اب پینڈورا پیپرز کا کیا ہوگا
بدھ 13 اکتوبر 2021
واضح رہے کہ اسی تنظیم نے 2016 میں” پانامہ لیکس اسکینڈل“ کو بے نقاب کیا تھا جس کی بنیاد پر ماضی کے حکمران زیرعتاب ہیں مگر کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑے بارہ آنا کے مصداق سبھی آزادانہ گھوم رہے ہیں اور اگلے ملکی انتخابات کے لیے کمر کس چکے ہیں کیونکہ نیب کی کار کردگی سوالیہ نشان رہی اور ٹھوس شواہد سامنے نہیں لائے جا سکے اور یہ سوال ہی رہ گئے کہ پانامہ میں شامل 443 افراد کے خلاف کیا کاروائی کی گئی اور کیا وہ ڈکلئیرڈ کمپنیاں تھیں ؟ انھی سوالوں نے اپوزیشن کو یہ کہنے کاموقع فراہم کیا کہ نیب ایک جانبدار ادارہ ہے اور کپتان ماضی کے حکمرانوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہاہے۔
(جاری ہے)
مجھے کہنے دیجیے کہ مروجہ اور ناجائزٹیکس صرف اور صرف عام آدمی دیتا ہے جبکہ طاقت ور طبقہ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے محفوظ راستے ڈھونڈ ہی لیتا ہے اور آف شور کمپنیاں منی لانڈرنگ اورٹیکس سے بچنے کی ہی کاوشیں ہیں بایں وجہ دنیا اسے اخلاقی کرپشن سمجھتی ہے کیونکہ غیر قانونی کمپنیوں میں کالے دھن کو خفیہ طریقے سے منتقل کیاجاتا ہے اور اس کے ذرائع کا بھی پتہ نہیں ہوتا ۔سبھی کوپتہ ہے مگر آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں نے نئی ترکیب نکالی ہے اور کہاجارہا ہے کہ آف شور کمپنیاں محض ٹیکس سے بچنے کی کاوش ضرورہے مگرکچھ قانونی اور کچھ غیر قانونی ہوتی ہیں اسلیے تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوسکے ۔حالانکہ پانامہ لیکس پر سبھی بیک زبان تھے کہ پانامہ میں نامزد سبھی صریحاًچور ہیں اور ابھی بیانیہ پرانا کہاں ہوا ہے ”میں کرسی چھوڑ دونگا مگر کسی کو نہیں چھوڑونگا “ لیکن جب قریبی دوستوں کے مافیاز میں نام آئے تو پھر یہ الفاظ کسی نے نہیں سنے البتہ حلیف اور وزراء یہ کہتے پائے گئے ”ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے “پچھلوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ اگر خان صاحب کے ماضی کے بیانات سنے جائیں تو اس لحاظ سے پینڈورا پیپرز کی زد میںآ ئے افراد اکو فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے تھا مگر اس بار بھی قوم کو مایوسی کا سامنا ہوا کیونکہ وزیراعظم نے پینڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی سیل قائم کر دیا ہے جو کہ انکی سربراہی میں حقائق کی کھوج لگائے گا ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ وزیراعظم کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی شفاف تحقیقات کی متحمل کیسی ہو سکتی ہے اور اس کا اثر ملکی سیاست پر کیا نہیں پڑے گا کیونکہ سیدھی بات ہے کہ اگر وہ اپنے اتحادی ،وقافی وزراء اور رفقاء کے خلاف کاروائی کرتے ہیں تو مفادات کا تصادم ہوگا اور ایسے میں حکومت خطرے میں پڑ جائے گی جبکہ آجکل تو تبدیلی سرکار ووٹ بنک بڑھانے کیلے توانائیاں صرف کرتے ہوئے نوازنے کی حکمت عملی اپنا چکی ہے کیونکہ ملکی انتخابات نزدیک ہیں اورپی ٹی آئی کا حال پنجاب میں وہی ہوتا نظر آرہا ہے جو پیپلز پارٹی کا ہوا ہے۔ایسے میں لوٹ مار کرنے والوں کو سزا کون دیگا جو ملک و قوم کے کھلے مجرم ہیں ؟تبھی تو وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا ہے کہ ”کھودا پہاڑ ‘ نکلا چوہا “ جناب !یہی چوہے غریبوں سے اکٹھا کیا گیا جائز و ناجائز ٹیکسوں کی مد میں روپیہ کتر گئے اور عوام کو نو فیصد روٹی کم کرنے کے مشورے ملنے لگے۔ایسے ہی غیر سنجیدہ بیانیوں کیوجہ سے عام رائے یہی ہے کہ کچھ خاص نہیں ہوگا بس مک مکا ہوگا کیونکہ کرپشن کے جھنڈے تلے سبھی ایک اور نیک ہیں اور سبھی ڈھٹائی سے مانتے ہیں کہ ”میری بکل دے وچ چور “لیکن یاد رہے کہ یہ کیس خان صاحب کا امتحان ہے اور انھیں چاہیے کہ وہ پانامہ لیکس اور پینڈورا پیپرز میں نامزد افراد کا کڑا احتساب کرتے ہوئے تاریخ رقم کریں تاکہ تبدیلی وعدوں کاکچھ تو بھرم رہ جائے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.