"ہماری ترجیحات کا لیول"

بدھ 26 مئی 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

بحثیت قوم ہماری سوچ کا معیار بہت پست ہو چکا ہے، دنیا میں شاید ہم واحد قوم ہیں جو آج بھی اپنی بربادی کے بعد بھی صرف اِس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ دیکھو ہم نے فلاں کو دو باتیں سُنا کر میدان مار لیا، اور ایسا ہم اپنے وجود سے آجتک یہی کر رہے ہیں، دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آئے تو اُسکا اثر پاکستان کے کونے کونے میں نظر آتا ہے، ہمارے  جذبات ہمارے عقل و شعور پر ہاوی ہو چکے ہیں، ہم نے ہمیشہ مار ڈالو، جلا دو، گرا دو کو ہی اپنا نصب العین بنا کر رکھا ہوا ہے، ہمیں مذہبی معاملات میں اتنا انتہا پسند بنا دیا گیا کہ ہم بغیر سوچے سمجھے ایسے اقدامات اُٹھا جاتے ہیں جن کا الٹا ہمیں ہی نقصان ہوتا ہے لیکن آج بھی پاکستانیوں کی اکثریت مذہب اسلام کے بنیادی اصولوں کو اپنانے سے گریزاں ہے، ہمیں مذہبی معاملات میں مختلف طبقات کی طرف سے ہمیشہ استعمال ہی کیا گیا ہے اور ہم استعمال ہوتے آئے ہیں،آجبھی ہم ایک کلو دودھ میں ایک کلو پانی ڈال کر بیچتے ہیں، ہم ہی بازاروں میں دو نمبر اشیاء سینہ تان کر فروخت کرتے ہیں، ہم ہی بے ایمانی، بددیانتی اور منافقت میں تمام حدیں پار کر چکے ہیں، ہم نے ہی مذہب کو صرف کھوکھلے نعرے تک ہی محدود کر دیا ہے، لیکن دنیا میں چھپن اسلامی ممالک میں سے صرف ہم نے ہی اسلام کی نام نہاد ٹھیکے داری اُٹھا رکھی ہے لیکن عملاً ہم اسلام کو خود ہی بے تحاشہ نقصان پہنچا رہے ہیں، ہم سے کم آبادی والے اور ترقی پزیر ممالک کہیں آگے نکل گئے، بنگلہ دیش پاکستان سے ہی جدا ہو کر ہر محاز پر بہت آگے نکل گیا لیکن ہم ہر شعبہ زندگی میں زوال پذیر ہو چکے ہیں، ہمارے اخلاق، اقدار، محب وطنی، یعنی کہ ہر چیز داؤ پر لگ چکی ہے اور ہم یہ محسوس کرتے ہوئے بھی بار بار غلطیاں کرنے میں مصروفِ عمل ہیں، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جذبات میں سچ کی تلاش ناممکن سی بات ہے، اور سچ تلاش کرنے کے لئے آپکو عقل و شعور سے کام لینا ہی پڑتا ہے، میں زیادہ ماضی میں جانے سے اجتناب کروں گا لیکن آپکو اپنے حال ہی کے قومی رویے بتا دوں کہ ہمیں کس طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے،ہمارے اقدامات جو ہم سے کروائے گئے یا ہم نے کئے اُنکا رتی برابر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، ہم نے اپنے جذبات خوب پگھالے لیکن اصل میں اِسکا فرق صرف ہمیں ہی پڑا ہے لیکن جس کے لئے ہم سوچ کر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی قومی املاک کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں وہ آج بھی پچھلے پچھہتر سالوں سے کشمیر اور فلسطین پر قابض بیٹھے ہیں اور ظلم کے پہاڑ گرا رہے ہیں، باقی مسائل اِن سے الگ ہیں ۔

(جاری ہے)

کشمیر کا ایشو ہو یا پھر فلسطین کا فرانس کا واقع ہو یا پھر افغانستان وبرما کے اندونی حالات ،ہم نے ہر موڑ پر بحثیت قوم یا حکومت وہ اقدامات کیے جن سے  مسائل تو حل نہیں ہوئے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ہم نے اپنے ہی ملک کا نقصان کر کے دلی تسلی حاصل کر لی, حال ہی میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فلسطین کے ایشو کو لے کر کچھ ملکوں کا دورہ کیا اور امریکی نیوز چینل سی این این کو ایک انٹرویو بھی دیا تو شاہ محمود قریشی کی طرف سے وہی باتیں دہرائیں گئیں جو پچھلے ادوار میں ہر پاکستانی لیڈر کہتا آیا ہے لیکن جب شاہ محمود قریشی دورہ مکمل کر کے پاکستان پہنچے تو کچھ لوگوں کی طرف سے اُنکو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا کہ شاہ محمود نے فلسطین کا ایشو دبنگ انداز میں لڑا ہے اور ایسا باور کرایا گیا کہ جیسے شاہ محمود قریشی مسئلہ فلسطین حل کروا کے واپس لوٹے ہیں، پاکستان کے کچھ میڈیا چینلز پر وزیراعظم عمران خان اور باقی حکومتی اور دیگر لیڈران کے بیانات کو اِس طرح چلایا گیا کہ جس طرح فلسطین کے تمام مسائل کا حل وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ نے نکال لیا ہے، لیکن ہماری خارجہ پالیسی کا حال دیکھیں کہ انڈیا کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت آرٹیکل 370 کو ختم ہوئے دو سال بیت گئے، ہم اُس آرٹیکل کو بحال کروا نہیں سکے اور نہ ہی کشمیر میں بھارتی مظالم کو کم کروا سکے ہیں تو یہیں سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہم نے فلسطین کا ایشو کس طرح لڑا ہوگا، یقیناً ہمارا اِس ایشو میں کردار صرف چند بیانات اور اپنے ملک کی توڑ پھوڑ کی حد تک ہی ہے۔


یہ ہماری کم علمی سمجھیں یا بدقسمتی لیکن ایسا ضرور ہے کہ ہم مسلسل اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں، دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا ہے اور پھر پاکستان کے بعد بنگلہ دیش کا نمبر آتا ہے باقی مسلم ممالک اِن سے الگ ہیں، اکیسویں صدی میں اِن مسلم ممالک نے ہر لحاظ سے اپنی صف بندی کو بدل لیا ہے، اِن ممالک کی عوام خاص طور پر بڑے اسلامی ممالک نے خود کو جدیدیت کی چادر میں ڈھانپ لیا ہے، یہ ممالک تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر ،معیشت میں ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور جلیج کے  مسلم ممالک تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں ،اِس کے علاوہ اِن ممالک میں مذہبی اقدار اور روایات کا بھی خاصہ احترام کیا جاتا ہے لیکن ہماری سوچ کی سوئی آج بھی خواہ مخواہ کی چودھراہٹ اور کم علمی کی وجہ سے شدت پسندی پر اٹکی ہوئی ہے، اب ہمیں اکیسویں صدی میں ہونے کی بنا کر اپنی قومی ترجیحات کو بھی بدلنا پڑے گا،دفاع کے ساتھ ساتھ معیشت، صحت اور بہتر انفراسٹرکچر کو بھی فوقیت دینا ہوگی ورنہ ہمیں خالی نعروں اور چودھراہٹ کے سوا کچھ نہیں بچے گا اور یہی مسلم ممالک جو ہم سے آگے نکل چکے ہیں کل کو ہمیں انہی کی محتاجی برقرار رکھنا ہوگی جس طرح ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود آج بھی سعودی اور ترکی کے محتاج بن چکے ہیں باقی غیر مسلم ممالک اِن سے الگ ہیں۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :