سینٹ الیکشن ۔۔عوام کو کیا ملے گا ؟

منگل 22 دسمبر 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ایوان بالا کا الیکشن قبل از وقت اعلانی رائے شماری سے ہوگا اس اعلان نے قومی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے کیونکہ سینٹ الیکشن ہمیشہ سے ایک دلفریب ڈرامہ رہا ہے جس میں وفاداری اور اقربا پروری کو مدنظر رکھتے ہوئے امیدوران کا چناؤ کیا جاتا ہے مزید جوڑ توڑ کی سیاست اور کھلے عام ہارس ٹریڈنگ کا ہونا بھی دلچسپ امر سمجھا جا تا ہے کیونکہ ذراذرا سی بات پر ذاتیات پر اترنے والے وقتی محاذآرائی ختم کر کے یوں شیرو شکر ہو جاتے ہیں جیسے ان کے بیچ رنجش کبھی رہی نہ ہو بس سبھی کا مدعا سیٹ کا حصول ہوتا ہے گو کہ اس ڈرامے کو ختم کرنے ،انتخابات کو شفاف بنانے اور ہارس ٹریڈنگ کے امکانات کو ختم کرنے کا خیال کبھی کسی کو نہیں آیا لیکن ایک بار شو آف ہینڈ الیکشنزکی گونج پہلے بھی سنی گئی جو کہ مفاداتی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی تھی کیونکہ سیاسی بازی گروں میں امام مسجد تو کوئی نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جس کا جتنا اور جہاں داؤ لگتا ہے ضرور لگاتا ہے شفاف الیکشن سسٹم کے دعوے داروں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں الغرض کوئی کبھی پیچھے نہیں رہا مگر اب ٹرانسپرنسی کا جو بھوت سوار ہوا ہے وہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے گریز اور سینٹ الیکشن کے لیے آئینی تبدیلی پر غور ۔

(جاری ہے)

۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس نے اس اعلان کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ قانون کے مطابق سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں اور حکومت کے پاس قبل از وقت انتخابات منعقد کروانے کا جواز کیا ہے جہاں تک آئین کی بات ہے تو آئین بنانا اور توڑنا اشرافیہ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔

اسمبلیوں میں کچھ اور بے شک نہ ہو مگر جہاں مفادات پر ضرب پڑتی ہو تو ایک رات میں قوانین بدل جاتے ہیں ۔اس لیے آئین کیا کہتا ہے اس کی فکر عام آدمی کو ہوتی ہے لہذا اس پر کچھ بھی کہنا فضول ہے ویسے بھی قانونی ماہرین کے مطابق سینٹ الیکشن میں خفیہ یا اعلانی رائے شماری کی کوئی قید نہیں ہے لیکن یہ طے ہے کہ جبتک ایک سینیٹر سبکدوش نہیں ہوجاتا تب تک نو منتخب سینیٹر حلف نہیں اٹھا سکتا اور انتخابات بارے آئین بس اتنا کہتا ہے کہ متناسب نمائندگی ہو اور ٹرانسفر ایبل ووٹ ہو لیکن ہاتھ کھڑا کر کے ووٹ دینے کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی َ جس میں قانونی پچیدگیاں آسکتی ہیں اس لیے حکومت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کا فیصلہ کیاہے یعنی اعلان کرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے کیونکہ حکومت نیشنل اسمبلی کو تحلیل کر سکتی ہے مگر الیکشن کمیشن کو ہدایات نہیں دے سکتی اور جن لوگوں کی ٹرم مارچ میں ختم ہورہی ہے انھیں ایک ماہ پہلے گھر بھیجنے کی کیا وجہ ہے المختصر ٹامل ٹوئیاں مارنے والوں کو اب سمجھ آئی ہے کہ خفیہ اور اعلانیہ رائے شماری کا تعین حکومت نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے پتہ نہیں کون ایسے بیانات اور تقریریں لکھ کر دیتا ہے جن پر ہمیشہ یوٹرن لینا پڑتا ہے ۔


مذکورہ اعلان پر حکومتی مئوقف ہے کہ ٹرانسپرنٹ اور فری الیکشن کی بات الیکشن میں جوڑ توڑ کے اتوار بازار کو روکنے کے لیے کی ہے یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آٹا ،چینی ،گیس بحران پیدا کرنے اور مہنگائی کو آسمان تک پہنچانے والے مافیاز کو لگام نہیں دی جا سکی اور سخت ترین سردی میں انڈے ،آلو اور دیگر اشیائے خوردونوش ، اشیائے ضروریہ اور ادویات کی ہو شربا قیمتیں بڑھانے والوں سے سوال نہیں کیا جاسکا مگر شفافیت کا راگ وہیں ہے باقی گذشتہ انتخابات میں جہانگیر ترین کی مدد سے جو ٹرینڈ سیٹ کیا گیا ہے اس سے سبھی باخبر ہیں یہی وہ دو عملیاں ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی قیادت اپنا وقار کھو تی جارہی ہے مسئلہ یہ ہے کہ خبر گرم ہے کہ اپوزیشن اتحاد ڈیمو کریٹک موومنٹ نے جنوری میں اسلام آباد کی جانب مارچ اور اجتماعی استعفوں کا اعلان کر رکھا ہے جس کا مقصد ہی سینٹ انتخابات کو مئوخر کروانا ہے اور حکومت کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنا ہے تو ان حالات سے گھبرا کر حکومت نے قبل از وقت انتخابات کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا ہے ۔

اپوزیشن اتحاد اپنی تمام کاروائیوں اور ریشہ دیوانیوں میں ناکام نظر آتا ہے مگر اپوزیشن اتحاد کے ہر قدم پر حکومتی بوکھلاہٹ سمجھ سے باہر ہے ۔
بڑی مذ حکہ خیزصورتحال ہے کہ ایک طرف حکومت کو خوف ہے کہ اگر اپوزیشن اتحاد بائیکاٹ کر دیتی ہے یا فروری سے پہلے استعفے لے آتی ہے تو پھر کیا ہوگا دوسری طرف یقین بھی ہے کہ سیاسی مفادات کے پجاری سیٹ کبھی نہیں چھوڑ سکتے اور واقعی اپوزیشن ایسا نہیں کرے گی سب سیاسی بیانیے ہیں جیسا کہ بلاول نے کہا ہے کہ سندھ حکومت چھوڑنے کو تیار ہیں اور جمہوریت کے لیے یہ قربانی ضرور دیں گے یعنی جمہور کے لیے تو کبھی کچھ کیا نہیں مگر جمہوریت کی بڑی فکر رہتی ہے الغرض سیاسی بساط پر ہر کوئی چالیں چل رہا ہے مگر کامیاب وہی ہوگا جو سیاسی شطرنج کا ماہر ہے تاحال تو اپوزیشن اتحاد کی ہر چال الٹی پڑ رہی ہے پھر بھی حکومتی بوکھلاہٹ نہیں جاتی اوراپوزیشن کی ہر چال پر گھبرا جاتے ہیں کیونکہ گڈ گورننس کا فقدان کھل کر سامنے آچکا ہے ابھی تک عوام کو کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملا تو کبھی بھی بازی پلٹنے کا اندیشہ بر وقت درست فیصلہ کرنے نہیں دیتا لیکن یہ طے ہے کہ موجودہ حالات میں دور رس حکمت عملی اور دانشمندانہ بیانات کی ضرورت ہے ورنہ سیاسی رسہ کشی میں بچا کھچا وقار بھی داؤ پر لگ جائے گا ویسے بھی اب خان صاحب کو سیاسی تلخیوں اور حقیقتوں کا ادراک ہوگیا ہے بایں وجہ وہ موجودہ نظام کے ساتھ مسلسل سمجھوتہ کرتے نظر آرہے ہیں اور رابطے بھی جاری ہیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ سینٹ الیکشن ڈرامہ نہیں ہو گااور عوام کی نظروں میں دھول نہیں جھونکی جائے گی کیونکہ حکومت ڈھکے چھپے الفاظ میں اپوزیشن کو مل بیٹھنے کی دعوت دے دی ہے یقینا مفادات کی چھتری تلے سبھی ایک ہو جائیں گے ورنہ دما دم مست قلندر ہوگا مگر جو بھی ہو سوال یہ ہے کہ عوام کو کیا ملے گا ؟۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :