حد ہوگئی ہے ۔۔

پیر 22 جون 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

خواہش غالب تھی کہ میں بھی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد کے لاہوریوں کے لیے استعمال کئے گئے نا مناسب الفاظ پرایک ایسا کالم لکھ ڈالوں کہ جس میں صحافی بھائیوں کی طرح ان کے خوب خبر لوں مگر پھر خیال آیا کہ ابھی دو ہفتے پہلے ہی تومیں نے بعض اشرافیہ کے رویوں پر لکھا تھا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھرتیاں میرٹ پر نہ ہوں اور خوشامدوں اور وفاداریوں پر عہدو ں کی بندر بانٹ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے ! آپا یاسمین راشد نے تین بار الیکشن لڑا مگر تینوں بار ہار گئیں، رنجیدہ ہوئیں تو ان کی دیرینہ وفاداری کو دیکھتے ہوئے انھیں حوصلہ افزائی میں انتہائی اہم عہدہ سونپ دیا گیا ورنہ لاہور کی زمین ایسی بانجھ تو نہ تھی کہ یہاں منتخب لوگوں میں کوئی اہل ہی نہ تھا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وبائی مرض کے پھیلاؤ میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ او ر وقت ٹپاؤ اقدامات نے اہلیت کا پردہ فاش کر دیا کہ وہ لاہور جسے ایک سابقہ خادم اعلیٰ یورپ بنا رہاتھا اسے ریڈ الرٹ زون قرار دے دیاگیا کہ ہر روز سو سے زیادہ جنازے اٹھ رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

ماسک ،سینی ٹائزر ،حفاظتی کٹس ، وینٹی لیٹرز ،ادویات سبھی کچھ ناپید اور اگر کہیں دستیاب تھا تو قیمت اتنی کہ عام آدمی کی خرید سے باہرمگر کسی نے پرواہ نہیں کی الٹا عوام کو ”جاہل قوم “کہہ دیاگیا۔

دراصل تبدیلی سرکار کے اکثریتی عہدے داران پیر نا بالغ ہیں کچھ نشہ اقتدار کا اثر ہے کہ زمین پر پاؤں نہیں لگتے اورجوابدہ ہونا اپنی شان میں گستاخی گردانتے ہیں اور بھلا دیتے ہیں کہ عام آدمی اور عہدے دار میں فرق ہوتا ہے عہدے دار کا ہر لفظ تاریخ کا حصہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے فلسفی متفق ہیں کہ لیڈران اور عہدے داران کو عام افراد سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے کہ وہ جذبہ خدمت اور اخلاص سے سرشار ہوں ،دور اندیش ہوں ،مضبوط قوت فیصلہ اور قوت برداشت کے مالک ہوں،ریاست میں رونما ہونے والے واقعات پر کڑی نگاہ رکھیں اور تشویش ناک امر کو منظر عام پر نہ لائیں بلکہ پس پردہ اخلاص پر مبنی ٹیمیں تشکیل دے کر مسائل کا حل کریں تاکہ خوشحال معاشرے کی تعمیر ہوسکے ۔

مگر ہمارے ہاں سب الٹا ہے کہ حکمران اور عہدے داران” پل میں تولہ پل میں ماشہ ،کبھی آنسو کبھی دلاسہ“ ہیں جبکہ کارکردگی میں انتقامی بیانیے ، جھوٹ پر مبنی منصوبہ بندیاں اورخیالی پلاؤ کے سوا کچھ بھی نہیں جبکہ باقی کے تمام حکمرانوں سے بڑھ کر اللّے تللّے اور پروٹوکول عروج پر ہیں ۔
 یہی وجہ ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی ناکامی ہمارا مقدر بن چکی ہے کہ وزیرخارجہ” دم درود “کرتا رہا اور بھارت دنیا کے طاقتور ادارے کی اہم ترین سیٹ لے اڑا کہ بھارت192 میں سے 184 ووٹ لیکر دو سال کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل ممبر منتخب ہوگیا ہے ،کیسے ہوگیا ہے ؟ ہم نے بھی ووٹ دے دیا ؟ ہمارا بیانیہ اتنا کمزور کیوں ہے ؟ ہم بھارتی جارحیت کو کیوں اجاگر نہیں کر پاتے ؟ اگر وہ منافق ہیں تو ہم کونسا اچھے ہیں کہ عوامی پیسہ کھاتے ہیں ،مودی کے مظالم کی داستان سناتے ہیں اور بھارتی جارحیت پر بیانات داغتے ہیں مگر نتیجہ صفر ہی رہتا ہے ہمارا اندرون بیرون ایک ہی حال ہے کہ ادھر کشمیر کا مسئلہ اجاگر نہیں کر سکے ادھر کرونا بے قابو ہوگیا کہ برطانوی اعدادو شمار کے مطابق اگر ہمارے اقدامات کا یہی حا ل رہا تو آئندہ ماہ ہر روز ہمیں پچاس ہزار سے زائد اموات کی خبر سننے کو مل سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر سمارٹ لاک ڈاؤن کا نام دیکر مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے اس کے ساتھ ہی 7روز کے لیے تفتان باڈرکو کھول دیا گیا ہے اور بیرون ممالک سے آنے والوں کا کرونا ٹیسٹ نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے اسی کہتے ہیں دوررس حکمت عملیاں ؟یعنی غفلت اور زیادتی کی حد ہوگئی ہے ۔

۔! ایسے ہی موقع کے لیے کہاگیا تھا ” سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں ۔۔علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں “۔
 مجھے کہنے دیجئے کہ بدقسمتی کے ساتھ ہمارا شمار ان ایشیائی ممالک میں ہوتا ہے جہاں ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر غالب رہتے ہیں ، بظاہر سیاسی رسی کشی دکھائی دیتی ہے اندرون خانہ سیاسی جماعتوں کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے کیونکہ مشترکہ مفادات سے ذاتی مفادات جڑے ہوتے ہیں اسی لیے نظام کبھی نہیں بدلتا اس پر طرّہ یہ کہ جو بھی برسر اقتدار آتا ہے ڈنڈا بردار ہوکر آتا ہے کہ نعرہ جمہوریت کا لگاتا ہے جبکہ اپنی تمام تر توانائیاں ایسے قوانین ترتیب دینے میں لگاتاہے جن کے ذریعے عوام کو جھکایا جا سکے نتیجتاً عوام بیزار ہوجاتے ہیں اور کسی نئے مسیحا کی راہ تکنے لگتے ہیں عوامی رائے یہی ہے کہ جنھوں نے کبھی گاڑی نہیں چلائی تھی انھیں ٹرک دیکر شاہرا ہ پر چھوڑ دیا گیا ہے جو کبھی نہیں سیکھ سکتے کیونکہ 18 ماہ میں میں کوئی پلاننگ یا ایسی کار کردگی نظر نہیں آئی جس سے عام آدمی کو ریلیف ملتااورہوس کا یہ عالم ہے بجٹ میں ارکان اسمبلی نے اپنی تنخواہیں کئی گنابڑھائیں جبکہ عا م آدمی کے لیے پھر کچھ نہیں ہے حالانکہ نیوزی لینڈ میں جب کرونا پھیلا تو وزیراعظم جیسنڈرا ارڈن اور ان کی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ نجی شعبے کے ورکرز سے اظہار یکجہتی کے لیے وہ اپنی تنخواہ سے20 فیصد کٹوتی کررہے ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں قیادت اور یکجہتی دکھانے کا یہی موقع ہے تو برطانوی اخبار کے مطابق وزیراعظم چار لاکھ 70 ہزار ڈالر تنخواہ لیتی تھیں انھوں نے پہلے 47 ہزار ڈالر کی کٹوتی کروائی اور اب نیوزی لینڈ اس مہلک وبا پر قابو پانے والا چین کے بعد دوسرا ملک بن چکا ہے۔

مگر ہم نے کسی سے کچھ نہیں سیکھا کہ پہلے بھی الٹا عوام سے امداد مانگی گئی جبکہ عوام پوچھتے رہے کہ ارکان اسمبلی نے کیا دیا ہے ؟ یوں لگتا ہے کہ اس عہدِ بد لحاظ میں ہم جیسے گداز قلب ، زندہ ہی رہ گئے تو بڑا کام کر گئے “ ان وبائی دنوں میں لاڑکانہ میں وزیراعظم کا شاہانہ پروٹوکول اورلاتعداد ڈشز پر مشتمل ظہرانہ ایک بار پھر تبدیلی منشور پر داغ لگا گیا ہے یقینا اس مسلسل دو عملی اور قول و فعل کے تضاد نے ہمارے حکمرانوں کو مٹی کر دیا ہے ۔

یہ طے ہے کہ اگر وزیراعظم مخلص ہے تو اسے ایسے عناصر سے جان چھڑوانی چاہیے جو منشور کا جنازہ نکال رہے ہیں ، شرمندگی کا باعث بنتے ہیں اور عدم اعتماد کی فضا پیدا کر کے بدنام کرواتے ہیں کیونکہ رویے اور لہجے دل سے اور دل میں اتار دیتے ہیں ۔
 اور جہاں تک ہماری اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے وہ تو خزانے سے تنخواہیں لیتے ہی صرف گمراہی ،بد امنی اور اختلاف رائے پیدا کرنے کے لیے ہیں ۔وہ اسمبلی کے سیشن میں منفی سوچ لیکر جاتے ہیں حالانکہ اچھے کام پر رائے ملانا اور غلط کام پر کوئی نتیجہ یا تبدیلی کروانا یہ ان کا فرض ہے یا پھر اسمبلی کا تماشہ ہی ختم کر دیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :