نوازشریف ،مریم نوازاور کیش چیک

جمعرات 12 اگست 2021

Saif Awan

سیف اعوان

ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں جس طرف ہوا کا رخ ہو اسی طرف ہی چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہوا کی مخالف سمت چل کر بھی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔اگر آپ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کریں تو عمران خان کی طرح وزیراعظم بن سکتے ہیں ہاں اگر اصولوں پر ڈٹ جائیں تو نوازشریف کی طرح وزارت عظمیٰ سے بھی ہٹادیے جا سکتے ہیں ۔اصولوں پر قائم رہنے کی قیمت تو چکانا پڑتی ہے ۔

کبھی بیٹی کے ساتھ جیل جانا پڑتا ہے اور کبھی باپ کے سامنے بیٹی کو صرف اس لیے گرفتار کیا جاتا ہے تاکہ باپ کو کمزور کیا جاسکے۔مریم نواز نے حقیقی معنوں میں ایک مضبوط اعصاب کی مالک بیٹی ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔پاکستان کی اگر سیاسی تاریخ دیکھی جائے تو بینظیر بھٹو کے بعد مریم نواز ہی وہ واحد بیٹی ہیں جو اپنے والد کی میراث کو آگے لے کر جانے میں کامیاب ہوئی ہے۔

(جاری ہے)


وقت اور حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔وقت اور حالات کے ساتھ چلنا سیکھنا چاہیے اور جو شخص وقت کے ساتھ چلتا ہے کبھی ناکام نہیں ہوتا۔جذبات کے ساتھ ہوش کا استعمال کرنا بھی آنا چاہیے۔جب آپ کے اردگرد سارے جذباتی لوگ ہونگے تو یقینا آپ کا لہجہ بھی تلخ اور جذباتی ہوگا ایسے وقت میں آپ کو ہوش و حواس قائم رکھنے کا مشورہ دینے والے افراد یقینا ناپسند ہونگے۔

لیکن بہتری صرف اسی میں ہوتی ہے کہ آپ ہوش و حواس کو قائم رکھیں اور ہر قدم درست اٹھائیں جس کا آپ کو اگر فائدہ نہ ہو تو کم از کم نقصان بھی نہ ہوسکے۔اگر آپ بلاوجہ زور آزمائی کرتے رہیں گے تو حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا اولٹا آپ کا نقصان ہوگا۔اگر ہم بات کریں سیاسی نقصان کی تو نوازشریف کی نا اہلی کے بعد نوازشریف اور مریم نواز نے جارہانہ رویہ اختیار کیا اس جارہانہ رویے نے دونوں کو صرف نقصان ہی پہنچایا ۔

یہ جارہانہ رویہ تاحال قائم ہے ۔وقت سے پہلے اور بلاضرورت تمام کارڈ کھیلنے کا ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔نوازشریف نے بہت سے کارڈ وقت سے پہلے ہی کھیل دیے جن کاان کو تاحال کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔اگر نوازشریف یہی کارڈ باری باری کھیلتے تو آج نوازشریف کبھی کبھی ٹویٹر پر نظر آنے کی بجائے قومی میڈیا کی سکرینوں پر چل رہے ہوتے۔نوازشریف ایک تجربہ کار سیاستدان ہونے کے باوجود دانستہ طور پر کچھ جذباتی فیصلے کر بیٹھے جن کا ان کے اہلخانہ اور ان کی جماعت کو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

جب عدالتیں،ادارے اور رائے عامہ نوازشریف کیخلاف جاری تھی تو ایسے حالات میں نوازشریف کو کچھ عرصہ کیلئے خود پر کنٹرول کرنا چاہیے تھا لیکن نوازشریف جذباتی ہو گئے۔پہلے عدالت نے نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا ۔پھر اسی عدالت نے نوازشریف کو پارٹی صدارت سے ہٹادیا۔پھر عدالت نے مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کو آزاد حیثیت میں سینیٹ انتخاب لڑنے پر مجبور کردیا۔

پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عدالت نے نوازشریف کو سرینڈر کرنے کا بھی حکم دے دیا اور اشتہاری قراردے دیا۔اسی عدالتی حکم نامے کا عمران حکومت نے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوازشریف کو میڈیا پر بھی سینسر کردیا۔یہاں ایک بات میرے لئے باعث حیرت ہے کہ مسلم لیگ (ن) پیمراء کے اس اقدام کیخلاف عدالت کیوں نہیں گئی؟
اب آتے ہیں مریم نواز کے کردار کی طرف ۔

مریم نواز نے اپنے والد ،چاچا شہبازشریف اور بھائی حمزہ شہباز کی عدم موجودگی میں پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس بات کو اعتزاز احسن جیسے شخص نے بھی تسلیم کیا۔مریم نواز نے پاکستان،گلگت اور آزاد کشمیرمیں اتنے بڑے جلسے کیے کہ میڈیا بھی عش عش کر اٹھا لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ اتنے بڑے جلسوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) ناکام ہوگئی۔

اگر سب کو معلوم تھا کہ نواز لیگ کو سسٹم سے باہر کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے تو مریم نواز کو بھی چاہیے تھا کہ وہ وقت اور حالات کے مطابق چلتی لیکن کیا کریں ان کواستاد ہی اینٹی اسٹبلشمنٹ سوچ والا مل گیا ہے ۔مریم نواز کو چاہیے کہ وہ اپنا استاد تبدیل کریں ۔مریم نواز مسلم لیگ(ن) کا کیش چیک ہیں ۔اب نوازشریف کو بھی چاہیے کہ وہ اس کیش چیک کو بلاضرورت استعمال مت کریں۔

مریم نواز کو کچھ عرصہ آرام کرنا چاہیے اور حالات کا بغور جائزہ لینا چاہیے کہ پاکستان میں حالات اور وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ۔کہتے ہیں اگر برا وقت انسان پر آتا ہے تو اس کو اس سے سیکھنا چاہیے کہ میں نے کہاں کہاں غلطی کی ہے ۔مریم نواز کو بھی جنرل الیکشن کے قریب دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنی چاہیے ۔ہاں ٹویٹر پر ان کو ایکٹیو رہنا چاہیے اور اپنے کارکنوں سے بھی رابطے بحال رکھنے چاہیے ۔

فی الحال نوازشریف اپنی جماعت اپنے وفادار بھائی کے حوالے کریں اور ان کو موقعہ دیں کہ وہ جیسے چاہے پارٹی کو چلائیں ۔اگر مسلم لیگ(ن) کی اندر اور باہر جڑ یں مضبوط ہونگی تو آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ(ن) شاید دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔جبکہ شہبازشریف ویسے بھی درمیانی راستہ نکالنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں لہذا ان کو ایک موقعہ ملنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :