لندن،لاہور اور مریم نواز

جمعہ 18 جون 2021

Saif Awan

سیف اعوان

میں اپنے کالموں میں متعدد بار ایسی کئی مثالیں بیان کرچکا ہوں کہ جو حکمران سیاسی مخالفیں کو مسلسل دبا کر رکھنے ،پابند سلاسل رکھنے ،اذیت پہنچانے ،مختلف ہربوں سے پریشان کرنے اور زبردستی خاموش کرانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہیں ان کو تاریخ میں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا ۔ عمران خان کی حکومت کو تین سال پورے ہونے والے ہیں لیکن تین سالوں میں ان کی توجہ اپنے مخالفین پر زیادہ اور عوامی مسائل پر کم ہی رہی ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح کہاں پہنچ گئی ہیں ۔کتنے پاکستانی مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں ۔بیروزگاری میں کس حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔شاید ان مسائل کا عمران خان کو اندازہ نہیں ہے۔پہلے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں شامل تین بڑی جماعتوں (مسلم لیگ(ن) ،پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف) کی لیڈر شپ کو کبھی قومی احتساب بیورو(نیب)کے ذریعے مقدمات بناکرجیلوں میں ڈالا جا تارہا تھا اور کبھی ان کو بار بار طلبی کے نوٹسز جاری کیے جا رہے تھے ۔

(جاری ہے)

لیکن جیسے پیپلزپارٹی نے باپ سے سینیٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر لانے کیلئے حمایت حاصل کی تو پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔اس کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ بھی ملتوی کردیا۔پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم سے استعفے دے کر اور سینیٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر لاکر خود کو فی الحال احتسابی فلم کی جاری شوٹنگ سے الگ کرلیا۔لانگ مارچ ملتوی کرنے پر مولانا فضل الرحمن اور ان کے اہلخانہ کیخلاف بھی نیب کی مزید کاروائیاں ٹھنڈی پڑ گئیں۔

اسی دوران مولانا فضل الرحمن بھی قرنطینہ میں چلے گئے۔مولانا فضل الرحمن گزشتہ تین چار ماہ سے مسلسل قرنطینہ میں ہیں ۔کبھی کبھی وہ باہر کی تازہ ہوا لینے کیلئے پہاڑوں کا رخ کرلیتے ہیں ۔اس سارے معاملے میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) آج بھی احتساب کا سامنا کررہا ہے۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی مصلحت پسندی ،نرم گفتاراور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی بھی فی الحال ناکام دیکھائی دے رہی ہے۔

میاں نوازشریف بھی کافی عرصے سے خاموشی سے ہر چیز کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔دوسری جانب مریم نواز خودکو الیکشن مہم کیلئے تیار کررہی ہیں ۔ان کی ہر ممکنہ حد تک کوشش ہے کہ اب ہمیں عوام کے درمیان ہونا چاہیے۔مریم نواز سوچ ہے کہ اگر ہم خاموش رہتے ہیں تو پھر بھی کڑے احتساب کا نشانہ بن رہے ہیں کیوں نا ہم عوام کے درمیان جائیں اور عوام کو حکومت کے انتقامی احتساب اور ناکام پالیسیوں سے آگاہ کریں ۔

پی ڈی ایم کے گزشتہ اجلاس میں جلسوں کی تجویز بھی مریم نواز اور ان کے موقف کے حمایتی لوگوں کی تھی ۔اگر دیکھاجائے تو مریم نواز کا عوام کے درمیان جانے کا موقف کافی جاندار اور مضبوط ہے۔اگر پی ڈی ایم اس سال کے باقی چھ ماہ مسلسل ملک بھر میں بڑے جلسے کرتی ہے تو اس سے ان کے کارکنوں کا لہو بھی گرم رہے گا اور جذبہ بھی برقرار رہے گا۔اگر ان جلسوں سے میاں نوازشریف خطاب کرتے ہیں تو جلسوں میں مزید رونق لگ سکتی ہے۔

ویسے بھی مریم نواز اس وقت کراؤڈ پیلر لیڈی بن چکی ہیں ۔مریم نواز نے پی ڈی ایم کے گزشتہ سال کے جلسوں میں یہ ثابت بھی کردیکھا یا ہے کہ جہاں ان کا خطاب ہوتا تھا وہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد صبح سے ہی جلسہ گاہ میں پہنچ جاتی تھی۔میاں نوازشریف نے دوسری مرتبہ شہبازشریف کو موقعہ دیا ہے لیکن ایف آئی اے نے شہبازشریف اور حمزہ شہباز کو طلبی کے نوٹس جاری کرکے نوازشریف اور مریم نواز کے موقف کوپھرسے درست ثابت کردیا ہے۔

عمران خان نے تین سال نیب کے ذریعے پورے کرلیے ہیں اور اب باقی دوسال ایف آئی اے کے ذریعے پورے کرنے کا پلان بناچکے ہیں۔اس لیے مسلم لیگ ن کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ عوام کے درمیان رہے بند کمروں میں اجلاس کرنے کا فائدہ نہیں اولٹاان کو نقصان ہو رہا ہے۔جیسے پی ڈی ایم ٹھنڈی پڑ گئی ہے ایسے ہی بالکل مسلم لیگ ن کا کارکن بھی ٹھنڈا پڑ رہا ہے۔اگر مریم نواز باہر نکلتی ہے ان کا کارکن بھی خود بخود باہر نکل آئے گا۔

یہاں ایک بات بہت اہمیت کی حامل ہے اگر مریم نواز بولتی ہیں تو فورا لندن میں ٹیلی فون کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں ۔اب مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کو بھی ٹیلی فون کی گھنٹیوں کی بجائے اگلے الیکشن کیلئے اپنے ووٹرز پر توجہ دینا ہو گی ۔مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک پہلے کی نسبت مزید بڑھ گیا اس کا اندازا حالیہ ضمنی انتخابات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ایک بات تو طے ہے اب مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ خاموش رہے یا میدان عمل میں رہے اگلے دو سا ل تک ان کااحتساب جاری رہنا ہے ۔اگر مسلم لیگ ن عوام کے درمیان رہ کر احتساب کا سامنا کرتی ہے تو ان کا ووٹ بینک مزید مضبوط ہوگا اور ان کا موقف بھی درست ثابت ہوگا۔اگر مسم لیگ ن خاموشی اور مصلحت پسندی کی پالیسی پر چلتی ہے تو ان کاہر طرح کا نقصان ہوگا۔اب فیصلہ ان کی لیڈ شپ کو کرنا ہے وہ بھی بروقت اور جلد ایسا نہ ہو کے دیر ہو جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :