"سینیٹ الیکشن ،پی ڈی ایم اِن ایکشن"

ہفتہ 6 مارچ 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

سیاست میں کامیاب ہونے کے لئے آپ کو ہمیشہ تنگ گلی سے ہی راستے بنانے پڑتے ہیں، تبھی ایک جدوجہد کے بعد آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں موجودہ اپوزیشن اتحاد نے پی ڈی ایم کی شکل میں حکومت کے خلاف ایک جدوجہد کا آغاز کیا اور حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے مخلتف حربے استعمال کرنا شروع کیے، اب لگتا یوں ہے کہ پی ڈی ایم اپنے بنائے گئے منصوبوں میں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے اِس کی واضح مثال موجودہ ایوانِ بالا کے الیکشن ہیں جس میں بہت بڑے اپ سیٹ دیکھنے کو بھی ملے ہیں، پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اپنی تجاویز چیئرمین پی ڈی ایم کے سامنے رکھتی ہیں اور بعد میں بلآخر متفقہ فیصلے تک پہنچا جاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل پیپلزپارٹی کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ہمیں پارلیمنٹ کے اندر رہ کر ہی حکومت کو شکست دینی چاہیے اور حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے جمہوری راستہ اپنانا چاہئے اور اِس کے لئے تحریکِ عدمِ اعتماد بہت ضروری ہے، پیپلزپارٹی کی اِس تجویز کو قبول کیا گیا اور اِس پر من وعن عمل کرنے کے لئے بھی کوششیں شروع کر دی گئیں، پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا سینیٹ الیکشن سے پہلے اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں گے اور اِس طریقے سے حکومت پر یہ دباؤ بڑھایا جائے گا کہ وہ استعفے دے اور گھر جائے لیکن پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی کی طرف سے پیش کی گئی اِس تجویز پر بھی مکمل عمل درآمد کیا اور سینیٹ الیکشن میں بھرپور حصہ بھی لیا، جس کے نتائج نے توقع سے بڑھ کر پی ڈی ایم کو سرپرائز دیا، اِس الیکشن میں سب سے بڑا مقابلہ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور موجودہ وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ کے درمیان تھا، جس میں پی ڈی ایم کے متفقہ چیئرمین سینٹ کے امیدوار یوسف رضاگیلانی نے اپ سیٹ کیا اور 169 ووٹ لے کر حکومت کے امیدوار حفیظ شیخ کو شکست دے دی ۔

(جاری ہے)

اِس نتیجے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہے کہ حکومت قومی اسمبلی میں اپنی افادیت کھو چکی ہے اور خان صاحب کی ادنیٰ اکثریت کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں، یقیناً پی ڈی ایم کی اِس جیت کے بعد حکومت کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کے لئے بھی راہیں ہموار ہو چکی ہیں اور اگر اپوزیشن کا یہ اتحاد برقرار رہتا ہے تو تحریک عدم اعتماد میں بھی پی ڈی ایم اِس اتحاد کی بدولت عمران خان صاحب کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے. اِس نشست کی کامیابی دراصل ساری پی ڈی ایم کی کامیابی ہے کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں سب سے زیادہ قومی اسمبلی میں نشستیں پاکستان مسلم لیگ ن کی ہیں اور یوسف رضاگیلانی کی کامیابی میں ن لیگ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل بھی ہے کیونکہ ن لیگ کے تمام امیدواروں نے یوسف رضاگیلانی کو ووٹ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں اور نواز شریف کی بات  پر لبیک کہنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں، ماضی میں جب نواز شریف نے یوسف رضاگیلانی کے خلاف تحریک چلائی اور اُن کو اقتدار سے الگ کرنے کے لئے راستے ہموار کیے، آج وہی ن لیگ یوسف رضاگیلانی کی جیت کے لئے چٹان بن کر کھڑی رہی اور اِس بات سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کا اتحاد مضبوطی کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے ۔

اِس سینیٹ الیکشن نے حکومتی جماعت میں دراڑوں کو بھی واضح کر دیا ہے کہ کس طرح حکومت کے اپنے اراکین وزیراعظم کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں اور اِس ساری صورتحال سے پی ڈی ایم فائدہ اٹھا رہی ہے جس کا آنے والے دنوں میں حکومت کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے ۔
اب پی ڈی ایم الیکشن نتائج کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے سارے منصوبوں کو پسِ پردہ ڈال کر پارلیمنٹ میں ہی حکومت کے خلاف قانونی جنگ لڑے گی اور اِس کے لئے تحریک عدم اعتماد کا مضبوط آپشن موجود ہے، لیکن دوسری طرف وزیر اعظم موجودہ سینیٹ نتائج کے بعد قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے بھی کہ چکے ہیں کیونکہ اِن نتائج کے بعد بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ کھو چکے ہیں، انہی باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا اعلان کیا جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن پی ڈی ایم پہلے ہی تحریک عدم اعتماد کا کہ چکی ہے اور اُس کے لیے اب ایسا کرنا زیادہ مشکل بھی نہیں رہا کیونکہ موجودہ سینیٹ الیکشن کے نتائج نے سب واضح کر دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کر پاتے ہیں کہ نہیں، ‏لیکن عمران خان صاحب کو اِس عمل سے گزرنے کے لئے ناجانے کتنے جتن کرنا پڑینگے، اپنے اراکین کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کی فرمائشوں پر بھی من وعن عمل درآمد کرنا پڑے گا، اگر وزیراعظم اپنے حق میں اعتماد کے ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی خطرہ موجود رہے گا پہلی بات تو یہ ہوگی کہ یہ کسی صورت یقین نہیں ہوگا کہ وزیراعظم مطلوبہ تعداد میں اعتماد کے ووٹ لے بھی پائیں گے! اگر نہیں لے پائینگے تو یقیناً نیے انتخابات کی طرف جانا پڑے گا اور موجودہ حکومت کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں کہ دوبارہ الیکشن جیت کر حکومت بنا سکیں کیونکہ حکومت ابھی بھی چند سیٹوں کے بل بوتے پہ ہی کھڑی ہے، دوسرا اگر عمران خان کسی طرح اعتماد کے ووٹ لے بھی لیں تو پی ڈی ایم نشانے لگا کر بیٹھی ہے کیونکہ حکومتی جماعت کے بہت سے اراکین کے اپوزیشن اتحاد کے ساتھ مسلسل رابطے ہیں اور پارٹی چھوڑنے کے لئے پر تول رہے ہیں کیونکہ عوام کے ساتھ حکومت کے اپنے اراکینِ اسمبلی عمران خان کی پالیسیوں سے سخت ناراض ہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت کے لئے آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن لگ رہا ہے لیکن پاکستانی پارلیمنٹ کی تاریخ میں وہ کچھ بھی ہوا جس کی کبھی توقع نہ تھی، موجودہ سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم بظاہر مطمعن دکھائی دے رہی ہے جس کے بعد حکومت کے لئے مشکلات کافی حد تک بڑھ چکی ہیں اِن مشکلات سے کس طرح نکلنا ہے، یہ وزیراعظم عمران خان کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہوگا۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :