جمہوری نقطہ نظر

پیر 11 مئی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

کجھ باتوں کو بیان کرنا مشکل تو ہوتا ہے لیکن ایسے حقائق کو سامنے لانا وقت کی ضرورت بھی ہے۔ ایسے تلخ حقائق ہمارے معاشروں میں بہت سے طاقتور حلقے پسند نہیں کرتے لیکن وہ چمکتے سورج کی طرح عیاں ضرور ہوتے ہیں۔پاکستان کا معاشرتی سیاسی نظام اِس وقت دو حصوں میں تقسیم ہے ایک وہ جو جمہوری نظام کا حمایتی ہے اور دوسرے وہ لوگ جو آمریت کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور آمریت کو ہی پاکستان کی ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں۔


اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے حمایتی آمریت پسندوں سے کہیں زیادہ ہیں میری یہاں آمریت پسندوں سے مراد ڈکٹیٹرز کا حمایتی ٹولہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ عسکری قیادت کا سیاست میں آنا اور سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا اُس کا حق ہے اور یہ ضروری ہے۔
پاکستانی عوام کی بدقسمتی کا تو یہ عالم ہے کہ کبھی تاریخ کو ٹھیک پڑھایا ہی نہیں گیا۔

(جاری ہے)

جو ہم مطالعہ پاکستان میں پڑھتے آ رہے ہیں ہماری نظر میں وہی حقیقت ہے جبکہ ایسا بلکل بھی نہیں کیونکہ اگر ہم تاریخ دانوں اور مختلف مفکرین کی کتابوں کو پڑھیں تو ہمیں سچ اور باطل میں فرق کا اندازہ ہو سکے گا کہ پاکستان میں جمہوریت پر کس طرح شب خون مارا گیا اور طاقت کے بل بوتے پر آمریت کو پروان چڑھانے اور اپنی باتوں کو منوانے کے لئے گھناؤنے کھیل کھیلے گئے۔

کس طرح عوام کے ووٹوں سے منتخب وزرائے اعظم کو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات میں پھانسی پر لٹکایا گیا اور جیل بھیجا گیا۔اِس ساری صورتحال میں چند لکھاریوں اور میڈیا نمائندوں کو بطور ڈھال استعمال کیا گیااور اپنے بیانیے کو وسعت دی گئی۔
پاکستان کا آئین ہی پاکستان کی پہچان ہے یہ وہ راستہ ہے جس کے مطابق پاکستان کے نظام کو چلنا ہے چاہے پاکستان کا کوئی بھی ادارہ ہو یا شہری ہو یہ آئین ہی اُس کی بقا کا ضامن ہے۔

۔اور اِس کی حفاظت پاکستان کے اداروں کا حق ہے لیکن بدقسمتی سے کئی بار پاکستان کے آئین کو معطل کیا گیا مارشل لاء نافذ کیا گیا۔اِس آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھ کر پھینکا گیا،حق کی آواز کو دبایا گیا۔جمہور کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔جمہوری لیڈران کو غدار، کرپٹ اور طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا اُن پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔یہ باتیں تلخ حقائق ضرور ہیں لیکن پاکستان کا مارشل لائی طبقہ اِن حقائق کو ماننے سے انکاری ہے۔

ہمارے آئین نے ہر ادارے کی حدود مقرر کی ہیں اور اِن حدود سے تجاوز کرنا آئین سے غداری ہے سب سے بڑھ کر پاکستان سے غداری ہے۔لیکن جمہوریت پسندوں کی طرف سے ہمیشہ شکوے شکایات رہی ہیں کہ عسکری قیادت سیاست میں عمل دخل کرتی آئی ہے اور ایسی صورتحال سے اُسے باز رہنا چاہئے کیونکہ سیاست کرنا پارلیمنٹ تک محدود ہے پاکستان کی کروڑوں عوام کے منتخب نمائندے اپنی عوام کے لیے ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

یہ پاکستان کی عوام فیصلہ کرے گی کہ پاکستان کا وزیراعظم کس کو ہونا چاہئے اور کون آئے گا لیکن ایسا نہیں ہوتا یہاں مرضی کے فیصلے مسلط کئے جاتے ہیں۔جو پاکستان کے آئین کے ساتھ سنگین غداری ہے۔
حال ہی میں شہبازشریف صاحب نے ملک کے مایہ ناز کالم نگار سہیل وڑائچ کو ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے اِس بات کے اشارے دیئے کہ کس طرح وزراء اعظم کو سلیکٹ کیا جاتا ہے اُس کی کابینہ منتخب کرنے تک کے فیصلے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ہی کئے جاتے ہیں.اس انٹرویو کی وضاحت سہیل صاحب اور شہبازشریف بعد میں کر چکے ہیں لیکن اِس کا خلاصہ یہی ہے جو بیان کیا گیا ہے۔

چاہے اب اِن باتوں کی تردید یا وضاحت کرتے پھریں لیکن کچھ ایسے حقائق بھی ہوتے ہیں جو چھپانے سے بھی نہیں چھپ سکتے اور طلوع ہوتے سورج کی طرح واضح ہو ہی جاتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کس کو کب اور کس بنیاد پر سیلیکٹ کیا جاتا ہے۔اگر اِس وضاحت میں پڑ گیا تو شاید بات لمبی ہو جائے گی۔ ماضی میں اسی طرح کی باتیں موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے کئی انٹرویوز میں کہ چکے ہیں کہ اسٹبلیشمنٹ سیاست میں کس طریقے سے دخل اندازی کرتی آئی ہے اور من پسند کے وزرائے اعظم کو ہی سامنے لایا جاتا ہے جو اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔

اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایسا ہو۔
یہ تو سچ ہے کہ جمہوری نظام میں عوام کی رائے دیکھی جاتی ہے جو عوام چاہے گی وہی ہو گا لیکن پاکستان میں عسکری ادارے ہمیشہ سے ایسی آوازیں دباتے آ رہے ہیں جو اپنے حقوق کے لئے پُرامن جدوجہد سے آواز بلند کریں، حال ہی میں پی ٹی ایم اس کی واضح مثال ہے اور ماضی میں جو کچھ بنگالیوں کے ساتھ ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

میں پی ٹی ایم کا بلکل بھی حمایتی نہیں لیکن میرا جمہوریت پر اتنا ایمان ضرور ہے کہ ہمیں سخت پالیسیوں پر عمل کرنے کی بجائے امن کا راستہ نکالنا چاہیے تاکہ پاکستان کی ساکھ اور سالمیت کو کوئی آنچ نہ آئے۔پاکستان کی افواج پاکستان کی سلامتی کی ضامن ہیں، پاکستان کی سرحدوں کی محافظ ہیں، افواجِ پاکستان کا ہر سپاہی مملکتِ خداداد کی بقاء کا ضامن ہے۔

افواجِ پاکستان کو یہ حق حاصل ہے اور تاریخ بھی گواہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاک فوج صفِ اول رہی جس کو ہمیشہ سراہا جاتا رہا لیکن اِس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایک ادارہ کسی دوسرے ادارے کے فیصلوں میں دخل اندازی کرے اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار چند من پسند لوگوں کے حوالے کرے۔ایسا کرنا اُس ادارے کی کریڈیبلٹی پر ہمیشہ سوالیہ نشان اُٹھاتا ہے اور اُس کی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔اور ایسا ہوا بھی ہے۔اِس حوالے سے جمہوریت پسندوں کا نقطہء نظر ہمیشہ سے ہاوی رہا ہے۔۔
پاکستان زندہ باد 
جمہوریت پائندہ باد 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :