''سیاسی رویے اورلاک ڈاوٴن''

پیر 27 اپریل 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

 پوری دنیا کوکورونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا ہے۔ عام پاکستانی بھی کورونا کے ساتھ مالی مشکلات سے پریشان ہے۔جزوی لاک ڈاون کے نتیجہ میں دکانیں توبند ہو گئیں مگرسیاسی دکانداریاں بند نہ ہوسکیں۔سیاسی قیادت ایک نقطہ پر متفق نہیں۔ چنانچہ کورونا وائرس کے پھیلاو کے حوالہ سے معاملات الجھنے لگے ہیں۔کنفیوژن بڑھنے لگی ہے۔

حکمت کا تقاضا تھا کہ سیاسی لیڈر شپ مشکل حالات میں غیر جذباتی فیصلے کرتی مگر صد افسوس ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ عمران خان کو سیاست میں انتہا پسندانہ موقف ہی بھاتا ہے۔اتفاق رائے اور مفاہمت کو تو انھوں نے گالی بناکر پیش کیا۔اسی لیے انکا سیاسی مخالفین کے ساتھ گفت و شنید آسان نہیں۔ اتفاق رائے نہ ہو مگروفاق اور صوبوں کے درمیان سیاسی بیان بازی کسی صورت مناسب نہیں۔

(جاری ہے)

سیاسی تناو سے مسائل بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے۔درست لائحہ عمل تو یہ تھا کہ برسر اقتدار پارٹی کے طور پر پی ٹی آئی سب سے پہلے متفقہ قومی پالیسی بناتی۔کورونا وائرس کے پھیلاو کے آغاز پر وفاقی حکومت نے کوتاہی کی۔ائیر پورٹس اور زمینی باڈرز پر بر وقت انتظامات نہ کیے۔ جبکہ سندھ حکومت نے اپنے دائرہ کار کے اندر بروقت فیصلے لیے، عملی اقدامات اٹھائے۔

بین الاقوامی سطح پر وزیر اعلی سندھ سید مراد علی کی تعریف ہوئی۔وفاقی حکومت کی طرف سے تعاون اور ستائش کی بجائے وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نے سیاسی الزام تراشی شروع کردی۔وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈاون پر اپنی تقاریر میں بار بار یہ تاثر دیا کہ وہ اس لائحہ عمل سے متفق نہیں۔ مگر سندھ سمیت پنجاب، کے پی کے، بلوچستان، جی پی، اے جے کے اور اسلام آباد ہر حکومت نے با لاخر لاک ڈاون ہی
 کیا۔

اس طرح ملک میں جزوی لاک ڈاون ہوا۔ راشن کی تقسم پر سندھ حکومت پر الزامات، سوشل میڈیا، ٹاک شوز ہر جگہ سیاسی بیان بازی جاری رہی۔ایک طرف لاک ڈاون دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کے بیانات کہ مجھے غریب کی فکر ہے۔ایساتاثر دینا جیسے لاک ڈاون ضروری ہی نہیں۔معاملات ایسے ہی چل رہے تھے۔ ٹیلی تھون کے انعقاد پر قومی میڈیا کی موجودگی میں وزیراعظم نے اپوزیشن کے بارے پھر غیر مناسب ریمارکس دیے۔

وزیر اعظم عمران خان بھول جاتے ہیں کہ اپوزیشن نے اجتماعی طور پر ان سے زائد ووٹ لیے ہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد انکے اپنے بارے میں بھی وہی رائے رکھتی ہے جسکا اظہار وہ اپوزیشن کے لیے کرتے ہیں۔یہ مشکل وقت ہے حکومت تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی مگر پی ٹی آئی کی سیاست جیسے مرغے کی ایک ٹانگ۔
قارئین کرام! ارادہ تھا کہ سیاست اور کورونا وائرس کی صورتحال سے ہٹ کر لکھا جائے، مگر سندھ حکومت کے خلاف جعلی ویڈیو وائرل کرنے کی سازش پر چشم پوشی ممکن نہیں تھی۔

اسے بغض وحسد کا روایتی سیاسی کلچروکہہ لیں، ذاتی عناد اور پر خاش کی انتہا یا پھر بیمار ذہنوں کا شاخسانہ کہ سیاسی منفعت کے حصول اور اپنے مقاصد کے لیے سیاسی مخالفین کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے بعض لوگ نتائج سے بے نیاز ہوکر انتہا تک چلے جاتے ہیں۔اس کے آڈیو وائرل کرنے کے کئی پہلو ہیں۔ان سب کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے تودرست ہوگا۔

کسی ایک پہلو کو لے کر بات کرنے سے ذاتی رائے کا اظہار تو ہو سکتا ہے لیکن انصاف نہیں۔کسی سازشی ذہن کی اس تخلیق سے سندھ حکومت کا نقصان تو نہیں ہوگا مگر تاجر برادری میں بد اعتمادی ضرور پھیل سکتی ہے۔تاجر پہلے ہی لاک ڈاون ختم کرواناچا ہتے ہیں ایسے ماحول میں یہ الزام تراشی ایک سازش سے کم نہیں۔سیاست پر نظر رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بیمار سوچ اور منفی ذہن نفرت اور حسد کے تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔

معاشرہ جب واضح سیاسی گروہوں میں بٹ جائے تو عام آدمی کے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے قابل
 ہوسکے۔سچ کا تعین کچھ مشکل سا ہو جاتا ہے۔ میرا سچ کچھ لوگوں کو جھوٹ نظر آئے گا۔میری بات سے مختلف سوچ کے حامل افراد سراسر سفید جھوٹ بھی سچ ماننے میں ایک منٹ نہیں لگائیں گے۔تاجر برادری تو پہلے ہی لاک ڈاون کا خاتمہ چاہتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان لاک ڈاون کے بارے مخمصے کا شکار ہیں۔لاک ڈاون کی جگہ بندش کے لفظ پر وہ راضی ہوئے۔اب کبھی سمارٹ لاک ڈاون اور کبھی سوفٹ لاک ڈاون کی بات کی جاتی ہے۔کراچی کے ڈاکٹرز نے سخت لاک ڈاون کی بات کی تو وزیر اعظم کے مشیر شہباز گل نے ڈاکٹرز کو سیاسی قرار دے دیا۔انکے بارے غلط ریمارکس دیے۔کے پی کے۔پنجاب کے ڈاکڑز بھی جزوی نہیں مکمل لاک ڈاون کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اب تو بلوچستان کے ڈاکٹرز نے 15دن کے کرفیو کا مطالبہ کردیا ہے۔مجھے قوم کے مسیحاوں پر مکمل اعتماد ہے وہ اپنی خدمات جان قربان کر کے بھی ادا کر رہے ہیں اور سیاسی لیڈر شپ صرف سیاست کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے مخالف سندھ سرکار کی مخالفت میں قوم کو بھی مشکل میں ڈالنے سے گریزاں نہیں۔اجتماعی فیصلے بھی سیاسی بنیاد پر کرنے کے خواہش مند ہیں۔
سندھ حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم پر مشیر قانون بیرسڑ مرتضی وہاب نے ایف آئی اے کو خط لکھ دیا ہے۔

جس میں سندھ حکومت کے خلاف گمراہ کن آڈیو اور ویڈیو ٹیپ پھیلانے اور تاجروں سے رشوت طلب کرنے کا الزام لگایا گیا۔ تاجر و صنعت کار بھی ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔اب ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس گروہ تک پہنچے جو ملک کے خلاف کام کر رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب انسان پریشان ہے اور انسانیت کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہو تو ایسے میں گھناونی مہم ناقابل برداشت ہے۔

امید ہے سندھ حکومت متزلزل نہیں ہوگی اور عوامی خدمت جاری رکھے گی۔بہر حال ان عناصر کو بے نقاب کرناازحد ضروری ہے جو تاجروں کو اکسارہے ہیں۔اب بھی وقت ہے سیاسی قیادت ڈاکٹرز کی رائے کو اہمیت دے، سیاست کے لیے آگے بہت وقت ہے۔ برطانیہ کی حکومت نے معاشی مسائل کے
 باوجود لاک ڈاون میں نرمی سے انکار کر دیا ہے۔یہ سوفٹ اور سمارٹ لاک ڈاون کی باتیں کہنے اور سننے میں اچھی لگتیں ہیں۔ حقیقت میں کورونا وائرس کے پھیلاو کو کنڑول کرنے کے لیے ایک ہی طریقہ کامیاب رہا وہ ہے مکمل لاک ڈاون۔اس کے ساتھ تاجر برادری کو مکمل طور پر راضی کیا جائے انکا تعاون ضروری ہے۔ اب سازشی عناصر پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :