کیا شہبازوفادار ہے؟

جمعہ 18 ستمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

کچھ لوگ ہمیشہ مصلحت پسندی اور صلح صفائی کے حامی ہوتے ہیں اور کچھ کٹر قسم کے اکھڑ مجاذاور انا پرست ہوتے ہیں۔میں نے بطورتاریخ کا طالبعلم اب تک جو مطالعہ کیا ہے اس میں نے مصلحت پسند لوگوں کو حوصلہ مند اور تحمل مجاذ شخصیت ہی پایا ہے۔لیکن ایک بات طے ہے مصلحت پسندلوگ وفادار اور مخلص لازمی ہوتے ہیں۔مصلحت پسند شخص کو ہر طبقے میں پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی عزت و احترام میں کبھی کمی نہیں آتی۔

ہاں کچھ لوگوں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو مصلحت پسندشخص زہر لگتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی سوچ اور ذہن میں فتور اور بغض کوٹ کوٹ کے بھر دیا جاتا ہے کیونکہ ایسے لوگ ہمیشہ قینہ پرور اور فسادی ہوتے ہیں ان کا مقصد ہر وقت انتشار اور نفرتوں کو بڑھاوا دینا ہی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ مصلحت پسند شخص ہر وقت ایک خاندان یا قبیلے کو یکجا رکھنے کیلئے ہر طرح کی اپنی کوششیں کرنے میں مصروف عمل رہتا ہے۔

چند باشعور اور باضمیر لوگ مصلحت پسند شخص کو ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
شہبازشریف ایک مصلحت پسند شخصیت ہیں ۔انہوں نے اپنے زندگی کے تیس سال اسی کام میں ہی گزر دیے ہیں لہذا ان کا مصلحت پسندی میں ایک وسیع تجربہ ہے۔گزشتہ ہفتے مجھے مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی حناپرویز بٹ کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں میں نے ان کے سٹڈی روم میں ایک کتاب دیکھی جس کاعنوان پڑھ کے مجھے یہ کتاب پڑھنے کا تجسس ہوا۔

لہذا جب وہ کمرے میں آئی تو میں نے ان سے گزارش کی کہ میں یہ کتاب پڑھنا چاہتا ہوں۔انہوں نے میری درخواست قبول کی اور مجھے فورا کتاب نکال کر دے دی۔یہ کتاب سینئر صحافی سہیل وڑائچ صاحب نے میاں نوازشریف کے جلاوطنی کے دس سالہ دور میں جدہ اور لندن میں مختلف انٹرویو پر مشتمل لکھی ہے۔اس کتاب کے ٹائٹل نے میری توجہ اپنی جانب مربوط کی ۔آج کل پاکستان میں اس لفظ کا چرچہ زورو شور سے جاری ہے۔

سہیل وڑائچ صاحب سچ میں ایک عظیم صحافی ہیں ۔نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کو جنگ اخبار سے زبردستی نکلوابھی دیا گیا لیکن وہ اس کے باوجود نوازشریف کا انٹرویو کرنے جدہ اورلندن گئے۔سہیل وڑائچ صاحب نے نوازشریف کے انٹرویوز پر مشتمل جو کتاب لکھی اس کاعنوان ”غدار کون“ہے ۔یہ کتاب ہر اس شخص کو لازمی پڑھنی چاہیے جو سیاست سے دلچسپی رکھتا ہے ۔

لہذا اس وقت میرا موضوع شہبازشریف ہیں تو میں کتاب میں دی تفصیلات اور اہم حقائق پھر کبھی لکھو گا ۔
سہیل وڑائچ صاحب اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 194لکھتے ہیں جب شہبازشریف سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے آج بھی فوج سے رابطے ہیں تو شہبازشریف نے کہا میرا کبھی فوج سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ہاں مجھے بالواسطہ طور پر صلح کا پیغام دیا گیا تھا لیکن میں نے جوابا کہا اگر میں خاندان کا وفادار نہ رہا تو آپ سے وفاداری کیسے کر سکوں گا؟شہبازشریف نے کہا فوج کو زمینی حقیقت کے طور پر ماننا پڑے گا۔

فوج 27,28سال ملک پر حکومت کرچکی ہے یہ زمینی حقائق ہیں۔فوج کے ساتھ محاذ آرائی نہیں ہونی چاہیے فوج بڑا ایک منظم ادارہ ہے اس سے کیسی محاذ آرائی؟یہ چند جرنیل ہیں جن کے سیاسی اعزائم ہیں۔شہبازشریف مزید کہتے ہیں ہم یہ طے کرچکے ہیں جمہوری حکومت کو پہلا پوائنٹ طے کرنا چاہیے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کسی صورت میں فوج کو نہیں آنے دیں گے۔

شہبازشریف مزید کہتے ہیں میں نے تو مشرف کے وقت میں جیل سے باہر آنے سے انکار کردیا تھا اس کے کچھ جنرل اور جیل کے ساتھی گواہ ہیں۔چوہدری شجاعت حسین بنیادی طور پر شریف النفس انسان ہیں۔لیکن انہی کارگل اور دوسرے معاملات پر متنازع بیانات نہیں دینے چاہیے تھے۔نوازشریف بتاتے ہیں چوہدری شجاعت حسین نے کہا میاں صاحب مجھے بس اب ہمیشہ کیلئے آپ کے ساتھ ہی سیاست کرنی ہے۔

میرے والدہ محترم میاں شریف نے چوہدری برادران سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا ۔ یہ سب جھوٹ ہے پرویزالٰہی کے بیانات اور اقدامات سے مجھے بہت صدمہ پہنچاتھا۔یہ سب باتیں شہباز شریف کی زندگی کی حقیقت ہے ۔گزشتہ تیس سالوں سے شہبازشریف پر مسلسل دو ہی الزام لگ رہے ہیں کہ شہباز اسٹبلشمنٹ کا بند ہ اور شہبازشریف اور نوازشریف فیملی میں اختلافات چل رہے ہیں۔

لیکن وقت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ شہبازشریف ہر بار نوازشریف کے ساتھ پہلے سے زیادہ مخلص بن کر ساتھ کھڑا ہوا ہے۔شہبازشریف آج کے نہیں بچپن سے ہی اپنی الگ رائے رکھتے آئے ہیں ۔شریف فیملی میں ہمیشہ نوازشریف کا فیصلہ ہی اٹل ہے ان کے فیصلے کو میاں عباس شریف ،شہباز شریف اور ان کی ہمشیرہ نے ہمیشہ قبول کیا ہے۔نوازشریف ہر موقعہ پر شہبازشریف کی رائے سنتے رہے ہیں اور ان کی رائے کا بھی احترام کرتے ہیں ۔

میاں نوازشریف نے کبھی زبردستی کوئی فیصلہ شہبازشریف پر مسلط نہیں کیا ہے۔بیس سال بعد آج ایک مرتبہ پھر شہبازشریف اور مریم نواز کے اختلافات کی خبریں پھیلائی جارہی ہیں ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بھتیجی اپنے والد کی جگہ پر چچا سے سبقت لینے کی کوشش کریں ۔شہبازشریف کو نوازشریف نے پارٹی کا صدر بنایا ہے اور ان کے ہر فیصلے کو مریم نواز تسلیم کرتی ہیں ۔


یہاں یہ بات انتہائی قابل حیرت ہے کہ عمران خان شہبازشریف جیسے مصلحت پسند بندے کے ساتھ اگر نہیں چل سکتے تو پھر خان صاحب موجودہ اپوزیشن کے کسی ایک رکن کے ساتھ بھی نہیں چل سکتے ۔کیونکہ موجودہ ملکی حالات میں شہباز شریف سے بڑھ کر جمہوریت کا حامی اور سسٹم کو چلنے کا حقدار کوئی نہیں ہے ۔عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنا احتساب کا سلسلہ جاری رکھیں لیکن ملکی معاملات پر صلاح مشورے اور مشاورت کیلئے شہبازشریف سے رابطے لازمی رکھیں ۔

ویسے احتساب کا ڈائیلاگ اب کچھ پرانا پرانا اور بوسیدہ سا لگنے لگ
 گیا ہے لہذا عمران صاحب اس احتساب کے سین کو تین سال کیلئے بریک لگادیں اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے کچھ عملی طور پر کرنے کا پلان تیار کریں تاکہ ملک اس دلدل سے نکلنے کے قابل ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :