چٹ پٹی خبروں والے سات ماہ

پیر 9 اگست 2021

Saif Awan

سیف اعوان

سیاست ہو اور اس میں ہلچل نہ ہوتو مزہ ہی نہیں آتا ۔اگر سیاست ٹھنڈی چل رہی ہوتو نہ صحافیوں کو مصالحے والی خبریں ملتی ہیں اور نہ عوام میں تجسس پیدا ہوتا ہے۔مجھ سمیت پنجاب اسمبلی کی بیٹ کرنے والے تمام بیٹ رپورٹرز اکثر اجلاس ختم ہونے کے بعد سوچتے ہیں یا آج سٹوری کیا بنے گی۔کیونکہ تین سالوں سے پنجاب اسمبلی میں شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا جب ایوان میں گرما گرم بحث و تکرار ہوئی ہو۔

زیادہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پرسکون انداز میں چلتا ہے ۔پنجاب کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ 169ارکان پر مشتمل اپوزیشن سامنے آئی لیکن اس کے باوجود ہاؤس ایسے چلتا ہے جیسے اپوزیشن نے ستو پیئے ہیں ۔میں ،اخلاق باجوہ،عارف ملک،اعظم ملک،عدنان شیخ ،حافظ نعیم ،علی اکبر اورسہیل بلوچ گزشتہ کئی سالوں سے اکٹھے پنجاب اسمبلی کی رپورٹنگ کررہے ہیں ۔

(جاری ہے)

لیکن ہم یہ پہلی بار دیکھ رہے ہیں ہاؤس پر سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کا بہت کنٹرول ہے وہ غیر جانبدار بھی رہتے ہیں ۔شاید اس کی بڑی وجہ حکومت اور اپوزیشن کے سب ارکان کی ان کی دل سے عزت کرتے ہیں ۔
بات ہورہی تھی سیاسی ہلچل کی ۔اگر سیاست میں روزانہ نئے ایشوز نہ آئیں تو میڈیا کا پیٹ بھی نہیں بھرتا۔میڈیا ہمیشہ مصالحے دار اور چٹ پٹی خبروں کی تلاش میں رہتا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں آنے والے سات ماہ بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ان میں بہت ساری مصالحے دار اور چٹی پٹی خبریں میڈیا کو ملنے والی ہیں ۔میڈیا کا ایک سال تو پی ڈی ایم نے نکال دیا ہے ۔ایک سال پی ڈی ایم کی جماعتوں نے خوب رونق لگاکر رکھی ۔عوام بھی مہنگائی کا غم بھول گئی اور میڈیا کو بھی کچھ نیا کرنے کو مل گیا تھا۔جیسے ہی پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم سے راہیں جدا کی پی ڈی ایم بھی ٹھنڈی پڑ گئی۔

اب کی بار پی ڈی ایم کی بجائے خبروں پورے ملک سے آئیں گے۔مصالحے دار خبروں کی شروعات تو مسلم لیگ(ن) سے ہو چکی ہے لیکن اصل خبریں اب حکومتی جماعت تحریک انصاف سے شروع ہوں گئیں۔وفاق میں شاہ محمود قریشی گروپ،جہانگیرترین گروپ ،اسد عمر گروپ ،خسرو بختیار گروپ اور پیرا شوٹرز گروپ (معاون خصوصی کا گروپ)میں جو اختلافات تین سالوں سے کبھی واضح اور کبھی پوشیدہ چل رہے تھے اب منظرپر آئیں گے۔

پھر بلوچستان سے تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آئیں گے۔کیونکہ بلوچستان میں عمران خان کے قریبی دوست یار محمد رند پہلے ہی وزارت سے مستعفی ہوچکے ہیں ۔سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور سرفراز بگٹی کے اختلافات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے بھی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی اکثریت ناخوش ہے۔

چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی ان اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کوہر ماہ ختم کرانے کیلئے خصوصی نشست کا اہتمام کرتے ہیں لیکن معاملات پھر جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔جبکہ سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ اور ثناء زہری تاحال خاموش دیکھائی دے رہے ہیں وہ بھی کسی اچھے وقت کا انتظار کررہے ہیں ۔بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن اور اختر مینگل کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

شاید رواں سال اکتوبر نومبر میں وہ بھی منظر عام پر آجائیں ۔پھر مصالحے دار خبروں کی لہر خیبر پختونخواہ کا رخ کرے گی۔کے پی کے میں پرویز خٹک گروپ آج بھی کافی مضبوط ہے۔مانسہرہ الیکشن میں ان کے بھائی لیاقت خٹک کے اختلافات میڈیا کی ذینت بن چکے ہیں جبکہ عاطف خان،شہرام ترکئی کی بھی لابی کافی مضبوط ہے۔کے پی میں تحریک انصاف کے ڈائی ہاڈ ارکان وزیر اعلیٰ محمود خان کی کارکردگی سے ناخوش ہیں ۔

کیونکہ محمود خان ڈلیور نہیں کرپارہے ہیں ۔کے پی کے میں تحریک انصاف کے ارکان کی اکثریت صرف عمران خان کی وجہ سے خاموش ہے لیکن ان کے اندر جو لاوا پک رہا ہے وہ زیادہ دیر قید نہیں رہ سکتا۔
اس کے بعد مصالحے دار خبریں کی آندھی کا رخ پنجاب کی طرف ہوگا۔پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے سے لے کر آج کے دن تک تحریک انصاف کی اکثریت نے ان کو وزیراعلیٰ تسلیم ہی نہیں کیا۔

لاہور کے تین وزرا،ملتان اور ڈی جی خان اور رحیم یار خان سے پنجاب کے وزیر آج بھی خود کووزیراعلیٰ ہی سمجھتے ہیں ۔انہوں نے کبھی اپنی وزارتوں کی کارکردگی کی نہ عثمان بزدار کو رپورٹ دی اور نہ کبھی عثمان بزدار کو جوابدہ ہوئے ہیں ۔ایسی ہی صورتحال دیگر حکومتی ارکان کی بھی ہے۔جبکہ جہانگیرترین گروپ اور شاہ محمود قریشی گروپ کاپنجاب پر بھی کافی حد تک کنٹرول ہے۔

پنجاب کی کابینہ میں بھی دونوں کے لوگ شامل ہیں۔آنے والے سات ماہ میں دونوں گروپ وفاق کی طرح پنجاب میں بھی کھل کر سامنے آئیں گے۔جبکہ بزدار صاحب سے ناراض باغی گروپ بھی اپنے رنگ دیکھائے گا۔سندھ سے تاحال ٹھنڈی ہوائیں ہی آتی رہے گی کیونکہ پیپلزپارٹی ایک ٹھنڈی جماعت ہے اور اس کے لوگ بھی اپنی جماعت کے اندر بیٹھ کر لڑائی کرنے کے عادی نہیں ہیں ۔لیکن عمران خان سندھ میں اپنی جماعت کو مضبوط لازمی کرینگے ۔وہ سندھ سے پیپلزپارٹی کو لازمی توڑیں گے اس حوالے سے پلائننگ شروع ہو چکی ہے۔مصالحے دار اور چٹی پٹی خبریں آتی رہیں گی تو میڈیا کا بھی پیٹ بھرتا رہے گا اور عوام کی توجہ مہنگائی ہٹی رہے گی کیونکہ عمران حکومت کے پاس صرف چٹ پٹی خبریں ہی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :