سچ کی پکار

جمعہ 21 فروری 2020

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

 عام طبقہ کا گھر چلانا مشکل مگر ریلیف ملنے کی امیدیں دم توڑرہی ہیں اور لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں ملک کی اکثریتی آبادی کم آمدنی اور بیروزگاری علاج ومعالج سے محروم او ر کمسن بچوں سے محنت مزدوری کروانے پر مجبور ہیں ایسی صورت کی حقیقت معلوم ان کے ساتھ دکھ سکھ میں شامل ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ ٹی سٹالوں پر عام طبقہ اور مزدو ی دیہاڑی کرنے والوں کی بیٹھک اور بھات بھات کی بولیاں گرماگرم چائے کے گھونٹ چسکے کبھی کبھی تلخ اورشریں گفتگوہر ایک کو دل کی بھراس نکالنے ،دکھ درد سننے سنانے کا ماحول ملتا ہے، اس بیٹھک میں دلوں کی سچی آوازیں جو ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتیں میرا بھی ان ٹی سٹالوں پر آنا جانا اور ان کی گفتگوسننے سنانے کا موقع ملتا ہے جبکہ میرے دوست واحباب کی اکثریت میرا اس ماحول میں آنا جانا پسند نہیں ۔

(جاری ہے)


کالم نویسی ٹیبل پر بیٹھ کر کرنے کا رواج عام ہے اخبارات ملکی غیر ملکی انٹر نیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا سہارا لیکر کالم میں اظہار کر دینا کافی نہیں مگر ملک کی اکثریتی آبادی کا دکھ درد جاننے کیلئے کالم نویس کو ان کے ماحول میں کچھ وقت گزانے سے ہی جو حقائق ملتے ہیں وہی عام طبقہ کی پکار ہے جس طرح ایک جنگی رپورٹر محاذ جنگ پر جا کر اپنے میڈیا کو رپورٹ بھجواتے ہیں وہ اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر رپورٹنگ کرتے ہیں۔یہاں بی بی سی کے نامہ نگار مارک ٹیلی کا تذکرہ ضروری ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بی بی سی نشریات جنگی محاذ سے مارک ٹیلی کے حوالے اور آواز سے سننے کو ملتی تھی ریڈیو کے دور میں لوگوں کا جم گھٹاریڈیو سننے کیلئے لگارہتاتھامیں مارک ٹیلی کو عام طبقہ کے قریب جا کر رپورٹنگ کرتے دیکھاجبکہ ریڈیو پاکستان اور ہمارے قومی اخبارات کا کردار بھی قابل دید تھاان کے نمائندوں نے جنگی محاذ سے رپورٹنگ کی ہر طبقہ فنکاروں شاعروں ادیبوں اور عوام نے افواج پاک کے حوصلے بڑھانے مالی جانی قربانیاں دے کر تاریخ رقم کی بات ٹی سٹالوں پر گفتگوکی جارہی تھی۔
 ٹی سٹالوں عام طبقہ کے وسیب میں بیٹھنے سے ہی ان کے مسائل دکھ دردکو دیکھنے ان کی سوچ سے جو آگائی ملتی ہے یہ ہی عوام کی پکار اور آواز ہے لاہور میں ماضی سے لیکر پاک ٹی ہاوٴس لکھاریوں شاعروں دانشوروں سیاست دانوں سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کا گڑھ چلا آرہا ہے۔ اسی طرح ملک بھر کے ٹی سٹال عام طبقہ مزدوروں کا ریسٹ کرنے دل کی آواز نکالنے ایک دوسرے کے دکھ درد سننے سنانے اور ڈپریشن کم کرنے سیاسی گفتگو کرنے کے پوائنٹ ہیں۔بابو ٹی سٹال پر دیہاڑی داروں مزدوروں میں بیٹھنے اور ان کی گفتگو سننے سنانے کا موقع ملا ۔ملک میں کمر توڑ مہنگائی پر بھر پور انداز میں اظہار کیا جا رہا تھا۔
مختار گاوٴں گاوٴں پھیری لگا کر بچوں کیلئے کماتاہے چیخ چیخ کر کہ رہا تھا میری بہن بیماری کا مقابلہ کرتی آرہی ہے اس کے علاج کیلئے چنیوٹ مریضہ کو لے کر گیا چل پھر بھی نہیں سکتی بمشکل ایک دوست کی منت سماجت کر کے رکشاء پر 36کلو میٹر کا سفر کر کے چنیوٹ ڈاکٹر تک پہنچے ڈاکٹر نے مریضہ کوچیک کیا سات سو فیس لینے کے بعد میڈیشن کی پرچی تھامادی میڈیشن سٹور پر گیا 7400روپے بل بنا ۔بل دیکھ کر سکتے میں آگیامیری جیب میں چار ہزار تھے اس کے علاوہ لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کو بھی کہا گیایہ ٹیسٹ بھی پانچ ہزار کے قریب تھے انتہائی کم آمدنی کے باعث اتنا مہنگا علاج میرے بس میں نہیں تھا بغیر علاج کے مایوس ہو کر گھر لوٹ آئے ۔مختار جو خود بھی بیمار ہے اس کی آنکھوں سے آنسوٹپک آئے اور کہنے لگا ہم لوگ تو علاج بھی نہیں کروا سکتے محمد صدیق مہنگائی کا رونا رو رہا تھایہ طبقہ بلا آخر وسائل نہ ہونے اور اپنی مالی مجبویوں کے باعث عطائیوں سے علاج کروانے پر مجبور ہے یہ مریض سسک سسک کر بستر مرگ پر پہنچ کر دم توڑجاتے ہیں۔
 ہسپتالوں کی صورت درست اور عام طبقہ کی آ واز ہے یہ کتنے دکھ کی بات ہے سولہ سالہ معافیہ نے سات سال قبل بیماری کے باعث تعلیم سے محروم ہو کر علاج کی بہتر سہولت نہ ہونے کے باعث معذور ہو گئی کیامیں اپاہج ہی زندگی گزاروں گی یہ پکارمعافیہ کی ہے چھ سالوں میں بہتر علاج کی سہولت میسر نہ آنے کے باعث شدید دردکرب میں دن رات گزرے اور ٹانگ کی ہڈی گل کر ختم ہو گئی تعلیم بھی ادھوری چھوڑنی پڑی والدخاندان کاواحد کفیل جوکہ امام مسجد تھا بیماری نے اس کوبھی نہ چھوڑااور سات بیٹیوں کا باپ بیروزہوگیا جبکہ حافظ محمد ارشد نے تنگدستی اور بیماری میں پانچ بیٹیوں کی شادیاں کردیں مگرمعافیہ کا علاج کروانے میں گھرکی تمام پونچی اورقرض خرچ سے اس خاندان کی مشکلات بڑھ گئیں ۔سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف کی ہدایات پر ڈسڑکٹ ہسپتال حافظ آبادمیں بھی چند روز علاج کے بعد ٹرخا کر فارغ کر دیا گیا۔ معافیہ نے بتایا اس ٹیکنالوجی کے دور میں علاج ممکن ہے مگر وسائل نہ ہونے اور غربت کے باعث میرا علاج نہ ہو سکا امیر زادی ہوتی تو اپاہچ ہونے سے بچ جاتی۔
 افسوس تو اس بات پر ہے سیاسی جلسوں جلوسوں پر کروڑوں کے اخراجات کئے جاتے ہیں یہ لوگ ٹھاٹ کی زندگیاں گزارتے آرہے ہیں مگر غریبوں کو نظر انداز کرتے آرہے ہیں کیا ہم انسان نہ ہیں جبکہ مغرب میں انسان تو کیا جانوروں کے علاج میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی افغانستان میں دوران جنگ چڑیاگھر میں بیمار شیروں ریچھ اور دیگر جانوروں کے علاج کے لئے یورپ سے ٹیم پہنچ جاتی ہے مگر یہاں غربت موت بن جاتی ہے اس پاکستانی لڑکی پکار یہی ہے مجھے اپاہچ ہونے سے بچایا جائے بیرون ملک علاج کی سہولت دی جائے کم از کم اپنے پاوٴں پر چل سکوں اقتدارکی خاطر اربوں روپے خرچ کرنے والوں کو یہ رقم دکھی انسانیت کے علاج ومعالج پر خرچ کرنے چاہیے ۔میری اس پکا رکو کون سنے گااندرون ملک اور بیرون ملک لوگو ں سے اس نے اپیل کی مگر علاج نہ ہوسکا ۔بیس سالہ خوبرو نوجوان بشیر ارائیں کو کینسر کر موذی مرض نے نگل لیا اس ماں اور بھائی بھی بیمارتھے یہ خاندان کا واحد کفیل علاج کرانے کیلئے تما م بونچھی فروخت کر کے معروف ہسپتال سے بھاری ٹیسٹ کروائے جب علاج کیلئے بھاری اخراجات بتائے گئے علاج کے بغیر گھر آ گیا۔ یہ معافیہ اور بشیر ہی نہیں ان جیسے بے شمار عام طبقہ کے مریض علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔
 وسیم عباس گلزارعلی احمد اور وہاں موجوددیہاڑی کرنے والوں نے اپنے دل کی آوازنکالتے ہوئے کہا ایک ماہ میں چار جمعہ المبارک کے ناغے سمیت بمشکل بیس دن کام ملتا ہے دس ہزار میں گزراوقات کرنا انتہائی مشکل ہے ۔اب تو مہنگائی بھی بلند ترین سطح پر دیہاڑی داروں کوئی پرسان نہیں مزدور اور دیہاڑی دار کوخوراک بھی انتہائی کم ملتی ہے۔ چائے کا کپ بھی بیس پچیس روپے میں ملتاہے۔ مہنگائی نے پہلے ہی ہمارے بچوں کے منہ سے گوشت دودھ فروٹ کے ذائقے بھی چھین لئے ہیں اب تو دالیں سبزیاں بھی خریدنی مشکل ہو چکی ہیں جبکہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے چائلڈ لیبر کروانے پر مجبور ہیں۔ حکمرانوں اور اپوزیشن والوں کو ہماری مشکلات کا اتہ پتہ تک نہیں حالانکہ وقت کے حکمرانوں کو کمزور طبقہ کی مشکلات کودور کرانا ان کے فرائض میں شامل ہے ۔سچ تو یہ بھی ہے دیہاڑی داروں کے علاوہ کم آمدنی والوں اور تنخواہ دار طبقہ بھی ایسے ہی مسائل سے دوچار ہے عام طبقہ یہی سوال کرتا ہے کب ریلیف ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :