ایسا نظام کب تک چل سکتا ہے ؟

منگل 30 مارچ 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

”بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ۔۔ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے “ ورطئہ حیرت میں ہوں کہ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے پر ہنگامہ کیوں بر پا ہے جبکہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے تو سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج تک جتنے بھی سیاسی گٹھ جوڑ ہوئے ہیں ان سب کا انجام یہی ہوا ہے کیونکہ مشترکہ مفادات کی چھتری تلے اکٹھے ہونے والوں کا ایجنڈا ہمیشہ یہی رہا ہے کہ”اس شرط پہ کھیلونگی پیا پیار کی بازی ۔

۔ جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری “ د ور مت جائیں متحدہ مجلس عمل کا بننا اور ٹوٹنا تو ابھی کل کی بات ہے افسوس تو یہ ہے کہ مولانا کے ساتھ پھر ہاتھ ہوگیا ہے سبھی انھیں آگے لگا کر پیچھے مک مکا کر لیتے ہیں اور مولانا کو سوائے خجالت کے کچھ نہیں ملتا لیکن پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ اتحاد کا انجام تو واضح تھاکیونکہ کوئی پارٹی بھی ن لیگ بیانیے کی طرفدار نہ تھی جبکہ پیپلز پارٹی نے توہمیشہ نو پارٹیوں کے برعکس مئوقف اختیار کیا اورمولانا کا کردار واجبی بنا دیا گیا تھادرحقیقت گیارہ پارٹیوں کے مکس اچار میں دو پارٹیوں کا جنون ہی بول رہا تھا جو کہ گذشتہ ستر دہائیوں سے ایک دوسرے کی سیاسی حریف ہیں ‘ اقتدار کے مزے لوٹتی چلی آرہی ہیں اور اب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھیں تو ایک دوسرے سے مخلص کیسے ہوسکتی تھیں بس پردہ تھا جو اٹھ چکا ہے لہذا ”ہلا کے رکھ دونگا انجمن کو“ کا جنون صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے ۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی مصالحتی سیاست کے تحت موجودہ نظام کی ضرورت بنتی نظر آرہی ہے‘ ن لیگ اپنے ملک دشمن بیانیوں میں الجھ کر رہ گئی ہے ‘تبدیلی سرکار فتح کا جشن منا رہی ہے اور مہنگائی اور بے جا ٹیکسوں کے عذاب میں گھرے غریب عوام ہونقوں کی طرح یہ سارا تماشا دیکھ رہے ہیں
بدقسمتی تو یہ ہے کہ پاکستان کووجود میں آئے 75 برس ہوگئے ہیں مگر اسے کوئی ایسا لیڈر نہ مل سکا جو عوامی حق حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتا وائے افسوس !سیاسی کاریگروں نے ہمیشہ ذاتی مفادات کی جنگ لڑی اور جب کبھی گھاٹا دیکھا تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر ممکن غیر اخلاقی اور نا مناسب ہتھکنڈا استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا اور اپنی ان کارستانیوں پر کبھی شر مسار یا نادم نہ ہوئے اور نہ ہی کبھی مخلصانہ معذرتی بیان دیا البتہ اپنی سازشوں ، بیانیوں اور ریشہ دوانیوں کا ڈٹ کر دفاع کیا مگر اب کرپشن مکاؤ بیانیوں کی حقیقت عوام سمجھ چکے ہیں کہ برسر اقتدار اور برسر پیکارسبھی مشترکہ مفادات کی چھتری تلے ایک ہیں اور سیاسی کاروبار میں سب جائز سمجھتے ہیں دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں پھر بے اختیاروں کا ساتھ دینے سے کہیں بہتر ہے کہ با اختیاروں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی آئندہ پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور یقینا آصف زرداری کی سوچ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے سبھی سیا ستدانوں کی سوچ ختم ہوتی ہے
اسی سوچ نے خان صاحب کو روایتی سیاست کرنے پر مجبور کر دیا ہے یقیناصحبت اپنا اثر دکھاتی ہے اور موجودہ حکومت” کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ،بھان متی نے کنبہ جوڑا “کی عملی تصویر ہے اور وقت نے ثابت کیا ہے کہ سیاسی کاروبار میں کامیابی کی یہی تدبیر ہے ۔

کسے انکار ہے کہ پاکستان میں روز اول سے کچھ خاندان ایسے چھائے ہیں وہ برسر اقتدار ہوں یا نہ ہوں ان کے سامنے سر اٹھانے کی کوئی جرات نہیں کرتا ایسے میں انھی کو ساتھ ملا کر اقتدار کے مزے لوٹے جا سکتے تھے مگر یاد رہے کہ اقتدار شعلوں کی وہ پوشاک ہے جو چھونیوالے کو جہاں جلا کر بھسم کر دیتی ہے وہاں ذرا سی بے احتیاطی سے پہننے والے کو بھی راکھ بنا دیتی ہے کیونکہ بغاوتوں کو کچلنا آسان ہے مگرخاموش آہوں سے بچنا نا ممکن ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر وہ جو حاکمیت کے اسرار روموز سے واقف نہ ہوں اور انتظامی امور میں طاق نہ ہوں تو بڑے بڑے عادل لڑکھڑا جاتے ہیں آج پھر کہونگی کہ لفاظی سے معاشرے نہیں چلتے اور دو عملی وہ زہر ہے جو قوموں کو مٹا دیتاہے آج ہم جس پستی میں گر چکے ہیں اس کی وجہ یہی دو عملیاں ہیں جیسا کہ بیشتر علمائے کرام نے دین کو پیٹ کا دھندا بنا لیا ہے بایں وجہ نصیحت کرنے والوں کے خیالات میں پختگی نہیں رہی اور نہ ہی بیان میں سحر انگیزی ہے اذان دینے کی رسم تو باقی ہے مگر حضرت بلال کا جذبہ مفقود ہو چکا ہے ‘فلسفہ تو اب بھی باقی ہے مگر امام غزالی کی مانند کوئی نصیحت کرنے والا نہیں رہا ‘مسجدیں آہ و زاری میں مبتلا ہیں کیونکہ اب ان میں ایسے نماز پڑھنے والے نہیں آرہے جن کے دل خشیت الہی سے پر نور تھے جو کلمہ گو ، نیک اور متقی تھے کہ اپنے خانوادے لٹانے کو تیار رہتے تھے مگر باطل کے سامنے سر نہیں جھکاتے تھے اورکامیابیوں کے لیے برے راستوں کا انتخاب نہیں کرتے تھے بلکہ حق پر ڈٹ جاتے تھے مگر اب تو میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو کے مصداق سیاسی بازیگروں کا وطیرہ بن چکا ہے کہ جہاں انھیں فائدہ نہیں ہوتا وہاں وہ اپنے ہی اداروں پر کیچڑ اچھالنے سے گریز نہیں کرتے تو ایسا نظام کب تک چل سکتا ہے تبھی تو موجودہ ضمنی اور سینٹ الیکشن کے نتائج اور عوامی رویوں سے ان گنت سوالات جنم لے چکے ہیں کہ کیا تبدیلی سرکار نے موجودہ کرپٹ نظام سے سمجھوتہ کر لیا ہے؟کیا تبدیلی کا دعوی صرف حصول اقتدار کے لیے تھا ؟ ہم کب تک حصول پاکستان کے مقاصد کو فراموش کرتے رہیں گے ؟ ہم کب تک نام نہاد شان و شوکت کو قائم رکھنے کے لیے عوامی پیسوں کو اڑاتے رہیں گے ؟ جبکہ کرونا وائرس کی تیسری لہر ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور ہم ڈھنگ ٹپاؤ تشہیری منصوبوں کو عام کرنے میں سرمایہ اور وقت صرف کر ہے ہیں حالانکہ وقت متقاضی ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر ایسی حکمت عملیاں نافذکی جائیں جن سے عوام کو ہر ممکن ریلیف ملے یعنی2018 کی قیمتوں کو بحال کیا جائے ناجائز ٹیکسوں کو ختم کیا جائے تاکہ کچھ بھرم تو قائم رہے ویسے بھی اب جبکہ کرسی محفوظ لگ رہی ہے توکچھ تو نیا کریں تاکہ عام آدمی کو سکون اور آسودگی حاصل ہو سکے اور پاکستان امن و سلامتی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :