"حکومت کی غیر سنجیدگی"

جمعرات 14 مئی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

کافی عرصے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں اپوزیشن کی طرف سے حسبِ روایت حکومتوں پالیسیوں کو نشانہ بنایا گیا ۔
قومی اسمبلی کا یہ اجلاس کرونا کی صورتحال کے مدِنظر حکومت کی پالیسیوں پر وضاحت طلب کرنے کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا تاکہ اراکینِ اسمبلی کرونا کی صورتحال پر اظہارِ خیال کر سکیں ۔اجلاس کے پہلے دن بہت سے اراکینِ اسمبلی نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر تقاریر کیں لیکن بہت کم اراکین اسمبلی نے یہ سیشن اٹینڈ کیا۔

کافی حکومتی اراکین کی سیٹیں خالی دیکھنے کو ملیں جو حکومت کی غیر سنجیدگی کا عملی ثبوت تھا۔ میں نے تقریباً یہ سیشن مکمل سنا ۔مجھے سب سے بہترین تقریر اپوزیشن رہنما شاہد خاقان عباسی صاحب کی لگی جس میں انھوں نے حکومتی پالیسیوں اور سست اقدامات پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔

(جاری ہے)


اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم صاحب بتائیں کہ کرونا کے حوالے سے اُن کی واضح پالیسی کیا ہے اپنی پالیسی کو واضح کیا جائے ۔

آپ نے پاکستان میں تو لاک ڈاؤن تقریباً ختم کر دیا لیکن آپ کی رہائش گاہ بنی گالا میں اب بھی کرفیو نافذ ہے ۔
قوم کو بتایا جائے کہ اِس وقت کرونا پر بہتر اقدامات کرنا ضروری ہے یا اٹھارویں ترمیم میں چھیڑ خانی کرنا ۔‏حکومت کے نزدیک کرونا وائرس کی سب سے بڑی وجہ 18ویں ترمیم کا وائرس ہے، شاید حکومت سمجھتی ہے کہ 18 ویں ترمیم ختم کرنے سے کورونا وائرس ختم ہو جائے گا اِس حوالے سے شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ بتایا جائے کہ ملک چلا کون رہا ہے ؟۔

کیونکہ وزیراعظم صاحب کو اندازہ ہی نہیں کب کیا کرنا ہے۔
اِس بات میں رتی برابر شک نہیں کہ حکومت کرونا کے حوالے سے کتنی غیر سنجیدہ نظر آ رہی ہے ۔وزیرِ اعظم صاحب کے روزانہ کی بنیاد پر بیانات بدلتے ہیں ۔حکومت کی سنجیدگی کا عالم تو یہ ہے کہ ملک میں اُس وقت لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا جب کرونا کی صورتحال واضح ہو چکی تھی کہ بڑی تیزی سے کرونا بڑھ رہا ہے اور ہزاروں مریضوں کا چند روز میں ہی اضافہ ہو چکا ہے تو ان حالات میں لاک ڈاؤن مکمل ختم یا انتہائی نرم کر دینا بےوقوفی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ کل کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ایک ہی دن میں 2225 کیسز رپورٹ ہوئے جو کہ روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔

اور اموات میں بھی دن بدن اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ابھی تو لاک ڈاؤن میں نرمی کو یا تقریباً مکمل ختم ہونے کو تین دن ہی گزرے ہیں اور یہ صورتحال واضح ہے۔ جو خطرے کی گھنٹی ہے۔
اِن حالات میں حکومت کی لاپرواہی سے سنگین نتائج بھی بھگتنے پڑ سکتے ہیں ۔
ایک طرف حکومت کو اپنی لاپروائیوں کی بدولت اپوزیشن کی طرف سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے تو دوسری طرف حکومتی اراکین مسلسل غیر سنجیدہ بیان بازی میں مصروف ہیں ۔

اپوزیشن کے حلقے مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کرونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات انتہائی سست روی کا شکار ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ حالات کی جانچ پڑتال کرنے اور متوازن رکھنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔ حالات کی سنگینی سے فائدہ اٰٹھا کر کبھی کابینہ میں ردوبدل کر دیا جاتا ہے تو کبھی حالات کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزارتِ دفاع تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے کے لئے وزیراعظم کو خط لکھ دیتا ہے ۔

تو کبھی نیب نیازی گٹھ جوڑ سے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی گرفتاری کے لئے سر توڑ کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں ۔وزیرِ ریلوے شیخ رشید صاحب مسلسل فرما رہے ہیں کہ عید کے بعد نیب کی کاروائیوں میں تیزی آئے گی اور شہبازشریف اور کچھ دیگر لیگی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا جائے گا ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ رشید صاحب کو ایسی خبریں کن ذرائع سے پتا چلتی ہیں یا وہ ایسی خبروں کا کیوں دعویٰ کرتے ہیں ۔

اِس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرونا جیسی وبائی مرض کا مل کر مقابلہ کرنے کی بجائے حکومت اب بھی انتقامی کارروائیوں کے لئے جدوجہد میں مصروفِ عمل ہے اور شیخ رشید صاحب بجائے ریلوے کے حوالے سے قوم کو بتانے کے علمِ نجوم کا کردار نبھا رہے ہیں ۔
حکومتی اداروں اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کو اپنی تمام تر توجہ کرونا کی روک تھام کے لئے بہتراقدامات کرنے پر ہی مرکوز کرنی چاہیے اور کم از کم ایک صفحے پر لکھ کر کرونا کے حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل بھی پیش کر دینا چاہئے تاکہ روز کی بیان بازیوں میں ردوبدل سے قوم پریشان نہ ہو۔جس کا اظہار شاہد خاقان عباسی نے آج قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں بھی کیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :