انقلاب کے سنہرے دن

جمعرات 11 جون 2020

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

 دو برس پہلے تک کتنے سنہرے دن تھے۔ ہالینڈ کا وزیر اعظم سائیکل پر سواری کرتا تھا، اٹلی کا وزیر اعظم ٹیکسی پر دفتر آتا تھا، برطانیہ کا وزیر اعظم الزام لگنے پر استعفیٰ دے دیتا تھا، جنوبی کوریا میں کشتی کے حادثے پر وزیر استعفیٰ دے دیتا تھا، جاپان میں ریل حادثے پر ریلوے کا وزیرخود کشی کر لیتا تھا، چین میں بی آر ٹی میں کرپشن کرنے پر وزیروں کو پھانسی دے دی جاتی تھی،سنگاپور میں چینی چور مشیر کی ساری جائیداد ضبط کر کے عمر قید دے دی جاتی تھی، ملائیشیا میں آٹا چور وزیر کو الٹا لٹکادیا جاتا تھا، ایران میں دوائی چور وزیر کو کوڑے مارے جاتے تھے، دریائے فرات کے کنارے مرنے والے کتے کا ذمہ دار بھی حکمران وقت ہوتا تھا، ریاست میں مرنے والے ایک بھی بے گناہ انسان کے قتل کا ذمہ دار وزیر اعظم ہوتا تھا، یورپ میں کوئی حکمران پروٹوکول نہیں لیتا تھا، سارے ترقی یافتہ ملکوں میں دس بارہ وزیروں پر مشتمل مختصر کابینہ ہوتی تھی، چیئرمین ماوٴ اور کمال ما اتاترک ساری دنیا میں مارے مارے نہیں پھرا کرتے تھے بلکہ ملک میں رہ کر ملک کی تعمیر کرتے تھے، قرضے لینا حرام اور خودکشی کرنے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

دنیا کتنی سادہ تھی۔ پھر 2018 میں اسلام کے جنوبی ایشیائی قلعے میں ایک تاریخی انقلاب نے جنم لیا اور اس انقلاب نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔اس انقلاب کی پہلی خاص بات پچپن روپے کلومیٹر والے ہیلی کاپٹر کی ایجاد تھی۔ یہ ایجاد ایک کافی بڑے منہ والے سیاستدان نے ایک ٹی وی چینل کی لیبارٹری میں بیٹھ کر کی ۔ اس انقلاب کی دوسری خاص بات قرضوں کے بجائے پیکج لینا تھا مثلاً آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا پیکج ، ایشیائی ترقیاتی بینک سے دو ارب ڈالر کا پیکج، چین سے تین ارب ڈالر کا پیکج۔

بائیس مہینوں میں اب تک پندرہ ارب ڈالر کے بیرونی پیکج چڑھائے گئے ہیں یوں کل ملا کر ریاست مدینہ الجدید کے ہر شہری پر دو لاکھ روپے کا پیکج چڑھ چکا ہے۔ انقلاب کی تیسری خاص بات غریب حاجیوں کو دی گئی سب سڈی کا خاتمہ تھا۔ سب سڈی سے کافی بچت ہوئی ہوگی اسی لئے سترہ ارب روپے کی لاگت سے کرتار پور میں عالی شان گوردوارہ تعمیر کیا گیا۔ یقینا حاجیوں کو دی گئی سب سڈی سے کافی بچت ہوئی اسی لئے چینی کے غریب ترین تاجروں کو چند ارب روپے کی سب سڈی دے کر ثواب دارین بھی حاصل کیا گیا۔

اب اسلام کے قلعے میں ہر حاجی کو دو لاکھ روپے اضافی دے کر حج کی سعادت حاصل کرنی ہوتی ہے۔
اس انقلاب نے فوری طور پر ایک انقلابی کام یہ کیا کہ کینسر، ہیپا ٹائٹس اور گردے کے مریضوں کو ملنے والی مفت دواوٴں اور ڈائیلسس کی عیاشی ختم کی۔ انصاف پر مبنی حکومت میں ایسی عیاشی کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ امتیازی سلوک نہیں ہوسکتا کہ کھانسی اور بخار کے مریضوں کو تو دوائی مفت نہ ملے اور کینسر، ہیپا ٹائٹس اور گردوں کے مریض ایسی عیاشی کریں۔

جب عوامی چندے سے بنے ہوئے بڑے کینسر ہسپتال میں دوائی مفت نہیں ملتی تو کسی اور جگہ اس ظلم کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ غریب اسلامی جمہوریہ میں آئے انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ عوام کا معیار زندگی مغربی یورپ اور اسکینڈے نیویا کے عوام کے برابر لانے کی حقیقی اور زبردست کاوش ہے۔ اس پروجیکٹ کے کلیدی مرحلے کے طور پر عام استعمال کی اشیاء آٹا، چینی، گھی، خوردنی تیل، چائے کی پتی، دالوں، چاول، یوٹیلیٹیز بجلی، گیس، پانی اور دواوٴں کی قیمتیں مغربی یورپ کی قیمتوں کے تقریباً برابر کردی گئی ہیں اور آئندہ چند مہینوں میں قیمتیں مزید بڑھا کر اسلامی جمہوریہ کے عوام کا معیار یورپی عوام کے برابر بلکہ ان سے بھی بلند کردیا جائے گا۔

کم آمدنی والے غریبوں لئے انقلابی رہائشی منصوبے بنائے گئے ہیں۔ ان منصوبوں کے تحت بھکر اور لیّہ جیسے مہنگے ترین شہروں میں غریبوں کو محض بیالیس لاکھ کی حقیر قیمت میں مکان بنا کر دیئے جائیں گے۔
انقلابی حکومت مڈل کلاس کو بھی نہیں بھولی۔ مڈل کلاس کا بھی معیار زندگی بتدریج بلند کیا جارہا ہے۔ کاروں کی قیمتوں کو ہی لے لیں، ازلی دشمن بھارت کو تو دہائیوں پیچھے چھوڑ ا جا چکا ہے۔

جو سوزوکی کار بھارت میں چار لاکھ کی ملتی ہے وہی کار اقبال کے شاہینوں کو بارہ لاکھ کی پڑتی ہے اور جو کرولا بھارت میں نو لاکھ کی ہے وہی دنیا کی دوسری ذہین ترین قوم کے دیس میں پچیس لاکھ کی ہے۔ انقلابی حکومت بتدریج قیمتوں کو یورپی ممالک کے برابر لارہی ہے۔
کورونا کے معاملے سے بھی تاریخی طور پر نمٹا جارہا ہے۔ عوام دوست انقلابی حکومت نے نہ ڈاکٹروں کی سنی ، نہ وبائی ماہرین کی سنی ، نہ اپوزیشن کی سنی وہی کیا جو ایسی تاریخی حکومتیں کیا کرتی ہیں۔

حکومت نے بڑی جانفشانی سے کام کیا اور کئی چنیدہ وزیروں اور افسروں کو این 95 ماسک دیئے۔ بغیر ماسک اور مناسب پی پی ای کے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کرتے ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کو سیلوٹ اور سلامی بھی پیش کی ۔ حکومت نے بڑی کامیابی سے اشرافیہ کا لاک ڈاوٴن بھی ناکام بنایا۔ حکومت کے وزیر اعظم نے پندرہ تقریریں بھی فرمائیں۔ دنیا کے کسی ملک میں حکومت نے ایسے زبردست طریقے سے کورونا کو نہیں روکا۔

آج امریکہ، برطانیہ، اٹلی سب ممالک، حکومت کے وزیر اعظم سے سیکھنا چاہ رہے ہیں۔
تاریخی انقلاب کا کمال ہے کہ انقلاب کے سنہرے دنوں میں اب نہ ہالینڈ کا وزیر اعظم سائیکل پر سواری کرتا ہے نہ اٹلی کا وزیر اعظم ٹیکسی پر دفتر آتا ہے نہ برطانیہ کا وزیر اعظم الزام لگنے پر استعفیٰ دیتا ہے نہ جنوبی کوریا میں کشتی کے حادثے پر وزیر استعفیٰ دیتا ہے، نہ جاپان میں ریل حادثے پر ریلوے کا وزیرخود کشی کرتا ہے اور نہ ہی چین میں بی آر ٹی میں کرپشن کرنے پر وزیروں کو پھانسی دی جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :