ٹرمپ،مودی ،عمران

اتوار 8 نومبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

دنیا بدل رہی ہے یہ وہ فقرہ ہے جس نے اپنے اندر ناجانے کتنی داستانوں کو سمویا ہوا ہے ۔ پچھلے چند سالوں میں دنیا میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس نے دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں دنیا میں پاپولرازم کی تھیوری اپنے جوبن پر رہی جس کی لپیٹ میں بہت سے ممالک آئے اِس لہر کا آغاز سب سے پہلے ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا سے ہوا جس میں نریندرمودی انڈیا کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے ۔

پھر امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوئے اور شہرت کی بلندیوں کو چھوتے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے،2018 میں پاکستان میں عام انتخابات ہوئے اور عمران خان نے میدان مار لیا۔ اِن سب کی سوچ اور سیاست کرنے کا انداز باقیوں سے مختلف رہا ہے ۔امریکہ کے صدر ٹرمپ ہوں یا انڈیا کے نریندرمودی یا پھر پاکستان کے عمران خان، تینوں نے باقیوں سے ہٹ کر سیاست کی اور اِن کی پالیسیوں کی وجہ سے اِن ملکوں کی سیاست کافی تبدیل ہوئی ہے ۔

(جاری ہے)

یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک امریکہ کے سامنے سرنگوں ہیں اور اِن ممالک کی سیاست میں امریکہ کا کلیدی کردار رہتا ہے ۔امریکہ صدور کا بننا اور وہاں نئی جمہوری حکومت کا آنا دنیا کے بہت سے ممالک کے سیاسی اور سماجی نظاموں کے مستقبل کے لئے نہایت ہی اہم ہوتا ہے ، دنیا کے بہت سے ممالک کی اندرونی سیاست میں امریکہ ہمیشہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتا رہا ہے ۔

چاہے کوئی بھی صدر آئے ،اِن ممالک کے لیے وہ کوئی نیا بیانیہ لے کر تو نہیں آتا لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ امریکی صدور کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔صدر ٹرمپ نے "میک امریکہ گریٹ آگین" کا نعرہ لگایا۔یہ نعرہ امریکی عوام میں کافی مقبول ہوا جس بنا پر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بننے میں کامیاب ہوئے ۔اُن کی پالیسی میں یہ بات بھی نمایاں رہی کہ امریکہ کسی بھی ملک پر ٹھوس وجوہات کے بنا حملہ نہیں کرے گا۔

امریکی عوام کی ترجیحات کا بھرپور دفاع کیا جائے گا ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دورِ حکومت میں کچھ باتوں کو خاص طور پر مدِنظر رکھا لیکن بہت سی باتیں ایسی بھی تھیں جو اُن کی مقبولیت کو مسلسل کم کرتی رہیں وہ اپنے دورِ اقتدار میں بہت سے نعروں اور دعووں کے برعکس ہی چلتے رہے اور مسلسل غیر سنجیدگی کا عملی مظاہرہ کرتے رہے، آج امریکہ کے نئے انتخابات کے نتائج بھی آ چکے ہیں جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔

اِس کی سب سے بڑی وجہ کرونا صورتحال پر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں تو ہیں ہی اِس کے علاوہ ٹرمپ کی بہت سے معاملات پر غیر سنجیدگی اور خاص طور پر مسلم ممالک کے ساتھ خارجہ محاز پر ناکامیاں بھی شامل ہیں، جن کی بنا پر وہ جو بائڈن سے الیکشن ہار چکے ہیں۔ ٹرمپ امریکی عوام میں اپنی پزیرائی برقرار نہیں رکھ سکے اور آج اُن کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اگر بات نریندرمودی کی کی جائے تو مودی جی بھی انڈین سیاست میں ایک نئی روایت کو سامنے لائے ہیں ۔اِدھر ہندوتوا کی بات ہو رہی ہے، ہندوستان ہندوؤں کا ہے، باقیوں کا جینا محال کر رکھا ہے لیکن ٹرمپ کے ہوتے ہوئے امریکہ میں ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ وہاں امریکیوں کو ایک ہی ترازو میں تولا گیا لیکن انڈیا میں ہندو ازم کو فوقیت دی گئی، مودی جی نے ہندو ازم کو پروموٹ کرنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کیں ۔

ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کی آمد عوام اور علمی حلقوں دونوں میں ایک مباحثہ کا موضوع بنی رہتی ہے۔ کیونکہ جس طرح نریندرمودی نے صرف ہندو نیشنلزم کے لئے کام کیا ہے شاہد ہی انڈیا کے کسی وزیراعظم نے اِس حوالے سے کام کیا ہو۔ لیکن مودی کی بہت سی پالیسیاں اُس کی مقبولیت کو داغدار کر رہی ہیں اور پچھلے کچھ عرصہ سے مودی کی مقبولیت میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔

اِس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ مودی جی اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی اور اٹل بہاری واجپئی کی طرح ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے مشہور رہنما رہے ہیں۔لیکن مودی اِس سلسلے کو برقرار نہیں رکھ پائے اور مسلسل اپنی مقبولیت کو کم کر رہے ہیں اور اِس کے اثرات انڈیا کے آنے والے الیکشنز پر ضرور پڑیں گے کیونکہ جب عوام کی ترجیحات کچھ اور ہوں اور حکمران اُس سے ہٹ کر اپنے فائدے کے لئے کچھ اور کر رہے ہوں تو ناکامیاں مقدر ٹھہرتی ہیں ۔

ٹرمپ کی ناکامی کے بعد نریندرمودی کے لیے بھی ضرور سوچنے کا مقام ہے کہ جس راستے پر وہ لگے ہیں اِس سے وقتی طور پر اُن کو سیاسی فائدہ تو مل سکتا ہے وہ دوسری بار وزیراعظم بھی منتخب ہو گئے لیکن اُن کے سیاسی مستقبل کے لئے یہ قطعاً موضوع نہیں ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کو ایک لمبے عرصے تک برقرار رکھ سکیں۔دوسری طرف ٹرمپ کی طرح نریندرمودی کی کرونا کو لے کر پالیسیاں زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوئیٰں جس کا نقصان انڈین عوام اور انڈیا کی معیشت کو ضرور اُٹھانا پڑ رہا ہے اور انڈیا اُن ممالک میں شامل ہے جہاں کرونا سے کافی نقصان ہوا ہے ۔

ٹرمپ اور مودی کی طرح پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی پالیسیوں میں کوئی خاص واضح فرق نہیں پایا جاتا، الیکشن سے پہلے عمران خان کی مقبولیت کا گراف بہت بلند رہا ہے جو بتدریج کم ہو رہا ہے ۔ خان صاحب نے نیے پاکستان کا نعرہ لگایا جس میں بلاتفریق کرپٹ عناصر کا احتساب کرنا سرفہرست تھا لیکن اب حقیقت اِس کے برعکس ہے کیونکہ احتساب کا نعرہ جس طرح فلاپ ہو چکا ہے اِس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

اِدھر بھی عوامی توقعات کو ٹھیس پہنچی ہے اور پاکستان کی عوام بھی عمران خان سے ناخوش نظر آتی ہے ۔
ابھی عمران خان صاحب کے اڑھائی سال رہتے ہیں ۔اگر یہی کارکردگی برقرار رہی تو ڈونلڈ ٹرمپ کی واضح مثال موجود ہے کہ کس طرح وہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے کے بعد زمین پر آ گرے اور اُن کی جگہ جو بائیڈن نے لے لی۔
عمران خان، ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرمودی میں کچھ باتیں مشترک پائی جاتی ہیں کہ کس طرح اِن حکمرانوں نے قوم کو اپنے اقتدار میں توسیع دینے کے لیے پہلے تقسیم کیا، نفرت کی بنیاد رکھی اورقوم سےجھوٹ بھی بولا اور آج پوری دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کو دیکھ چکی ہے ۔

یہ تمام حکمران ایک لہر ہی کی بدولت اقتدار میں آئے اور بہت سوں کی خواہشات کے برعکس چلتے رہے لیکن اب یہ لہر دم توڑ رہی ہے جس کا آغاز ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو چکا ہے ۔آنے والے سال بہت اہم ہیں جس میں پاکستان اور انڈیا کے حکمرانوں کا فیصلہ ہونا ہے ۔توقع یہی ہے کہ اِن کا حال بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا کیونکہ کچھ باتیں چودھویں کے چاند کی طرح عیاں ہوتی ہیں اور عمران خان اور نریندرمودی کے وعدے، دعوے اور پھر کارکردگی یا ترجیحات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔باقی باتیں وقت پر چھوڑتے ہیں جو بڑے اچھے سے فیصلہ کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :