''مستقبل کی سیاست اور ترقیاتی پیکج''

منگل 30 مارچ 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پی ڈی ایم کے اختلافات، اپوزیشن کے لانگ مارچ کا ملتوی ہونا، چیرمین سینٹ کے انتخابات پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے یوسف رضا گیلانی کی درخواست کا مسترد ہونا،اپویشن لیڈر آف سینٹ کا تقرراور پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا فیصلہ گزشتہ ہفتہ کی اہم ترین خبریں ہیں۔اس کے علاوہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا پنجاب کے ہر ضلع کے لیے الگ ترقیاتی پیکج کا اعلان اہم پیش رفت ہے۔

سردار عثمان بزدار نے گوجرانوالا،شیخوپورہ اور حافظ آباد کے لیے 25ارب کے ترقیاتی پیکج کااعلان کیا اور کئی منصوبہ جات کا سنگ بنیاد رکھا۔گوجرانوالا کے لیے 8ارب4کروڑ، شیخوپورہ کیلیے 10ارب اور حافظ آباد کے لیے 7ارب 20کروڑ کے ترقیاتی پیکج کا اعلان ہوا۔ترقیاتی پیکج میں ہسپتال، یونیورسٹیوں، کھیلوں کے میدانوں کی تعمیر، نکاسی وفراہمی آب کے منصوبہ جات اور سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔

(جاری ہے)

وزیر اعلی پنجاب کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب کی ہر تحصیل میں جائیں گے اور ترقیاتی کاموں کی نگرانی خود کریں گے اور اچانک دورے بھی کریں گے۔
قارئین کرام! راقم الحروف نے گزشتہ کالم بعنوان '' ہر ضلع کا الگ ترقیاتی پیکج'' میں تبدیلی سرکار کی پالیسی کو سراہا تھا۔ اس پر حکومت کی حمایت کا الزام بھی سر آیا۔شعبہ صحافت سے منسلک رہتے ہوئے سب کو راضی رکھنا ممکن نہیں۔

زمینی حقائق اور خواہشات کبھی مطابقت نہیں رکھتے، ہمارے نزدیک سب سے اہم بات قلم کی حرمت کو مدنظر رکھنا ہی رہا۔اس لیے جنوں کی حکایت بیاں کرنے سے چوک نہیں سکتے۔ ہاتھ میں موجود قلم کی لرزش اورلبوں پر خاموشی طاری کرنا ممکن نہیں۔اپنے خیالات کو کسی کے تابع کرنااورضمیر کو قید کرنا ہماری فطرت اور تربیت میں شامل نہیں۔
ترقی کے ثمرات صوبائی دارالحکومت سے باہر پہنچیں گے تو حقیقی ترقی ممکن ہے۔

لاہور کیح ترقی بہتر تشہیر کا ذریعہ تو ضرور ہے اور اس ترقی سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی روایت بھی موجود ہے۔صوبہ بھر سے آئے پنجاب کے باسی لاہور کی ترقی سے متاثر بھی جلد ہوجاتے ہیں۔لیکن اپنے علاقہ میں واپسی پر انکا احساس محرومی ضرور جاگتا ہے۔
جنوبی پنجاب سے احساس محرومی اور ہمیشہ سے نظر انداز کیے جانے پر آواز تواتر سے بلند ہوتی آرہی ہے۔

اس احساس محرومی کو کم کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے سردار عثمان کا انتخاب کیا۔اس انتخاب پر روز اول سے ہی تنقید کی جارہی ہے۔پی ٹی آئی نے پنجاب کی یکساں ترقی اور پسماندہ علاقوں میں محرومیوں کے ازالہ کے لیے وسیم اکرم نہیں بلکہ وسیم اکرم پلس کا انتخاب کیا۔اس کی سیاسی وجوہات بھی ہیں کہ اسلام آباد کو راستہ لاہور سے ہوکر ہی جاتا ہے۔

کوئی بھی طاقت ور وزیراعلی مستقبل میں وزارت عظمی کا خواب ضرور دیکھنا شروع کردیتا ہے۔پنجاب میں ون مین شو کی حامل شخصیت شہباز شریف سے سردار عثمان بزدار سے موزانہ درست نہیں۔راقم الحروف کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ سردار عثمان بزدار کو کام کرنے کا موقع دیا جائے وہ خادم اعلی نہیں مگرخادم پنجاب ضرور ثابت ہونگے۔ اعلی تو وہ ہوسکتا ہے جسکابرادر حقیقی وزارت عظمی پر فائز ہو۔

پارٹی خاندان کے نام پر رجسٹرڈ ہو اوراقتدار کل پر تسلط ہو۔ان خوبیوں کی حامل شخصیت کی حرکات اور سکنات یقینا مختلف ہونگی۔سردار عثمان بزدار کی پروفائل اس سے یکسر مختلف ہے۔
وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے اقتدار کا نصف سے زائد وقت تنقید سنتے گزار لیا اب وہ پنجاب میں ترقی کے لیے متحرک نظر آرہے ہیں۔عدالتی فیصلے حکومت کے خلاف آئیں یا حق میں تبدیلی سرکار نے ہر حال میں ڈلیور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اپر پنجاب میں فنڈز لگنے شروع ہو چکے ہیں۔جنوبی پنجاب بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ پنجاب میں 12نئی یونیورسٹیاں قائم کی جارہی ہیں۔ اگر موجودہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں کسی حد تک کامیاب رہی تو پی ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہوگی۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی تحریک کے اہداف واضح نہیں اپوزیشن کی کامیابیوں کے سامنے سپیڈ بریکر ہی سپیڈ بریکر ہیں۔

مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کی سیاسی مخاصمت کو مولانا فضل الرحمن کم نہیں کرسکتے۔مستقبل میں سیاسی میدان پنجاب میں ہی سجے گا۔ پی پی پی سندھ کی حد تک مضبوط ہے اور کسی بھی طرح کا چیلنج درپیش نہیں۔
پی پی پی کو پنجاب میں گنجائش چاہیے جبکہ پی ٹی آئی کی تمام تر کامیابی بھی پنجاب سے ہی مشروط ہے۔ پنجاب مسلم لیگ(ن) کا قلعہ ہے اس قلعہ کو فتح کرنے کے لیے ترقیاتی کاموں پر توجہ ضروری ہے۔

وزیر اعلی پنجاب پوری تندہی کے ساتھ اس پالیسی پر گامزن ہوچکے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی توجہ بھی پنجاب پر مرکوز ہے اسی لئے بھٹو شہید کی برسی کی تقریب لاڑکانہ کی بجائے راولپنڈی میں منعقد کرنے جارہی تھی جو ملتوی کردی گئی۔ اب پی ٹی آئی کی تمام ترسیاست اب ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل پر منحصر ہے۔امید ہے وزیراعلی پنجاب بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔

دوسری طرف پی پی پی کے ساتھ بڑھتے فاصلوں کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) کے لیے چیلنج ہی چیلنج ہیں۔پی ڈی ایم حکومت کے خلاف نیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے تو اپوزیشن کے لیے سیاسی راستہ نکلتا ہے مگر بظاہر اب مولانا فضل الرحمن بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی بحالی کے فیصلہ کے بعد بھی اصل امتحان مسلم لیگ (ن)کاہونے جارہاہے۔سینٹ الیکشن کاباب اب بند ہوچکا ہے۔

پی پی پی اورمسلم لیگ(ن)سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری پر آمنے سامنے ہیں۔موجودہ سیاسی منظر نامہ میں اپوزیشن تقسیم ہے ایسے میں حکومت کے لیے صرف آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ اپوزیشن کی اپوزیشن ہی حکومت کومضبوط کرے گی۔نثاراحمد کا ایک خوبصورت شعر پی ڈی ایم کے موجودہ حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
وہ میری روح کی چادر میں آکر چھپ گیا ایسے
کہ جاں نکلے تو وہ نکلے، جو وہ نکلے تو جاں نکلے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :