ضبط کروں میں کب تک آہ!

بدھ 19 اگست 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

ناکافی حکومتی اقدامات کی بدولت ملک آج کمزور ملکی معشیت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ لوڈشیڈنگ‘ رشوت‘کرپشن‘غیر مئوثر احتساب کا کھیل‘انصاف کی عدم دستیابی‘تھانہ کلچر َاقرباء پروری جیسے مہلک مسائل سے جوجھ رہا ہے ۔موجودہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا جائزہ کسی بھی شعبے کی کارکردگی سے لیا جا سکتا ہے ابھی تک ملک سمیت کسی بھی شعبے کی درست سمت کا تعین نہیں ہو سکا اور یہ صورت حال موجودہ جمہوری حکومت کی ناکام گورننس کا کھلا عندیہ دے رہی ہے ان موجودہ حالات سے اخذ کرنا دشوار نہیں کہ ملک عزیز اس وقت کن نازک مراحل سے گذر رہا ہے۔

اقتداری طبقے اور اپوزیشن کا جو عوام کیساتھ عمومی رویہ ہے وہ کورونا آفت اورمسائل سے نبرد آزما اور بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات سے محروم غریب عوام کے رستے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

ملکی پارلیمان کے لئے عوام اپنے ووٹ کے دوام سے منتخب کر کے ملک کی کسی بھی قومی سیاسی جماعت کو اس لئے منتخب کرتی ہے تا کہ منتخب حکمران جماعت اپنے اقدامات کی بدولت پارلیمان میں ایسی قانون سازی کرے کہ عوام کا معیار زندگی جہاں بہتر ہو وہیں ملکی ترقی و خوشحالی کے نئے در بھی کھل سکیں۔

ایک ووٹر منتخب جمہوری حکومت سے یہی امید لگا سکتا ہے کہ اس کی زندگی آسودہ حال ہو‘غربت مٹے‘بچے اسکول جائیں‘روزگار ملے‘بنیادی انسانی ضروریات کے مسائل حل ہو سکیں‘گاؤں‘محلہ‘قصبہ‘شہر‘صوبہ اور ملک جمہوری ثمرات کا آئینہ دار ہو ریاست اس کے جان و مال کی محافظ ہو غرض اقوام متحدہ کا چارٹر آئین پاکستان کا آرٹیکل 38جو ریاست کو پابند کرتا ہے کہ عام آدمی کو روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں آئین پاکستان کی یہ شق معطل ہو کر عام آدمی کے مسائل میں اضافہ کا موجب نہ بنے۔

یہ ایک عام ووٹر کے وہ خواب ہیں جو ایک منتخب جمہوری حکومت منتخب ہونے سے قبل الیکشن کے دوران اپنی تقریروں‘وعدوں‘دعوؤں‘اعلانات اور منشور کے ذریعے الفاظ کے گورکھ دھندے سے اس کی بے آس آنکھوں میں چنتی ہے۔غریب ووٹر کی تمنائیں ان بیان کردہ مندرجہ بالا حقائق سے عبارت ہوتی ہیں سیاست عوام کی خدمت سے مشروط ہے یہ کاروبار نہیں لیکن زر کے اس نظام میں آج وووٹر کا دم اس طوائف الملوکی کو دیکھ کر گھٹتا جا رہا ہے وہ اپنے ووٹ دئیے جانے پر پشیمان ہی نہیں بلکہ اپنے حالات کے پیش نظر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو چکا ہے۔

جمہوریت کے نام پر سیاسی اشرافیہ نے جو کھیل رچایاہے وہ ایک نوٹنکی تماشہ بن کر رہ گیا ہے۔ ملک عزیز اپنی عمر کی تہتر بہاریں بتاچکا لیکن اس کا باسی آج بھی آسودہ حال نہیں اس کی پہنچ سے بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات کوسوں دور ہیں۔ اس ملک کے سینے پر ایک نشیب و فراز سے جڑی سیاسی تاریخ رقم ہے کتنی حکومتیں قائم ہوئیں اور کتنی حکومتوں نے عوامی دوام کے مزے لوٹے لیکن روٹی‘کپڑا‘مکان ‘تعلیم اور صحت جیسی سہولیات ریلیف کی صورت عام آدمی کی دہلیز عبور نہ کر سکیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال اور بہترین جغرفیائی محل وقوع رکھنے والے ملک و ملت کے لئے المیہ ہے بد قسمت عوام آج بھی آفات سمیت مسائل کے ہمالیہ سے ٹکرا رہی ہے یہ قوم کی مہربان سیاسی قیادتوں کو اچھی طرح ازبر ہے۔

جہاں اشیائے ضروریہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں اور حکومت کے دعوؤں پر بیوروکریسی اپنے عملی تضاد کے ذریعے پانی پھیر دے اور عوام مارکیٹوں ‘تجارتی مراکز اور بازاروں میں جا کر حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث خریداری سے محروم ہو جائے تو یہ حالات قحط جیسی کیفیت کے ہی نہیں بلکہ حکومت کی بیڈ گورننس کے بھی غماز ہوتے ہیں ۔

ستمگر حالات عوام کو غربت و بیروزگاری کے مزید حاشیے کی جانب دھکیل رہے ہیں اور حکومت کی دو سالہ ریلیف سے عاری کارکردگی صرف احتساب۔احتساب۔احتساب کا راگ الاپنے سے آگے کی حد عبور نہیں کر پائی اور حکومت کے بے رحم احتساب کا پیمانہ یہ ہے کہ کسی بھی چور‘لٹیرے اور قومی مجرم سے ایک دھیلا بھی وصولی ممکن نہیں ہوئی جس کے باعث عوام کی نظروں میں موجودہ حکومت کا دو رنگی بے رحم احتساب کا نعرہ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے اور تبدیلی سرکار کا یہ عمل باعث افسوس ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن کی حالت اس مردہ گھوڑے جیسی ہو چکی ہے جو صرف اپنے مفادات کے تحفظ اور سزاؤں سے معافی تلافی کے لئے چپ سادھے دبک کر بیٹھ گئی ہے عوام کے حقیقی مسائل کے حل کے لئے اپوزیشن کا کہیں بھی حکومت کو دباؤ میں لانے کا کوئی عملی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے سیاستدانوں کے نزدیک صرف اپنے مفادات کا تحفظ عزیز تر ہے۔

قیادت کے فقدان نے اس ملک عوام کو اس حد تک مسائل کا شکار کر دیا کہ اب عام آدمی اپنے مسائل سے چھٹکارہ پانے کے لئے خود سے الجھ کر رہ گیا ا ن حالات میں عام آدمی بھلا کیسے قومی دھارے میں شامل ہو کر ملکی ترقی میں ہاتھ بٹا سکتا ہے ۔ملک کے موجودہ حالات نے جہاں عام آدمی کے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے وہیں دانشوران قوم کا کردار بھی گراوٹ کا شکار ہو کر سوالیہ نشان بن گیاہے دن رات ٹی وی چینلز پر جو ٹاک شو کے نام پر عجب تماشا لگایا جاتاہے اس کے بعدکوئی اور ڈرامہ دیکھنے کی تشنگی باقی نہیں رہتی ۔

صحافت جو مقدس پیشہ ہے اس کے گردبھی لفافہ اور درباری جیسے الزاماتی الفاظ سرخ دائرہ لگا چکے ہیں وہ قلم جو تیغ جوہر دار تھا جو وطن کا نشان اور حق کا پاسبان تھا اہل قلم نے اپنی قلم سے تلوار کا کام لیاعلامہ ابن تمیمہ سے جب قلم اور کاغذ چھین لیا گیا اور اسے پس زنداں دھکیل دیا گیا تو انھوں نے جیل خانہ کی دیواروں پر کوئلے سے لکھناشروع کر دیا۔

جن کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے وہ غلط افکار و نظریات کی کاٹ کرتے ہیں ان کا قلم اشخاص کے خلاف نہیں بلکہ غلط اور مسموم نظریات کیخلاف اٹھتے ہیں لیکن افسوس نجانے اس قلم کی آتش نوائی کہاں چلی گئی جو علمی‘دینی اور اقتداری حلقوں میں آگ لگا دیتی تھی جو قوموں کو درست دھارے پر گامزن کرنے میں ممدومعاون ہوتی تھی جو عقل کل کے دعویدار حکمرانوں کی کارکردگی میں شگاف ڈال کر ان کے دعوؤں اور مفاداتی اقدامات کے غبارے سے ہوا نکال دیتی تھی۔

حالات یہ ہیں کہ کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی نجانے کس کے ناکردہ گناہوں کی زد میں یہ بے حس عوام سزا جھیل رہی ہے ۔حالات کی کاٹ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ملک میں رائج قطعا یہ جمہوری نظام نہیں بلکہ یہ ایسا خود ساختہ فرسودہ نظام ہے جو صرف طاقتور کے در کا اسیر ہے جس کے بے رحم سائے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔جمہوریت کے نام پر جمہور کا کیسے معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے یہ سوچ کر ذہن منجمد اور چیخ حلق میں اٹک کر رہ جاتی ہے ۔

حکومت کے بے حس اقدامات میں اب کوئی پردہ داری نہیں رہی ہر چہرہ حکومتی بے حسی اور اپنی بے بسی کا ظاہری اعلان کر رہا ہے مجھ جیسے قلمکاروں کو ابوجہل سے بیر نہیں بلکہ اس جہل سے بیر ہے جس کی وہ نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں جہل کے پھیلاؤ پر اہل قلم‘ادیب اور دانشور کا صبر کرنا مشکل ہے ان حالات میں قلم ان کے ہاتھ میں تیغ اصیل بن جاتا ہے اور پھر وہ ہاتھ میں قلم پکڑتے ہیں اور لکھتے ہیں۔۔۔
ضبط کروں میں کب تک آہ
چل رے خامہ بسم اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :