صرف آگاہی موثر نہیں ہوسکتی

منگل 13 جولائی 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان میں منشیات کا استعمال ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ انسداد منشیات کے لیے حکومتی اقدامات کے باوجود اسکا استعمال روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ سکون کی تلاش میں بڑی تعداد میں نوجوان اور خواتین بھی اس طرف راغب ہو رہے ہیں۔ مشیات کے استعمال کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی رپورٹ 2020ء کے مطابق پاکستان میں تقریبا 90 لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں، جبکہ 2013میں یہ تعداد 64لاکھ تھی۔

اس صورتحال پر وفاقی وزیر انسداد منشیات بریگیڈیئر (ر)اعجاز علی شاہ نے قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات کو سروے کے حوالہ سے بتایا کہ یہ اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں منشیات کے عادی افراد کو مجرم کی بجائے ایک بیمار آدمی کی حثیت سے دیکھتے ہوئے اسکے علاج معالجے کا انتظام کرنا چاہیں۔انہوں نے( کے پی کے) کے انسداد منشیات قانون کو وفاقی انسداد منشیات قانون سے متصادم قرار دیا۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے منشیات کے بڑھتے استعمال پر قابو پانے کے لیے ہدایت دی کہ تعلیمی نصاب میں آگاہی اور تباہی کے حوالہ سے مضامین شامل کیے جائیں۔
قارئین کرام! پاکستان میں منشیات کے عادی افراد میں سے اٹھہتر فیصد مرد اور بائیس فیصد خواتین ہیں۔ یہ لوگ شراب، ہیروئن، چرس، افیون، کوکین، بھنگ، کرسٹل آئس، صمد بانڈ اور سکون بخش ادویات سبھی کچھ استعمال کرتے ہیں۔


پاکستان میں منشیات کے عادی افراد میں سرنج سے نشہ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہ افراد نشے کے لیے ایک دوسرے کی سرنجیں استعمال کرتے ہیں، جس سے وہ ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپاٹائٹس سمیت کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان دنیا میں منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کا ایک اہم روٹ بھی ہے۔افغانستان مشیات کی پیداوار میں دنیا بھر میں سرفہرست ہے-
پاکستان دنیا میں منشیات کی غیر قانونی ترسیل کے ایک اہم روٹ پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں سب سے زیادہ ہیروئن اور گانجا پکڑا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی عالمی رپورٹ کے مطابق 71 رکن ممالک میں منشیات پکڑنے کے 25 لاکھ کیسز ہوئے جن میں ترتیب وار گانجا، ہیروئن اور کوکین پکڑی گئی۔
سپین ، پاکستان اور مراکش ایسے ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ گانجا پکڑا گیا۔اسی طرح سب سے زیادہ ہیروئن افغانستان اور اس کے بعد پاکستان اور ایران سے قبضے میں لی گئی جو دونوں افغانستان کے پڑوسی ممالک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں نشے کے شکار افراد کی تعداد تین کروڑ 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ماضی قریب میں افغان جہاد میں منشیات کے کاروبار سے حاصل پیسے کے استعمال کی رپورٹس بھی منظرِ عام پر آئیں۔ افغانستان میں آج بھی مستحکم حکومت قائم نہیں ھو سکی۔
ایک طرف تو دنیا بھر میں منشیات کے خلاف بھرپور مہم چلائی جارہی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کو ہر طرح کی منشیات سے بالکل پاک کرکے نوجوانوں کو مکمل تباہی سے بچایا جائے اور دوسری طرف منشیات کا مافیا نئی نسل کو تباہ کرنے کے در پے ہے اور یہ منشیات کی غیر قانونی تجارت سے کروڑوں کما رہے ہیں۔


پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسداد منشیات کا عالمی دن 26 جون کو منایا گیا جس کا مقصد معاشرے کے لوگوں میں منشیات کے مضر اثرات کو اجاگر اور آگاہی دینا تھا۔اس دن کے حوالے سے پاکستان کے مختلف شہروں میں واکس،فوٹو سیشن اور تقاریب منعقد کی گئیں جن میں ماہرین منشیات نے اس کی سمگلنگ، اس کے استعمال اور اس کی تباہ کاریوں کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالی۔

یہ کوشش مسلسل جارہی ہیں لیکن اسکے باوجود منشیات کا استعمال کم نہیں ہو رہا۔ سطورِ بالا میں اس کی کئی وجوہات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔
انسداد منشیات کے عالمی دن کے حوالہ سے بات کریں تو یہ روایتی سرگرمی بن کہ رہ گئی ہے۔ نام نہاد تنظمیں کاغذوں اور تصاویر تک محدود ہیں۔انسداد منشیات کی بات کرنے والی کئی تنظمیں خود منشیات فروشوں سے فنڈز لیتی ہیں۔

26جولائی کو تصویری کاروائی اور منشیات کا دھندہ سرکاری اداروں کی سرپرستی میں بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود یہ زہر تیزی سے معاشرے کی رگوں میں اُترتا جا رہا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات آگاہی کے ذریعے اس پر قابو پانے کی سفارش کرتی ہے لیکن منشیات کے خلاف سخت قوانین بھی بے سود جب تک سزائیں نہ ہوں۔

قانون مکمل حرکت میں آئے تو نتائج تب ہی نکل سکتے ہیں۔
پولیس منشیات کی بڑی کھیپ پکڑ کر اتنی تعداد ڈال دیتی ہے کہ ضمانت ہوجائے۔ راقم الحروف سمیت عام پاکستانیوں کے علم میں ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ سونے پر سہاگہ میڈیا بھی منشیات فروشوں کے خلاف کھل کر لکھ اور نشر نہیں کرسکتا کیونکہ یہ مافیا بہت طاقتور ہے۔ اپنی جان سب کو پیاری ہے۔ بس پھر یہی روایتی واک سے آگے شعور تک کاروائیاں کیسے موثر ہو سکتی ہیں۔


شعور اور آگاہی کے ساتھ سخت کاروائی کا ہونا ضروری ہے۔معاملہ وہی کرپشن اور ناانصافی پر مبنی سماجی رویے، طاقتور با اختیار لوگوں کی مداخلت کا ہے ان سب کے ھوتے ھوئے معاشرے میں بہتری کیسے آئیگی۔ سیاست میں بھی مشیات کا استعمال ایسے الزامات بھی سامنے آتے ہیں وفاقی وزیر شہر یار کے بلند و بانگ دعوے اور رزلٹ تا حال کچھ نہیں رانا ثناء اللہ کے کیس سے کیا نتیجہ اخذ کریں؟ کاروائی درست تھی تو سزا کیوں نہیں ہو رہی؟ اگر کیس غلط ہے تو سوچیں ہمیں صرف انسداد منشیات کے شعور کی ضرورت نہیں روایتی کاروائیوں اور نام نہاد سماجی تنظمیوں کی حالت اور فعالیت پر بھی غور کرن ہو گا۔

منشیات کے استعمال کےدیگر اسباب کی طرح نشہ کی ایک وجہ فیشن بھی ہے اسی طرح منشیات کے خلاف بات کرنا بھی فیشن بن چکا ہے۔ آخری بات، تجویز سے آگے شعور اور پھر موثر کاروائی انسداد منشیات کے لیے ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :