اب پینڈورا پیپرز کا کیا ہوگا

بدھ 13 اکتوبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

صحافیوں کی عالمی تنظیم (آئی سی آئی جے) تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی سکینڈل” پینڈورا پیپرز “کو سامنے لے آئی ہے ۔پینڈورا پیپرز نے کئی ممالک کے افراد ؛ حکومتوں کے سربراہان اور دنیا بھر کے مشہور سیاستدانوں اور کاروباری حضرات کی خفیہ معاشی سرگرمیوں کو بے نقاب کر دیا ہے ۔ان افراد میں 200 پاکستانی بھی شامل ہیں ۔اس حوالے سے آئی سی آئی جے نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ بنانے کا نعرہ لگاتے رہے جبکہ وہ خود ایسے افراد ،کابینہ کے وزراء اور سیاسی رفقاء میں گھرے ہوئے ہیں جو آف شور کمپنیاں رکھتے ہیں ۔


واضح رہے کہ اسی تنظیم نے 2016 میں” پانامہ لیکس اسکینڈل“ کو بے نقاب کیا تھا جس کی بنیاد پر ماضی کے حکمران زیرعتاب ہیں مگر کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑے بارہ آنا کے مصداق سبھی آزادانہ گھوم رہے ہیں اور اگلے ملکی انتخابات کے لیے کمر کس چکے ہیں کیونکہ نیب کی کار کردگی سوالیہ نشان رہی اور ٹھوس شواہد سامنے نہیں لائے جا سکے اور یہ سوال ہی رہ گئے کہ پانامہ میں شامل 443 افراد کے خلاف کیا کاروائی کی گئی اور کیا وہ ڈکلئیرڈ کمپنیاں تھیں ؟ انھی سوالوں نے اپوزیشن کو یہ کہنے کاموقع فراہم کیا کہ نیب ایک جانبدار ادارہ ہے اور کپتان ماضی کے حکمرانوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہاہے۔

(جاری ہے)

پینڈورا پیپرز لیکس کے بعد اپوزیشن پھر کہہ رہی ہے کہ چئیرمین نیب پاکستان اور احتساب کے لیے نہیں عمران خان کے لیے نوکری کرتے ہیں لہذا پینڈورا بکس کیس میں کچھ بھی نیا نہیں ہوگاکیونکہ گذشتہ تین برسوں میں آٹا ۔چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ میں ہونے والی کرپشن میں ملوث افراد کے بارے کوئی خاص کاروائی دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ الٹا کہا گیا کہ مافیاز طاقتور ہیں ۔

۔چلیں مان لیتے ہیں کہ ہمارے ادارے اتنے ذرائع اور قابلیت نہیں رکھتے کہ انھیں اپنے مگر مچھوں کی منی لانڈرنگ کا پتہ چلے مگر اندرون ملک جوہو رہا ہے اس سے اتنی بے خبری کہ تین برس سے ڈالر بے قابو ہے اور اب ڈی جی ا یف آئی اے نے انکشاف کیا ہے کہ ڈالر مافیا کے 54افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے جو کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔

20 ایسے افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تو ڈالر کا ریٹ 178سے گر کر173 پر آگیا ہے اوران سے کروڑوں روپے مالیت کی کرنسی برآمد ہوئی ہے جنھوں نے ذخیری اندوزی کی تھی . چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے ہیں کہ اب اعلیٰ حکام کو پتہ چلا کہ ڈالر کا ریٹ کہاں پر جا رہا ہے ؟حیرت ہے کہ تبدیلی سرکار کے وزراء کے پاس بہکے بیانات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کوئی کہتا ہے کہ نو فیصد روٹی کم کر دیں ،کوئی کہتا ہے کہ مہنگائی پوری دنیا سے کم ہے اور کوئی کہتا ہے کہ ملک اوپر جارہا ہے کرپٹ مافیاز غلط خبریں پھیلاتے ہیں حالانکہ ہر چار دن بعد وزارتوں اور عہدوں کی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور وجہ کرپشن اور ناقص کار کردگی بتائی جاتی ہے ۔

یہی حال ترجمانوں کا ہے کارکردگی نہیں بدلتے ترجمان بدلتے جاتے ہیں
مجھے کہنے دیجیے کہ مروجہ اور ناجائزٹیکس صرف اور صرف عام آدمی دیتا ہے جبکہ طاقت ور طبقہ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے محفوظ راستے ڈھونڈ ہی لیتا ہے اور آف شور کمپنیاں منی لانڈرنگ اورٹیکس سے بچنے کی ہی کاوشیں ہیں بایں وجہ دنیا اسے اخلاقی کرپشن سمجھتی ہے کیونکہ غیر قانونی کمپنیوں میں کالے دھن کو خفیہ طریقے سے منتقل کیاجاتا ہے اور اس کے ذرائع کا بھی پتہ نہیں ہوتا ۔

سبھی کوپتہ ہے مگر آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں نے نئی ترکیب نکالی ہے اور کہاجارہا ہے کہ آف شور کمپنیاں محض ٹیکس سے بچنے کی کاوش ضرورہے مگرکچھ قانونی اور کچھ غیر قانونی ہوتی ہیں اسلیے تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوسکے ۔حالانکہ پانامہ لیکس پر سبھی بیک زبان تھے کہ پانامہ میں نامزد سبھی صریحاًچور ہیں اور ابھی بیانیہ پرانا کہاں ہوا ہے ”میں کرسی چھوڑ دونگا مگر کسی کو نہیں چھوڑونگا “ لیکن جب قریبی دوستوں کے مافیاز میں نام آئے تو پھر یہ الفاظ کسی نے نہیں سنے البتہ حلیف اور وزراء یہ کہتے پائے گئے ”ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے “پچھلوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔

اگر خان صاحب کے ماضی کے بیانات سنے جائیں تو اس لحاظ سے پینڈورا پیپرز کی زد میںآ ئے افراد اکو فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے تھا مگر اس بار بھی قوم کو مایوسی کا سامنا ہوا کیونکہ وزیراعظم نے پینڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی سیل قائم کر دیا ہے جو کہ انکی سربراہی میں حقائق کی کھوج لگائے گا ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ وزیراعظم کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی شفاف تحقیقات کی متحمل کیسی ہو سکتی ہے اور اس کا اثر ملکی سیاست پر کیا نہیں پڑے گا کیونکہ سیدھی بات ہے کہ اگر وہ اپنے اتحادی ،وقافی وزراء اور رفقاء کے خلاف کاروائی کرتے ہیں تو مفادات کا تصادم ہوگا اور ایسے میں حکومت خطرے میں پڑ جائے گی جبکہ آجکل تو تبدیلی سرکار ووٹ بنک بڑھانے کیلے توانائیاں صرف کرتے ہوئے نوازنے کی حکمت عملی اپنا چکی ہے کیونکہ ملکی انتخابات نزدیک ہیں اورپی ٹی آئی کا حال پنجاب میں وہی ہوتا نظر آرہا ہے جو پیپلز پارٹی کا ہوا ہے۔

ایسے میں لوٹ مار کرنے والوں کو سزا کون دیگا جو ملک و قوم کے کھلے مجرم ہیں ؟تبھی تو وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا ہے کہ ”کھودا پہاڑ ‘ نکلا چوہا “ جناب !یہی چوہے غریبوں سے اکٹھا کیا گیا جائز و ناجائز ٹیکسوں کی مد میں روپیہ کتر گئے اور عوام کو نو فیصد روٹی کم کرنے کے مشورے ملنے لگے۔ایسے ہی غیر سنجیدہ بیانیوں کیوجہ سے عام رائے یہی ہے کہ کچھ خاص نہیں ہوگا بس مک مکا ہوگا کیونکہ کرپشن کے جھنڈے تلے سبھی ایک اور نیک ہیں اور سبھی ڈھٹائی سے مانتے ہیں کہ ”میری بکل دے وچ چور “لیکن یاد رہے کہ یہ کیس خان صاحب کا امتحان ہے اور انھیں چاہیے کہ وہ پانامہ لیکس اور پینڈورا پیپرز میں نامزد افراد کا کڑا احتساب کرتے ہوئے تاریخ رقم کریں تاکہ تبدیلی وعدوں کاکچھ تو بھرم رہ جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :