ننگا نہائے کیا اور نچوڑے کیا؟

اتوار 25 جولائی 2021

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

مشہور کہاوت ہے”مفلسی میں آٹا گیلا“یعنی ایک شخص پہلے ہی مصیبت میں گھرا ہوا ہو اور اس پر دوسری مصیبت آن پڑے۔آج یہی کہاوت ملک کے لوگوں پر صادق آرہی ہے جب ملک پہلے ہی معاشی‘سماجی حالات اور دیگر بحرانوں سے دوچار ہو ایسے میں اشیائے ضروریہ کے دام بڑھا دئیے جائیں یہ تو ملک میں خط غربت کی لکیر کے نیچے بسنے والے لوگوں کے ساتھ سراسر ظلم کے مترادف ہے ۔

ملک میں پٹرول‘ڈیزل کے بڑھتے ہوئے داموں کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں یعنی قیمتیں اپنے شباب پر ہیں اور لوگ پریشان ہیں ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں روزافزوں ہونے والا اضافہ کا خمیازہ عوام کے گلے میں سلگتے طوق کی طرح کب تک لٹکتا رہے گا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ سے اشیائے ضروریہ کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں مہنگائی میں ہوشر ربا اضافہ نے غریب اور متوسط طبقہ کے گھر کا بجٹ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔

(جاری ہے)

حکومت کی جانب سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اعتدال میں لانے کے لئے کوئی چیک اینڈ بیلنس کا پیمانہ نہیں جس کے باعث بڑھتی ہوئی مہنگائی حکومتی چشم پوشی کی وجہ سے لوگوں میں اضطرابی کیفیت کا موجب بن رہی ہے۔لوگوں میں بے لگام مہنگائی کے باعث عوام کش حکومتی اقدامات کے خلاف شدید ردعمل پایا جا رہا ہے لیکن افسوس یہ کہ ان کی دہائی صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔

ننگا نہائے کیا اور نثوڑے کیا یعنی ایک طرف روزمرہ اشیاء کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کو معاشی طور پر عدم استحکام سے دوچار کر کے بے حال کیا ہوا ہے دوسری جانب کورونا کی وبا فرشتہ اجل بن کر ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے تو ان کربناک حالات میں لوگ جائیں تو جائیں کہاں؟عوام حکومت سے شاکی ہیں مہنگائی کے اس عفریت کو لگام دینے کے لئے حکومت کے پاس کیا منصوبہ بندی ہے اس کو واضح کرنا چاہیے۔

تصور کیا جا رہا ہے کہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اسی برق رفتاری کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا تو عوام پر مزید گرانی کا بوجھ پڑے گا کورونا کے باعث لاک ڈاؤن نے پہلے ہی لوگوں کو بیروزگار کرتے ہوئے ان کی جیبوں کا صفایا کر دیا ہے اب تو غریب اور متوسط طبقہ کے پاس نا تو کوئی کاروبار ہے اور نا ہی کوئی دھیلا ٹکا‘جس کے باعث وہ پائی پائی کو محتاج ہے۔

سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ ایک طرف حکومت لوگوں کی مصیبتیں کم کرنے کرنے کے لئے ہمدردی کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے حکومتی بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان سے بہتر لوگوں کے سلگتے مسائل کا کسی اور کو ادراک نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت برق رفتار مہنگائی پر خاموش کیوں ہے۔عوام عوامی نمائندوں کو منتخب کر کے ایوان میں اس لئے بھجواتی ہے تاکہ یہ ایوان میں مفاد عامہ کے لئے ایسے اقدامات اٹھائیں جس سے ریلیف عوام کو دہلیز پر میسر آئے ۔

آج پٹرول 119روپے لٹر فروخت ہو رہا ہے اس کے باوجود حکومت تماشا دیکھ رہی ہے کیا حکومت اس دن کے انتظار میں ہے کہ لوگ اس مہنگائی کے عفریت سے تنگ آکر سڑکوں پر آ کر احتجاج پر مجبور ہو جائیں؟دراصل اس وقت حالات کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت مہنگائی کو جلد از جلد کنٹرول کرنے کا جامع عملی لائحہ عمل مرتب کرے اگر حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تخفیف کر دے تو عوام کو مہنگائی کی مار سے بچایا جا سکتا ہے۔

ظاہر ہے ہنگامی حالات ہنگامی انتظامات کے متقاضی ہوتے ہیں اس وقت فوری ضرورت ہے کہ عوام کو راحت فراہم کی جائے پٹرولیم مصنوعات پر لگے ٹیکس کم کر کے ان کی قیمتوں میں اعتدال لایا جائے اشیاء خوردنی خاص کر خوردنی تیل اور سبزیوں کی قیمت مناسب سطح پر لانے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات کئے جائیں۔گرانی کے اسباب کی معاشی وجوہ اور دانشورانہ بحث ہونی چاہیے زمینی حقائق ایسی درد ناک دستک دے رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا اشارہ نہیں مل رہا کہ مہنگائی کی مار سے مستقبل قریب میں کوئی راحت مل سکے۔

ذخیرہ اندوز مافیا پوری شدت کے ساتھ متحرک دکھائی دیتا ہے لیکن شاید حکومت ذخیرہ اندوزوں کو لگام دینے میں غفلت برت رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے حکومت اسے روکنا ہی نہیں چاہتی۔اس وقت حالات متقاضی ہیں کہ شہری بیروزگاری کے خاتمہ کے لئے اقدامات اٹحائے جائیں دیہی بے روزگاری کو بھی قابو میں لایا جائے اور دیگر قلیل مدتی اقدامات جو ماہرین معاشیات بہتر سمجھیں اٹھائے جائیں۔

وقت اور حالات تیزی کے ساتھ اپنے تیور بدل رہے ہیں حکومت کو ادارک کرنا ہو گا کہ آج کے معاشی حالات کی سیاسی قیمت موجودہ حکومت کو ادا کرنا پڑ سکتی ہے کیونکہ جذبات ابھار کر بار بار الیکشن نہیں جیتے جا سکتے عوام کبھی تو اپنی پریشانیوں اور ان کی اصل وجوہ کا ادراک کریں گے ۔اس وقت عام آدمی کے سامنے روزگار سب سے بڑا مسئلہ بن کر کھڑا ہے بے روزگاری اور مہنگائی کے ستائے لوگوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے معاشرہ کے اندر لوٹ مار اور افراتفری کی تشویشناک صورتحال جنم لے رہی ہے خوراک کی قلت اور تنگ دستی کی وجہ سے خانگی تشدد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لوگ پیسے کی تنگی کی وجہ سے ذہنی طور پر مفلوج ہوتے جا رہے ہیں۔

سائکولوجسٹ کہتے ہیں کہ بھوک سے تڑپ کر صبر کا دامن چھوڑنے والے جرم کی وارداتوں میں پڑتے جا رہے ہیں یہ مہذب معاشرے کے لئے کسی طور بھی اچھا نہیں حکومت کو بے روزگار لوگوں کی ضرورتوں اور ان کی نفسیات کو سمجھنا چاہیے ۔سوال اٹھتا ہے کہ ایسے سفاک حالات کی دستک پر بھی حکومت توجہ دینے سے کیوں قاصر ہے تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ میڈیا عوام کی ہمنوائی کا حق ادا کرنے سے کیوں گریزاں ہے کیا سچ پر پردہ ڈالنا ممکن ہے بر سر اقتدار حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ صرف خوش نما بیانات سے عوام کے پیٹ میں سلگتی آگ کو اب ٹھنڈٓ اکرنا ممکن نہیں رہا اس ملک کی عوام نے انہیں منتخب کر کے ایوان میں اس لئے نہیں بھیجا تھا جس عوام کو انہوں نے آج بے بسی کے عالم میں لا کر چھوڑ دیا ہے۔

اس وقت حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج روزگار کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے تا کہ ایس او پیز پر عمل در آمد کے ساتھ ساتھ کورونائی وبا سے بے حال چھوٹے کاروبار کا پہیہ چل سکے اور لوگ ستم گر حالات میں کم از کم بھوک سے نہ مریں۔لاک ڈاؤن جہاں بہت سی زندگیاں بچانے کا سبب بنتا ہے وہیں کئی زندگیوں کو زندہ درگو بھی کر دیتا ہے اگر حکومت نے بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مہلک مسائل پر قابو پانے میں دیر کی تو بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کا عفریت بہت کچھ بہا کر لے جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :