"امیرِ ریاست، کچھ تو خیال کریں! "

ہفتہ 9 جنوری 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

جہاں پاکستان کو بےشمار مسائل نے گھیرا ہوا ہے وہیں کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جو ہماری روایات کا حصہ بن چکے ہیں، اِس عمل میں ریاست کے سرپرست بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، کہیں مہنگائی کی چکی میں غریب عوام پِس رہی ہے تو کہیں دہشتگردی کے واقعات معمول بن چکے ہیں، کہیں ریپ کے کیسز عام ہو چکے ہیں تو کہیں سرحدوں پر دشمن للکار رہا ہے، یعنی کہ میری ریاست دُکھی ہے اور اِس دُکھ کا مداوا کرنے والا امیرِ ریاست خوش فہمیوں کے خواب دیکھ رہا ہے ۔

حال ہی میں کوئٹہ میں بسنے والی ہزارہ برادری پر امن کے دشمنوں نے قیامت برپا کر دی، مچھ کے علاقے میں واقع کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 11 کان کنوں کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا، یہ واقع اپنی نوعیت کا پہلا واقع نہیں تھا لیکن اِس واقعے میں چھپے کچھ حقائق پہلی بار رونما ہوئے، ہزارہ برادری عرصہ دراز سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور ہر بار یہ امیرِ ریاست کے سامنے اپنے مطالبات بھی رکھتے ہیں، اِن کے مطالبات ماننے کی یقین دہانیاں بھی کروائی جاتی ہیں لیکن ہر بار کی طرح وعدے وفا نہیں ہوتے اور یہ لوگ ایک نئے سانحے کا شکار ہو جاتے ہیں، ‏10جنوری2013میں ہزارہ برادری کے115افراد کو قتل کیا گیا,لواحقین نے میتیوں کے ساتھ احتجاج کیا، اُس وقت کے وزیراعظم اور آرمی چیف نے آئیندہ ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آنے کی یقین دہانی کروائی، اِس واقعے کے صرف ایک ماہ بعد ہزارہ برادری ایک بار پھر دہشتگردی کا نشانہ بنی جس میں 70 سے زائد افراد شہید ہو گئے ۔

(جاری ہے)

اِسی طرح ہزارہ برادری کے ساتھ وقفے وقفے سے ایسے افسوس ناک واقعات رونما ہوتے رہے لیکن وقت کے امیرِ ریاست نے ہر بار یقین دہانیوں کا ڈھیر لواحقین کے سامنے رکھ دیا لیکن حالات نہ بدلے ،آج ہزارہ برادری ایک بار پھر دہشتگردوں کی دہشتگردی کا نشانہ بنی ، کئی معصوم اور بےگناہ لوگ ایک بار پھر گولیوں سے بھون دیے گئے، اب کی بار مقتولین کے لواحقین نے ایک ہفتے تک لاشوں کے ساتھ دھرنا دیے رکھا، منفی درجہ حرارت یعنی کہ خون جما دینے والی سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھے معصوم بچے اور انصاف کی طلب گار خواتین وحضرات اربابِ اختیار کے ضمیر کو جگانے کی سر توڑ کوششیں کرتے رہے ۔

لیکن امیرِ ریاست اُن کی داد رسی کو تو نہ پہنچ سکے لیکن اقتدار کے گرم ایوانوں میں بیٹھ کر سخت سردی میں بیٹھے لواحقین کے متعلق یہ ضرور کہ دیا کہ میں بلیک میل نہیں ہونگا، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ وزیراعظم بلیک میل ہو اِس لیے پہلے میتوں کو دفنایا جائے ،پھر ہی میں کوئٹہ جاؤنگا، لیکن جب ماضی‏ کو اُٹھا کر دیکھا جائے تو یہی عمران خان ہزارہ برادری کے دُکھ بانٹنے سب سے پہلے پہنچے ہوتے تھے۔

جب 2013 میں ہزارہ برادری دہشتگردوں کی بربریت کا نشانہ بنی تو عمران خان صاحب نے کہا کہ “جو لوگ بیچارے لاشیں لے کر بیٹھے ہیں۔ زرداری ان کے پاس کیوں نہیں آتا۔یہ کتنی بار بلوچستان اور فاٹا گیا ہے،میں آپ کو نوے دن کے اندر دہشت گردی ختم کرکے دکھاؤں گا، آج حکومت عمران خان صاحب کی ہے، بلوچستان ہو یا کے پی کے، پنجاب ہو یا وفاق، ہر جگہ حکومتی نشستوں پر عمران خان براجمان ہیں ۔

آج ملک کے چپے چپے میں ایک بار پھر سے دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں، بجائے دکھی ریاست کے مظلوم لوگوں کی فریاد سننے کے ،اُن کو  گلے لگانے کے، لیکن اُن کے ہاتھوں کبھی بلیک میل نہ ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، ہزارہ برادری کے متعلق حکومتی سرپرستوں کی طرف سے پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی گئی ہے کہ مرنے والے دراصل افغانی تھے، لواحقین کسی کے ہاتھوں وزیراعظم کو بلیک میل کر رہے ہیں فلاں فلاں، حالانکہ وزیراعظم ریاست میں بسنے والی اقوام کے باپ کی طرح ہوتا ہے، ریاست کی تکلیف کو محسوس کرنا وزیراعظم کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ،لیکن جب وزیراعظم ہی اِس طرح کے بیانات پر اُتر آئے تو مظلوم عوام کس کے سامنے نوحہ خوانی کریں؟، اگر اپوزیشن کے رہنما تعزیت کے لیے اُن کے پاس چلے بھی جائیں تو اُن کے بارے یہ مہم شروع کر دی جاتی ہے کہ وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہیں، حالانکہ ماضی میں خان صاحب خود دُکھی ریاست کی ہزارہ برادری کے پاس پہنچتے بلکہ وہی بیان بازی کرتے جو آج ہزارہ برادری کے لواحقین کہ رہے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان آ کر ہمیں یقین دہانی کرائیں لیکن اُن کی باتوں کو آج بلیک میل کرنا کہا جا رہا ہے۔


ایسے واقعات پاکستان میں برسوں سے رونما ہو رہے ہیں جس میں سویلیئنز سے لے کر فوجی جوانوں تک سبھی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھے لیکن کئی واقعات ایسے بھی ہوئے جہاں وزیراعظم کا جانا ضروری ہوتا ہے تاکہ متاثرین کی داد رسی کی جا سکے اور معاملے کو جلد از جلد سلجھایا جا سکے لیکن جب ہزارہ برادری کے اِس واقعے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے، واقعے کو سازش قرار دے دیا جائے تو معاملات ریاست کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں کیونکہ یہ برادری سالوں سے دہشتگردی کا نشانہ بنی ہوئی ہے، ہزاروں بےگناہ ماؤں کی گودیں اُجاڑی جا چکی ہیں، مُسلسل یقین دہانیوں کے باوجود ہزارہ برادری کی نسل کشی کی جا رہی ہے، کئی گھر ایسے بھی ہیں جہاں میتوں کو کندھا دینے کے لئے کوئی مرد نہیں بچا تو اِن حالات میں ہزارہ برادری کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے نہ کہ غیر سنجیدہ بیانات کے ذریعے متاثرین کے زخموں پر نمک چِھڑکاجائے، اِس لیے وزیراعظم یا اُن کے سیاسی رفقاء کو اِسے مذہبی یا سیاسی رنگ دینے کی بجائے مظلوموں کو گلے لگانا چاہئے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام جلد از جلد ممکن ہو ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :