میت موٹر سائیکل پر

منگل 17 ستمبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان جو مختلف سیاسی، معاشرتی اور سماجی مسائل میں مبتلا ہے ان میں کرپشن ایک قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ کرپشن ہر شعبہ میں سرایت کر چکی ہے۔حکمران جماعت تحریک انصاف نے کرپشن ہی کو موضوع بنایا اور 2018ء کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے سیاسی کامیابی اور مخالفین کو بدنام کرنے کیلئے اس حوالہ سے بہت بلند و بانگ دعوے کئے۔

چنانچہ ٹارگٹ صرف سیاسی حریف ہی رہے کرپشن کے خاتمہ کیلئے تاحال کوئی عملی قدم سامنے نہیں آیا۔ سیاستدانوں کے علاوہ کیا معاشرے میں کرپشن موجود نہیں۔۔۔؟ سابقہ ادوار میں حکومتی سطح پر لوٹ مار اور کرپشن ایک طرف غریب آدمی تو آج بھی سرکاری دفاتر میں رشوت خور ملازمین کے ہاتھوں لٹ رہا ہے۔کسی سرکاری محکمہ میں غریب کی شنوائی نہیں۔

(جاری ہے)

پیسہ۔۔

۔پیسہ۔۔۔ پیسہ۔۔۔ ستم ظرفی رشوت خور سرکاری ملازمین اور کرپٹ عناصر بھی سیاست دانوں کے کرپشن کے قصوں پر ایسے تبصرہ کرتے ہیں جیسے ان کیلئے کرپشن حلال ہے اور بنیادی پے سکیل کا حصہ ہے۔ احتساب کا عمل صرف سیاستدانوں کی ذات ہی سے منسوب ہے۔جبکہ عام آدمی جو پہلے ہی اپنے اردگرد رونماہونے والے واقعات سے پریشان ہے،بے بسی کے عالم میں سرکاری دفاتر میں ذلیل و خوار ہو رہا ہے سیاستدان سے ہی شکایت کرتا ہے۔

اخبارات میں اچھی خبریں کم ہی نظر آتی ہیں کیونکہ بحیثیت قوم ہم تنزلی کی جانب گامزن ہیں اور حکمران طبقہ کی تما م توجہ اپنی سیاسی مسائل پر ہے۔ عام آدمی کے مسائل کا حل کسی بھی حکومت وقت کی اولین ترجیح نہیں رہا۔ جبکہ سیاست کی جامع تعارف موقع شناسی، باریک بینی، غوروتدبیر اور سوچ وبچار سے مربوط ہے۔
قارئین کرام! میر پور خاص سے ایک خبر آئی، سول ہسپتال غربت کے باعث موٹر سائیکل پر معصوم بچے کی لاش لے جاتے ہوئے باپ اور چچا راستہ میں ٹریفک حادثہ میں ہلاک ہو گئے۔

پولیس نے نامعلوم ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے واقعہ کی تفصیلات طلب کر لیں۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈائریکٹر ہیلتھ نے الگ الگ تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کر دیں۔اگلے روز یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی کہ میر پور خاص میں ہسپتال سے بچے کی میت لے جانے کیلئے ایمبولینس دینے سے انکار پر محکمہ صحت نے ایم ایس ڈاکٹر محمد اسلم اور سول سرجن ڈاکٹر خلیل میمن کو معطل کر دیا۔

محکمہ صحت نے اس حوالے سے تحقیقات کی تھیں اور ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سفارش پر دونوں پر فوری طور پر معطل کر دیا گیا۔دونوں ڈاکٹروں کی معطلی سے کیا آئندہ ایسی صورتحال پیش نہیں آئے گی اور غریب خاندان کو انصاف مل گیاجس کی ایک نہیں تین انسانی جانیں معاشرتی بے حسی کے بھینٹ چڑھ گئیں۔
یہ دلخراش واقعہ کچھ یوں پیش آیا۔ میر پور خاص ضلع کے تعلقہ سندھڑی کے گاوں ہمیردرس کا رہائشی کیول بھیل سول ہسپتال میرپور خاص میں زیر علاج اپنے دو سالہ بیٹے موھن کے انتقال پر سرکاری ایمبولینس کے فیول کی مد میں دوہزار روپے ادا کرنے کی سکت نہ رکھنے پر ایمبولینس کی عدم دستیابی پر لاش کو اپنے بھائی کے ہمراہ موٹر سائیکل پر گھر لے کر جا رہا تھا۔

سانگھڑ روڈ پر تیز رفتار منی ٹرک سے تصادم ہو گیا جس کے نتیجہ میں کیول بھیل اور اسکا بھائی رمیش ہلاک ہو گیا۔لاشیں جب گاؤں پہنچی تو علاقہ میں کہرام مچ گیا۔ ادھر سول سرجن کا کہنا ہے کہ بچے کی لاش گھر لیجانے کیلئے کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ حکومت نے کمیٹی بنا کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ واقعہ کے بعد حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں نے متاثرہ خاندان کے گاوں کا رخ کر لیا۔

غریب خاندان کے ساتھ قیامت کی گھڑی میں سیاستدانوں نے اپنی سیاسی روش نہ بدلی۔ غریب کے اس نقصان پر بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نے ہمارے سماجی دیوالیہ پن پر مہر ثبت کر دی۔ہم اندر سے کس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ دولت کے بل بوتے پر میدان سیاست پر موجود ہمارے لیڈر ہر موقع پر سیاست ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے مسائل کے حل سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔

ایسے سیاسی کھیل حلال کی کمائی سے نہیں کھیلے جا سکتے۔ لازم ہے ایسے کھیل کھیلنے والوں کی کمائی میں اُس کمائی کی آمیزش ہو گی جسے ہمارا معاشرہ حرام کی کمائی کہتا ہے اور یہ کھیل صرف اسی لئے جاری ہے کیونکہ صرف سیاستدان ہی نہیں عام آدمی بھی دوسرے کی کرپشن کو ناجائز اور اپنے لئے حرام کی کمائی کو حلال سمجھتا ہے۔ انسان جب یہ سوچ لیتا ہے کہ وہ بدن کیلئے زندہ ہے روح کیلئے نہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے انسانیت، محبت، الفت، خود غرضی کی بھول بھلیوں میں کھو جاتی ہے۔


میر پور خاص ہونے والی یہ تین ہلاکتیں زندہ ضمیر احباب کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہیں مگر جن کا اوڑھنا بچھونا دولت طاقت اور اقتدار ہو تو ان کیلئے یہ معمول کا واقعہ ہے، ایک حادثہ ہے جس میں موٹر سائیکل پر میت کے ساتھ سوار دو افراد ٹریفک حادثہ میں ہلاک ہو گئے۔یہ واقعہ کسی ایک صوبہ،شہر سے منسوب نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ہمارے معاشرہ میں بڑھتی ہوئی بے حسی کو آشکار کرتا ہے۔

ہمارا سیاسی نظام عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی بجائے روایتی سیاستدانوں کو سیاست کرنے کیلئے نت نئے مواقع فراہم کرتا ہے۔معاشرہ میں انسانیت ختم ہوتی جاری ہے۔ دھن دولت ہی سب کچھ ہے۔ ہم سب کیول بھیل اور رمیش کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک فلاحی ریاست کے شہری ہیں، علاج معالجے کی سہولت تو ایک طرف دو سالہ بچے کی میت کیلئے بغیر پیسوں کے ایمبولینس بھی میسر نہیں۔

ہسپتالوں میں موجود سرکاری عملہ انسانیت سے بھی عاری ہو چکا ہے۔ ہم اپنی بربادی کا مکمل ذمہ دار ان کرپٹ عناصر کو ہی قرار نہیں دے سکتے بلکہ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔
کس بات پر اظہار افسوس کیا جائے؟ کس کی مذمت کی جائے؟ کس پر الزام دھرا جائے؟ کس کو قصور وار ٹھہرایا جائے؟ اس قسم کے سوالات ہر شہری کے دل و دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ ہم سب کے چہرے سوالیہ نشان ہیں۔

میر پورخاص کے اس واقعہ کے محرکات کچھ بھی ہوں اور زمہ دار کوئی بھی ہو ایک بات واضح ہے ہم تمام تر دعووں کے باوجود کرپشن ہی نہیں سماجی اور اخلاقی تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔اس دلخراش واقعہ کے ذمہ داری صرف کرپٹ عناصر پر ہی نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ پورا معاشرہ زمہ دار ہے۔دوسالہ بچے کی میت موٹر سائیکل پر نہیں بے حسی اور لالچ کے ٹائی ٹینک پر تھی جو ڈوبنے کے قریب ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :