"جھنگ کسی مسیحا کا منتظر"

ہفتہ 25 جولائی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

جھنگ کا شمار پنجاب کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔یہ سرزمین کئی بادشاہوں اور حملہ آوروں کا مسکن رہی جس کے آثار جھنگ شہر کے کئی علاقوں میں آج بھی موجود ہیں۔کسی زمانے میں جھنگ کی سرحدیں ایک طرف ملتان اور دوسری جانب گوجرانوالہ کے ساتھ ملتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جھنگ سکڑتا رہا اور آج یہ موجودہ جھنگ کی شکل میں تاریخ میں زندہ ہے۔

جھنگ سے جنم لینے والے علاقے آج ڈویژنز بن چکے ہیں اور جھنگ کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی ضلع ہے۔ دو دریاؤں کی سرزمین جھنگ نے کئی روشن ستارے بھی پیدا کیے، پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق بھی ضلع جھنگ سے ہی تھا ۔دنیا بھر میں مشہور رومانوی داستان ہیر رانجھا کا تعلق بھی جھنگ سے ہی ہے ۔

(جاری ہے)

اِس رومانوی داستان کے کردار ہیر رانجھا کا مزار بھی جھنگ ہی میں واقع ہے۔

یعنی تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے جھنگ اپنی مثال آپ ہے۔
ایک تاریخی شہر ہونے کی حیثیت سے آخر جھنگ شہر پنجاب کے باقی قدیم شہروں سے اتنا پیچھے کیوں ہے۔یہ سوال جھنگ کے ہر باشعور شہری کے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے ۔جب وہ دیکھتے ہیں کہ انھیں اعلی تعلیم کے لئے جھنگ سے ہی وجود میں آنے والے اضلاع یا ڈویژنز کی جانب دیکھنا پڑتا ہے ۔ایسے سوال ضرور گردش کرتے ہیں جب کئی سال گزرنے کے باوجود جھنگ شہر کی اہم شاہرات آج بھی ہائی ویز سے محروم ہیں ۔

جھنگ شہر آج تک کسی یونیورسٹی یا میڈیکل کالج سے محروم رہا ہے ۔یونیورسٹی کے حوالے سے حقیقت تو یہ ہے کہ اِس کی منظوری کے بعد یہ مسلسل تنازعات کی زد میں رہی ہے اور منظوری کے کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی یونیورسٹی کی عمارت بننے پر کام شروع نہیں کیا جا سکا۔کبھی کہا جاتا ہے کہ اِس کی جگہ تبدیل کی جائے اور کسی دوسری جگہ پر یونیورسٹی کی منتقلی کی جائے ۔

اِس حوالے سے معاملات ابھی تک طے نہیں کیے جا سکے۔اِن معاملات کے طے ہونے کے بعد ہی یونیورسٹی پر کام شروع کیا جا سکے گا۔ جھنگ کی اہم شاہرات بارش کے دنوں میں کسی دریا کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں۔سیوریج کا نظام ناقص ہے جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں ۔جا بجا گندگی کے ڈھیر پڑے ہیں جس سے تعفن پھیل رہا ہے ۔عوام کی تفریح کے لئےکوئی تفریحی پارک نہیں بنایا جا سکا جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ جھنگ میں سیاحوں کے لئے گھومنے کی بہترین جگہ موجود ہے تاکہ کسی تہوار پر وہ اپنا دن یہاں گزار سکیں ۔

جھنگ کے لاری اڈے کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔کچھ عرصہ قبل ہی علاقے کے موجودہ ایم پی اے صاحب نے جھنگ شہر سے تقریباً تمام ٹرانسپورٹ کو جھنگ کے لاری اڈے منتقل کیا تاکہ جھنگ شہر میں ٹریفک کا رش کم کیا جا سکے۔یہ عمل تو ہو گیا کہ ٹریفک کا رش قدرے کم ہوا لیکن اِس سے پہلے لاری اڈے کی حالتِ کو ٹھیک کر لیا جاتا تو یہ زیادہ بہتر تھا لیکن دو سال گزرنے کے باوجود لاری اڈہ آج بھی کسی گاؤں کے کیچڑ میدان جیسا منظر پیش کر رہا ہے اور مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے خاص طور پر جب بارش آتی ہے تو لاری اڈہ کسی گندے تالاب کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ  جھنگ کا ہر کونہ کونہ اپنی دکھی داستان پیش کر رہا ہے ۔اِس صورتحال کو پیدا کرنے میں جتنا قصور یہاں کے سیاستدانوں کا ہے عوام بھی اِس قصور میں برابر کی شریک ہے کیونکہ یہ سیاستدان ہم ہی سے ووٹ لے کر ہم پر مسلط رہے ہیں ۔ہم نے ہی انہیں بار بار ووٹ دیے ۔ہم آجتک فرقہ واریت اور برادری ازم سے باہر نہیں نکل سکے۔ہم آج بھی شعیہ، سنی، دیوبندی، بریلوی مکتب فکر کو دیکھ کر ہی ووٹ کرتے ہیں اور یہ سلسلہ جھنگ میں پچھلی کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے ۔

زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں الیکشن 2018 کی بات کرتے ہیں ۔
جھنگ کا شہری حلقہ کئی دہائیوں سے دو سیاسی پارٹیوں کی اماج گاہ بنا رہا اور انھوں نے جھنگ کو اس نیج پر پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔2018 کے الیکشن میں  باقی پنجاب کی طرح جھنگ کی حلقہ بندیوں میں بھی تبدیلی آئی اور جھنگ کا شہری حلقہ بھی تبدیل ہوا ۔اِس حلقے میں وہ علاقے بھی شامل ہوئے جن پر غلام بی بی بھروانہ کئی سالوں سے راج کر رہی تھی ۔

2018 کے الیکشن میں قسمت پھر مہربان ہوئی اور بی بی بھروانہ دوبارہ ممبر آف اسمبلی بننے میں کامیاب ہوئی۔اِس دفعہ بھی ہمیشہ کی طرح بی بی بھروانہ نے اپنا مذہبی کارڈ استعمال کیا اور پیروں، فقیروں کے سہارے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی۔یعنی وہ عورت جو پچھلے کئی سالوں سے مسلسل قومی اسمبلی کی رُکن منتخب ہو رہی تھی ہم نے ایک دفعہ پھر انہیں ہی اپنی قسمت بدل وانے کا موقع دیا۔

قسمت بدلے یا نہ بدلے یہ ضرور ہوا کہ بی بی بھروانہ کی جیت کے بعد جھنگ شہر میں دو پارٹیوں کی حکمرانی کا سورج غروب ہو گیا۔
عوام نے شائد باقی پاکستان کی طرح تبدیلی کا سوچ کر ووٹ کیا لیکن باقی پاکستان کی طرح جھنگ میں بھی تبدیلی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے ۔وہی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، سیوریج کا ناقص نظام اور ترقیاتی منصوبوں کی قلت جھنگ کے باسیوں کا مقدر ٹھہری ۔


بات یہیں ختم نہیں ہوتی اگر ہم ماضی کے ورق اُٹھا کردیکھیں تو 1965 کے انتخابات میں پنجاب میں جھنگ وہ واحد ضلع تھا جہاں سے محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن جیتا اور جھنگ کی عوام نے حق کا ساتھ دیا لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے باسیوں کی بھی سوچ تبدیل ہوئی اور نہ ہی جھنگ کو وہ لیڈر ملا جو ووٹ لینے کے باوجود جھنگ کا سوچ سکے۔ ۔
اقتدار کا لالچ اور پیسے کا نشہ جھنگ کی ترقی میں رُکاوٹ بنا رہا ۔

اب بھی جھنگ کی تاریک اور تنگ گلیاں اِس بات کی گواہ ہیں کہ یہ دھرتی کسی مسیحا کی منتظر ہے جو اِس شہر کی قسمت بدل سکے کیونکہ اِس شہر میں بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جو پسماندگی کا بدترین منظر پیش کر رہے ہیں ۔
میری اربابِ اختیار سے یہ التجا ہے کہ اگلی بار الیکشن میں ووٹ لینے کے لئے عوام میں آنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا کہ ہم نے اپنے وعدے کہاں تک وفا کئے ورنہ تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :