سینٹ انتخابات اور سیاسی سمت

منگل 16 مارچ 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وطن عزیز میں سیاست ایسا موضوع ہے جس میں عام آدمی کی دلچسپی دیدنی ہے۔ ہر سطح پر قریہ قریہ نگر نگر جہاں چند احباب جمع ہوئے سیاست پر بات ضرور ہوتی ہے۔ الزامات،امید، طرفداری اور یہاں تک کہ تلخی ہونے میں دیر نہیں لگتی۔سیاست اور سیاسی اختلاف میں عدم برداشت کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ عام محفلوں میں اپنے محبوب لیڈروں کے لیے ذاتی مخالفت اور غیر مناسب انداز تکلم معمولی بات ہے۔

منشور، سیاسی تربیت، سٹڈی سرکل کا انعقاد اور نظریات کا پرچار کیا یہ سب ماضی کاحصہ بن چکا ہے۔۔۔؟جذبات، کھوکھلے نعرے اور مخالف پر ذاتی نوعیت کے حملے، اپنا لیڈر اوتار اورباقی سب گناہ گارسیاسی کارکن صرف اسی جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
گمان ہوتا ہے جیسے ہم اپنا اپنا سچ سجائے میدان سیاست میں سرگرم ہیں۔

(جاری ہے)

اپنی اپنی عدالتوں میں سب نے مخالفین کو سزائیں سنادیں۔

جو ہم خیال نہیں وہ چور، ڈاکو، غدارجیسے القابات کا حقدار ہے۔ملکی مفاد، قومی یکجہتی اوراجتماعیت سیاسی پلیٹ فارم پر ناپید ہے۔ کل کے قاتل آج نفیس قاتل اور سینٹ الیکشن میں اسلام آباد کی ایک جنرل نشست پر اپنی جماعت کو ووٹ نہ دینے والے ضمیر فروش قرار پائے۔وزیرآباد سے مسلم لیگ (ن) جیت جائے تو الیکشن منصفانہ اور ڈسکہ میں الیکشن چوری، الیکشن کمیشن اگر تبدیلی سرکار کی لائن نہ پکڑے تو الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان۔

چھوڑوں گا نہیں کا مقبول عام فقرہ روز ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے لیکن سیاسی قیادت کی ضمانتوں کی خبریں بھی تواتر سیآرہی ہیں۔ یہ سیاست ہے یا تھیٹر، ہاتھ سے فٹ بال کھیلنے کا اعلان کر کے باقاعدہ چیرمین سینٹ کی نشست پر کامیابی تو کمال ہے۔ سات ایسے جو ساتھ نہیں بس یہی ترپ کا پتہ حکومت نے کھیل دیا۔ غیر سیاسی دولت مند شخصیت پر پیسوں کے استعمال کا الزام لگایااور پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ سینٹ ٹکٹ واپس بھی لے لیا مگر موضوف دوسرے اور آسان راستہ سے سینٹ میں پہنچ گئے اور اب صاف چلی شفاف چلی جماعت میں باقاعدہ شامل بھی ہوگئے۔


 ٹیکنوکریٹ عبدالحفیظ شیخ اسلام آباد سے جنرل نشست پر امیدوار تھے۔ یہ نامزدگی سیاسی طور پر ہی سید یوسف رضا گیلانی کی جیت کا فیصلہ تھی۔ پی ٹی آئی سیاسی معاملات سیاسی انداز کی بجائے الزامات کے ساتھ آخر کب تک لے کر چل سکتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے سیاسی جنگ جیت لی۔سات کے چکر سے پی ٹی آئی نے چیرمین سینٹ پر کامیابی ضرور حاصل کرلی لیکن وہ اخلاقی معیار اور بلند وبالادعوے سب ہوا ہوگئے۔

اب چیرمین سینٹ کا معاملہ بھی عدالت میں جائے گا۔ سیاسی معاملات میدان سیاست میں طے ہوتے تو بہتر تھا-اب ریاستی ادارے سیاسی معاملات طے کریں گے تو پھراداروں پر تنقید ہوگی۔سینٹ الیکشن مکمل ہوئے مگر سیاست میں تلخی بڑھ گئی۔اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کی سیاسی روش ہے جس پر روز اول سے عمران خان قائم ہیں۔برسر اقتدارپارٹی کے خلاف گرینڈ اپوزیشن الائنس کی ایک تاریخ ہے۔

یہ سیاسی جدوجہد کا طریقہ ہے اس کو چوروں کا اجتماع قرار دے کر خود کو مطمئن کیا جاسکتا ہے لیکن سیاسی فہم وفراست کی حامل شخصیات کو اس دلیل سے خاموش نہیں کروایا جاسکتا۔
قارئین کرام! سیاسی موضوع پر جب بھی قلم اٹھایا اور اپنی فہم کے مطابق جو بھی ضبط تحریر کیا، مخالف رائے کے حامل احباب کی طرف سے جانب داری کا طعنہ ملا۔ انکااحترام واجب لیکن جنوں کی حکایت لکھنے سے ہٹ نہیں سکتے۔

پی ٹی آئی کی قیادت کی سیاسی حکمت عملی کو درست نہیں لکھا جاسکتا۔ موجودہ حکمرانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ عمران خان سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے پر تیار نہیں۔غیر منتخب غیر سیاسی مشیران حکومت کے لیے مسائل بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ سینٹ الیکشن میں ٹکٹوں کی غلط تقسیم، اپوزیشن کو متحد کرنے کی ذمہ دار بھی تبدیلی سرکار ہے۔

حکومت ہمیشہ اپوزیشن کو تقسیم کرنیکی حکمت عملی پر کام کرتی ہیمگر عمران خان یہ کہہ کر اطمینان محسوس کرتے رہے کہ چور اکھٹے ہیں۔آج اپنے اخلاقی معیاراور دعووں کے پوچھ تلے پی ٹی آئی دبی جارہی ہے۔
تواتر سے غلط فیصلے ہوتے رہے مگر کپتان ڈٹ کر کھڑا ہے یہ گمان پی ٹی آئی کی سیاست کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔کپتان تو کھڑا رہے گا مگر اسکے ساتھ سیاسی طاقتیں کھڑی نہیں رہ سکتیں۔

سیاست کے لیے سیاسی انداز از حدضروری ہے۔
پی ٹی آئی کچھ ایسی صورتحال سے دوچار ہے جیسے کچھ اہل علم یہ پڑھنا اور پڑھانا ہی درست سمجھتے ہیں۔ہندستان میں مغلیہ اقتداراس لیے ختم ہوا کیونکہ ہندو دغا باز تھااور انگریز مکارمگر مسلم حکمران کہیں غلط نہ تھے۔تاریخ کا سبق تو یہ ہے پہلے اپنی کوتاہیوں کو سامنے رکھیں اور انکو دور کریں۔مخالف کی طاقت کا درست اندازہ لگائیں۔

اسکے بعد حکمت عملی مرتب کریں۔ مخالفین پر آوازیں کسنے اور برا بھلا کہنے سے دائمی کامیابی نہیں مل سکتی۔
پی ٹی آئی اپوزیشن کی خامیوں سے صرف نظر کرے اپنی پالیسیوں پر غور کرے۔اپنی پرفارمینس پر توجہ دے تو سیاسی نقصان کا ازالہ ممکن ہے۔اگرچہ حکومت نے چیرمین سینٹ کا معرکہ جیت لیا لیکن اب بھی قانون سازی کے لیے اکثریت میسر نہیں۔ اس عدم برداشت کے رویہ کی موجودگی میں حکومت سیاسی تعاون حاصل نہیں کرسکتی۔دوسری طرف اپوزیشن احتجاجی تحریک شروع ہونے جارہی ہے۔ سیاست میں تلخی بڑھے گی۔ بہتری نہیں آسکتی تاوقت کہ حکومت سیاسی انداز اپنائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :