نان ایشو اور پوائنٹ سکورنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات 6 اگست 2020

Shafqat Rasheed

شفقت رشید

جس طرح کسی مسافر کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے زاد راہ یعنی کرایہ،راستے کا کھانا ،پانی اور اسباب رافع حاجت کی ضرورت ہوتی ہے بلکل اسی طرح کسی تحریک ،جماعت یا قوم کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کچھ ضروری اور غیر ضروری اقدامات ہمہ وقت اور برمحل کرنے پڑتے  ہیں تاکہ مسافر اپنی منزل تک پہنچ سکے۔۔۔
لیکن جب بھی آپ اپنے مقصد کو چھوڑ کر اپنے زاد راہ یا یوں کہہ لیں کہ اگر مقاصدکو چھوڑ کر ضروریات پر وقتی پوائنٹ سکورنگ کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ اپنی منزل اور مقصد سے بھٹک جائیں گے۔

۔۔۔۔۔
5اگست 2019 تحریک آزادی کشمیر یا کشمیر کاز کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔۔۔
اگرچیکہ گزشتہ ستر سال کشمیر نہ صرف کشمیریوں کے لیے مسئلہ ہے بلکہ ایشیائی خطے کا مسلہ ہے۔

(جاری ہے)

۔۔
کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف انڈیا نے جمعوں وکشمیر کو اپنے تسلط میں بزور بازو رکھا ہوا تھا لیکن باوجود اس کے یہ خطہ متنازعہ ہونے کی وجہ سے ایک خصوصی حیثیت رکھتا تھا یعنی کوئی بھی دوسرا ملک یہاں مکمل انتظامی اور حکومتی اختیارات کا اطلاق نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی آبادی کے تناسب کو متاثر کرنے کے لیے دیگر علاقوں ،ریاستوں یا صوبوں کے شہریوں کو یہاں زمین وجائیداد خریدنے اور سکونت اختیار کر سکتا تھا  لیکن
گزشتہ سال 2019 میں بھارت نے یہ خصوصی حیثیت ختم کر دی ۔

۔اس ایکٹ یعنی 370اور 35اے کے خاتمے کے خلاف وادی کی عوام نے احتجاجی تحریک شروع کی تو کرفیو نافذ کر دیا گیا۔۔۔۔
یہ کرفیو ایک سال سے مسلسل ہے اور قریبا دنیا کا طویل ترین کرفیو کہلانے لگا ہے۔۔۔۔
یہاں تک تو تھا بھارت کا طرز عمل لیکن اس مقدمے کا ایک دوسرا فریق ہے پاکستان جو کشمیری عوام کی وکالت کے طور پر اس مقدمے کو اقوام عالم میں پیش کر رہا ہے۔

۔
اب سوال یہ ہے کہ کہ پاکستان نے اپنے مقدمے کو کس طرح لڑا۔۔۔۔؟؟
وادی میں کرفیو نافذ ہونے کے بعد مختلف مقامات،ممالک اور تنظیموں کے زریعے کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی نے مظاہرے کیے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔۔۔
وادی میں کرفیو کے نفاذ کے تقریباً اڑھائی ماہ بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بھرپور انداز میں مقدمہ کشمیر کو پیش کیا۔

۔۔
لیکن پھر کیا ہوا ہماری سیاسی مصلحتیں و پوائنٹ سکورنگ آڑے آنے لگی اور ہم منزل چھوڑ کر زاد راہ کی فکر میں لگ گئے۔۔۔
 ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان وزارت خارجہ متحرک ہوتی اور مقدمہ کشمیر کو کسی نہج تک لے جایا جاتا مگر ایسا نہ ہو سکا۔
19نومبر 2019 تک اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں قراداد پیش کی جانی تھی جس کے لیے کل47 ممبرممالک میں سے 16 ممبر کی حمایت سے قرارداد جمع ہونی تھی جس پر فوری اور منظم حکمت عملی کی ضرورت تھی لیکن شو مئی قسمت ۔

۔ہم کی جانے والی اچھی تقریر کی پوائنٹ سکورنگ میں لگ گئے اور 19نومبر کی تاریخ گزر گئی اور کچھ نہ کر سکے۔۔۔
اس پر جب میڈیا نے سوال اٹھایا تو معروف کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چوہدری کے پروگرام میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے موقف اختیار کیا کہ قرارداد جمع کرانا ہماری ترجیح تھی ہی نہیں جب ہم ضرورت محسوس کریں گے تو ہیومین رائٹس کونسل میں جائیں گے لیکن یہ وجہ محض وقتی طفل تسلی تھی جو میڈیا کے دباؤ سے بچنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔

۔۔۔
اس کے بعد شاہ صاحب نے دو بیرونی دورے کیے جن کو مسلہ کشمیر کی اجاگری کا نام دیا گیا مگر کوئی ایک ٹکے کا فائدہ نہ ہو سکا۔۔۔۔
اس ساری بد انتظامی کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر صاحب نے اسلام آباد پارلیمنٹرینز کی مشترکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ آپ ہم کو یعنی کشمیری قیادت کو آگے کریں اور آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں تو اقوام عالم میں ہماری بات بہتر طریقے سے سنی اور سمجھی جائے گی۔

۔۔۔
اسکا مطلب یہ تھا کہ وزارت خارجہ کشمیری قیادت کو نمائندگی دے اور غیر ملکی دوروں اور فورمز پر اپنی آواز خود اٹھانے کے لیے ماحول مہیا کرے جو نہ صرف ایک درست بلکے بہت اچھا موقف یا تجویز تھی۔۔۔
اس پر شاہ محمود قریشی صاحب نے یقین دھانی کرائی کہ آئندہ ایسا ہی ہو گا ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔۔۔
مگر اسے بدقسمتی کہیے غفلت یا کچھ اور کے اس کے بعد آٹھ ماہ گزر گئے مگر وزارت خارجہ اور کشمیری قیادت کے درمیان کوئی باضابط اجلاس یا مشاورت تک نہ ہو سکا۔

۔۔
اسکے بعد پھر ایک موقعہ آیا جہاں بھارت کو بات چیت کے کسی بھی فورم پر بیٹھنے کے لیے مجبور کیا جاسکتا تھا وہ وقت تھا جب بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کا امیدوار تھا اور اسے ووٹ درکار تھے پاکستان اور اسکےدیگر دوست ممالک سے لیکن وہاں بھی ہماری غفلت اور سیاسی مفادات ہی دیکھنے کو ملے اور ہم نے وہ موقعہ بھی ضائع کیا اور بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن گیا۔

۔۔۔
میں یہ نہیں کہتا کہ بھارت کو مجبور کر کے مسلہ کشمیر حل کر لیا جاتا لیکن اتنا ضرور ہو سکتا تھا کہ منزل کی طرف روانگی کا راستہ نکالا جا سکتا تھا مگر نہیں۔بلکے جب میڈیا نے یہ سوال اٹھایا تو وزیر خارجہ کاایک انتہائی مضحکہ خیز بیان سامنےآیا کہ بھارت کے مستقل ممبر بننے سے کوئی قیامت نہیں جائے گی۔۔
مگر قریشی صاحب کے اس انداز سے ستر ہزار لاشیں پاکستانی پرچم میں دفنانے والوں پر کیا گزری یہ وہی جانتے ہیں۔

۔۔
 لیکن اس دوران جو پیشِ رفت ہوئی وہ یہ کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے "جا چھوڑ دے میری وادی کو" کے عنوان سے اک نغمہء ریلیز کیا گیا۔۔
اور پاکستانی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کو پاکستان کے نقشے پر مستقل شامل کیا گیا۔۔۔۔
اب ان اقدامات پر شوشل میڈیا پر کیا تبصرے ہو رہے ہیں میں اس بحث کا تزکرہ نہیں کرنا چاہتا مگر اتنا ہے کہ ان اقدامات سے ہم میڈیا پر صرف تحریک کو متحرک رکھ سکتے ہیں ایسے اقدامات سے تحریک آزادی کشمیر کو منتقی انجام تک نہیں لے جا سکتے۔


ان اقدامات کو زاد راہ تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن مقصد نہیں۔۔۔اور جب ہم زاد راہ پر پوائنٹ سکورنگ کرنے کی کوشش کریں گے تو پقینا آزادی کی منزل ہم سے دور ہو جائے گی۔۔
اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی عوام کا کشمیری عوام سے اظہار یک جہتی قابلِ ستائش ہے اور اس سے کئی گنا محبت کشمیری عوام کی پاکستان سے ہے چاہیے کشمیر پاکستان بنے یا نہ بنے۔۔۔
ہاں حکومت کے مقاصد اور تغافل کو عوامی تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔۔۔۔
اب بھی وقت ہے ہمیں زاد راہ سے زیادہ توجہ مقصد منزل کو دینی ہو گی اور وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر صاحب کی بات پر توجہ دینی ہوگی تو ہی کامیابی بھارتی تسلط سے آزادی ممکن ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :