو پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لئے قرار داد بھی پیش کی لیکن یہ قرار داد بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تک ہی محدود رہی سیاسی جماعتوں کے اس دو رنگی طوطا چشم دلفریب سیاست کا انداز تو ایسا ہے کہ ایک طرف یہی سیاسی جماعتیں کھلے لفظوں جنوبی پنجاب کو الگ شناخت دینے کے لئے بے تاب تو نظر آتی ہیں جب کہ دوسری جانب وہاں کی عوام کو قومیت کے نام پر تقسیم کر کے فنڈنگ بھی کرتی نظر آتی ہیں جس سے اخذ کرنا دشوار نہیں کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے میں یہ سیاسی جماعتیں خود بڑی رکاوٹ ہیں۔

جنوبی پنجاب کے لوگ آج پالیسی سازی‘انتخابی عمل‘انتقال اقتدار‘قانون سازی جیسے معاملات میں حصہ نہ لینے کے باعث احساس محرومی کے بوجھ تلے دبے ہیں ان کے لئے تعلیم‘صحت اور روزگار جیسی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔صوبہ پنجاب کی انتظامی اکائی کی صلاحیت اس قابل نہیں کہ بارہ کروڑ افراد کے لئے اقتصادی‘ترقیاتی اور صنعتی توازن کو قائم رکھ سکے اگر پنجاب کو زبان اور قومیت سے بالاتر ہو کر تقسیم کر کے ایک اور انتظامی اکائی بنا دی جائے تو جہاں کم از کم پسماندہ اضلاع کے غریب و متوسط طبقہ کے افراد اپنے مسائل اور انتظامی معاملات احسن انداز میں حل کروا سکیں گے وہیں چھوٹے اضلاع میں ملک و ملت کی صلاحیتیں غرق نہیں ہو ں گی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلہ کو لسانیت کی ہوا نہ دی جائے لیکن لسانی بنیاد پر اگر ان لوگوں کو شناخت مل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ پاکستان میں بننے والے صوبوں میں صوبہ خیبر پختونخوا میں نوے فیصد پشتون آباد ہیں اور اسی طرح سندھ اور بلوچستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ملک میں بسنے والی تمام قومیتیں‘مذاہب اور زبانوں کے حامل افراد اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نقشہ کو مکمل کرتے ہیں یہ قومیتیں‘مذاہب اور زبانیں پاکستان کا حسن ہیں جو زیور کی طرح ہمارے دلوں میں کھنکتا ہے ۔

اگر تحریک انصاف اپنے وعدے اور اعلان کے مطابق جنوبی پنجاب کے پانچ کروڑ سے زائد لوگوں کو الگ صوبہ دے کر شناخت دینے میں کامیاب ہو گئی تو وہاں کے لوگوں کے سروں پر چھائے احساس محرومی کے بادل چھٹ جائیں گے اگر ملک کے چاروں صوبے ملکی ترقی و خوشحالی میں ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں تو یقیننا جنوبی پنجاب بھی صوبہ بن کر ملکی ترقی و خوشحالی کا ضامن بنے گا حکومت کو اخلاص کیساتھ اسے صوبہ بنانے کے لئے عملی شروعات کی اینٹ چن دینی چاہیے۔

ہمیں دنیا میں آباد ممالک میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جہاں زیادہ صوبے یا ریاستیں ہیں وہاں مسائل کی کثرت پائی جاتی ہو بلکہ زیادہ انتظامی اکائیوں سے فیڈریشن مضبوط ہوتی ہے جہاں لوگوں کو حقوق نہ دئیے جائیں اور ان کے جائز مطالبات سے چشم پوشی کی جائے وہاں دلوں کی کوکھ میں نفرتیں اور بغاوتیں جنم لیتی ہیں۔دنیا میں صوبوں اور ریاستوں کے تناظر میں دیکھ لیں پاکستان سے کم آبادی کے حامل ممالک ترکی‘افغانستان اور ایران میں زیادہ انتظامی اکائیاں ہیں ترکی میں 81افغانستان میں 34اور ایران میں 31صوبے ہیں امریکہ میں اس وقت پچاس سے زائد ریاستیں ہیں۔

دیکھنا تو یہ ہے کہ آئین پاکستان کے تحت نیا صوبہ کیسے وجود میں آسکتا ہے اگر گنجائش نہیں تو پارلیمان میں قانون سازی کی جا سکتی ہے اس وقت ملک میں دو بڑی قومی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں یہ جماعتیں اخلاص کے ساتھ حکومت کیساتھ مل کر یہاں کے لوگوں کو حقوق اور ان کے جائز مطالبے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو جنوبی پنجاب صوبہ بھی بن جائے گا اور وہاں کے لوگوں کے مسائل بھی حل ہوں گے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جماعتیں حکومت کے ساتھ مل کر جنوبی پنجاب کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بٹھائیں اور ان کے جائز مطالبات کا یقینی حل تلاش کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہاں کے لوگ ملکی ترقی میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کلیدی کردار ادا کرینگے۔

اب ایسی سیاست کی گنجائش نہیں جو کسی شورش کو ہوا دے اور نہ ہی یہ ملک و ملت اس کی متحمل ہے وہاں کے لوگوں کے حقوق کی بازیابی اور ان کے جائز مطالبات کا حل اولین ترجیح ہونی چاہیے یقیننایہ ایک مشکل اور اعصاب شکن صبر آزمامرحلہ ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں جنوبی پنجاب پر سیاست سے بڑھ کر ان کے حقوق اور مطالبات کے حل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اب یہ وقت طے کرے گا کہ تحریک انصاف کی حکومت جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لئے وعدے کی پاسداری کو یقینی بناتی ہے یا ایکبار پھر یہ مسئلہ ٹیسٹ ٹیوب سیاست کی نذر ہو جائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :