پی ٹی سی ایل سے کے ای ایس سی کی نجکاری

اتوار 6 ستمبر 2020

Shoaib Mukhtar

شعیب مختار

بلند و بالا دعوے کرتی تبدیلی سرکار ایک کے بعد ایک یوٹرن لیکر جہاں حکومت کے دو سال مکمل کرنے میں کامیا ب رہی وہیں حکومت میں آ نے سے قبل دی جانے والی تسلیاں آ ج بھی اقتدار کے ایوانوں میں منہ چڑاتی دکھائی دیتی ہیں۔ایک جانب عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی وزیر اعظم پاکستان کو ان کے حکومت میں آ نے سے قبل کیے جانے والے وعدوں کی یاد دہانی کرواتی نظر آتی ہیں تو دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان کے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے اور نواز شریف اور آصف زرداری سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کی تقریریں آج بھی عوام کے ذہنوں میں رقص کرتی ہیں۔

” صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف چلی“ سرکار سے رفتہ رفتہ عوام کی بندھی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں جبکہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر وں کی تعمیرعوامی حلقوں میں مضحکہ خیز باتیں قرار دی جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

جس کی تشریح کرتی خود حکومت دکھائی دیتی ہے جو آ ج اپنے ہی نجکاری کیے گئے سرکاری اداروں کی بیرون ملک سے اربوں روپے کی ادائیگیاں لینے اور معاملے کو دبانے کی سازشوں میں مصروف ہے۔


اگر بات کی جائے یہاں پاکستان میں پہلی ٹیلی کمیونیکیشن سہولیات فراہم کرنے والے ادارے ٹیلی گرافس اینڈ ٹیلی فون ڈیپارٹمنٹ کی نجکاری کی تو معاملے پر ہونے والی بہت سی بے ضابطگیاں بے نقاب ہوتی ہوئی نظر آ تی ہیں۔ جسے نجکاری کے نام پرپہلے 1991میں پی ٹی سی بعد ازاں 1996میں پی ٹی سی ایل میں تبدیل کر دیا گیا ہے تمام تر عمل ری آرگنائزنگ ایکٹ 1996کے تحت عمل میںآ یا تھا۔

پانچ ادارے جن میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے )،این ٹی سی (نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی )،ایف اے سی ( فریکونسی ایلوکیشن بورڈ )،پی ٹی ای (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائز ٹرسٹ )اور پی ٹی سی ایل (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ )ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت تشکیل پائے گئے تھے جن میں سے پی ٹی سی ایل کی نجکاری کو آ ج بھی مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

2005میں پی ٹی سی ایل کی جانب سے 26فیصد حصص کی نجکاری کے مرحلے میں تین کمپنیوں کی جانب سے بولی لگائی گئی تھی جن میں اتصالات ،چائنا موبائل ،سنگٹیل شامل تھیں ۔بعد ازاں اتصالات نامی کمپنی سب سے زیادہ بولی لگانے کے بعد پی ٹی سی ایل کی خریداری سے انکاری ہو گئی تھی جنہیں منانے اور ڈیل کو حتمی شکل دینے میں اس کے وقت کے نجکاری کمیشن کے چیئر مین ڈاکٹرحفیظ شیخ اور موجودہ مشیر خزانہ کا کردار قابل ستائش بتایا جاتا ہے .جن کی جانب سے ڈیل کی طرز سے متحدہ عرب امارات کا خصوصی دورہ بھی کیا گیا تھا اوراتصالات نامی کمپنی کو پی ٹی سی ایل کے26 فیصد حصص کی نجکاری کے عیوض محکمے کی تمام تر جائیدادوں کا تحفہ بھی دیا گیا تھا جس کی مالیت آج کھربوں روپے بتائی جاتی ہیں۔


 پی ٹی سی ایل کی جانب سے اتصالات نامی کمپنی کو 2 ارب 60 کروڑ ڈالرکے عیوض 26فیصد حصص فروخت کیے گئے تھے جس کے بعد کمپنی کی جانب سے پاکستان کو80کروڑ ڈالر کی ادائیگی روک دی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ 33جائیدادوں کا تنازعہ بتایا جاتا ہے۔( 2005میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے معاہدے میں محکمے کی ملکیت میں شمار کی جانے والی 3ہزار 248جائیدادیں متحدہ عرب اماراتی کمپنی کے نام پر منتقل کرنے کا عیادہ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں چند وجوہات کی بنا پر33جائیدادیں نجی کمپنی کے نام پر منتقل نہ ہونے پر پی ٹی سی ایل کو بڑی ادائیگی روک دی گئی ہے جس پر حکام بالا نے آنکھیں موندھ رکھی ہیں۔ اس ضمن میں پاکستانی حکام کی جانب سے قابل اعتماد ویلویٹر ز اور اور چارٹرڈ اکاؤنٹس کے ذریعے 33جائیدادوں کی قیمتوں کا تعین کر کے اتصالات نامی کمپنی کو 6کروڑ ڈالر معاوضہ لیکر 74کروڑ امریکی ڈالر کی پاکستان کو ادائیگی کی پیشکش کی گئی ہے جس کے بعد بھی نجی کمپنی پاکستان کو اربوں روپے کی ادائیگی سے گریزاں ہے)۔

مذکورہ کمپنی کو 26فیصد حصص کے عیوض پی ٹی سی ایل کا مکمل انتظامی کنٹرول بھی سونپ دیا گیا ہے جس کے نزیک 74فیصد شیئر ہولڈر سرکاری محکمہ حکومتی غفلت کے سبب لا چار دکھائی دیتا ہیں۔ متحدہ عرب اماراتی کمپنی 26فیصد حصص کے عیوض پی ٹی سی ایل کی جائیدادوں کو تحویل میں لینے اور محکمے پر قابض ہونے میں مکمل کامیاب ہو چکی ہے جن کیخلاف چانونی چارہ جوئی سے حکومت گریزاں ہے۔

ایک حیرت انگیز امر یہ بھی کہ محکمہ پی ٹی سی ایل میں 9بورڈ آف ڈائریکٹر تعینات ہیں جن میں پانچ غیر ملکی ہیں اور اتصالات نامی کمپنی سے وابستگی رکھتے ہیں۔ پی ٹی سی ایل اور متحدہ عرب اماراتی کمپنی کے مابین ہونے والا یہ معاہدہ نیب کے 29میگا اسکینڈلز میں بھی کبھی شامل ہوا کرتا تھاتاہم انکوائری کو اعلیٰ شخصیات کی ہدایات پر دبا دیا گیا ہے۔

تمام تر معاہدے پر موجودہ حکومت بھی خاموش دکھائی دیتی ہے جس نے احتساب کی راگنی الاپنے والوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
اسی طرح 2005میں کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ”کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن “کی نجکاری بھی نہایت مشکوک بتائی جاتی ہے جس کے تحت حکومتی ادارے کی کنجی15ارب86کروڑکے عیوض سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے الجمیع نامی کمپنی کوسونپی گئی تھی جو 2005 سے مارچ 2008تک سیمنز پاکستان کی مدد سے محکمے کو چلانے میں کامیاب رہی بعد ازاں 2009میں مبینہ طور پر وفاقی حکومت کے دباؤ پرخلیجی کمپنی66.4فیصد شیئر ز” ابراج گروپ“ کو معاہدے کے تحت حوالے کر کے منظر عام سے غائب ہو گئی تھی۔

جس کے بعد سے کراچی کو بجلی کی فراہمی کی ذمہ داری ابراج گروپ کی جانب سے سنبھال لی گئی ہے اور” کے ای ایس سی “کا نام کے الیکٹرک میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ گروپ گذشتہ چند سالوں میں حکومتی معاہدے کے تحت محکمے سے متعلق اپنی مرضی کی ترامیم کرانے میں کامیاب رہا ہے جبکہ اسی دورانیے میں چند شرائط بھی منظور کرائی گئی ہیں، جس کے تحت ”اگر کسی بھی وقت حکومت پاکستان کے الیکٹرک کو اپنی تحویل میں لے گی تو اس کے ذمہ موجودہ اور مستقبل کے تمام واجبات ادا کرنے لازم ہونگے ترامیم میں یہ بھی شامل کرایا گیا تھا کہ کہ کمپنی کے ذمہ این ٹی ڈی سی کے تمام واجبات کی ادائیگی بھی حکومت پاکستان کرے گی. جبکہ بجلی کے قیمت میں سات سال تک اضافہ نہ کرنے کی شرائط بھی مذکورہ گروپ کی جانب سے ختم کروالی گئی تھی ۔

معاہدے کی متعلقہ شق کی پابندی ختم ہونے کے باوجود بھی کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے چھ سو سے زائد بجلی اورسالانہ اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے جبکہ اسی دورانیے میں ادارے کے اربوں روپے کے واجبات بھی معاف کیے گئے ہیں جس کے بعد بھی کمپنی شہریوں کو بجلی کی مسلسل فراہمی سے انکاری ہے۔ کراچی کو بجلی کی فراہمی کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کو چلانے والا ابراج گروپ عالمی فراڈی بھی بتایا جاتا ہے جس کے سربراہ عارف نقوی ہیں جو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دست ِ رازبتائے جاتے ہیں اور بیرون ملک میں385بلین ڈالر زکی کرپشن میں ملوث ہیں جبکہ لندن میں مختلف عدالتی کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں اورشدید مالی مشکلات کا شکار ہیں ۔

حالیہ دنوں کے الیکٹرک کو چین کی کمپنی شنگھائی الیکٹرک کے حوالے کرنے سے متعلق قانونی پیچیدگیاں دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں آئندہ چند روز میں کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کے حوالے کیے جانے کے امکانات روشن ہیں۔
ابھی پی ٹی سی ایل اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کا معمہ حل ہی نہ ہو سکا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک اور اہم فیصلہ کر لیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کے لیے 9350ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دیتے ہوئے گھر بھیج دیا گیاہے. مذکورہ نجکاری کو یقینی بنانے میں بھی ایک مرتبہ پھر موجودہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نہایت سرگرم دکھائی دیے ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے اسٹیل مل کی نجکاری کے لیے سرمایہ داروں کی تلاش شروع کر دی گئی جبکہ عارف حبیب گروپ نے جو 2006سے اسٹیل مل کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے نے حکومتی شخصیات سے رابطے تیز کر دیے ہیں جس کے تحت گذشتہ دنوں گروپ کے چیئرمین کی جانب سے وفاقی وزراء سے ملکی مفاد کی خاطر اہم ملاقاتیں بھی کی گئیں ہیں۔ آ ئندہ چند روز میں ایک اور صنعتی باب کو بند کیے جانے اور اس کا مکمل طور پر وجود مٹائے جانے کے امکانات روشن ہیں ۔


اقتدار کے دو سالوں میں جہاں تبدیلی سرکار معیشت کو پستی کی جانب دھکیلنے میں کامیاب رہی وہیں ان کے وزراء بھی احمقانہ اقدام اٹھاتے اور چلتے ہوئے سرکاری محکموں کا پہیہ جام کرتے نظر آ ئے ہیں۔( ایک جانب وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام خان سرور پی آ ئی اے میں جعلی پائلٹس کی بھرتیوں کا انکشاف کرنے پر ملک بھر میں پاکستانی پائلٹس کومشکوک بنانے میں کامیاب رہے ہیں تو دوسری جانب خسارے میں ڈوبے محکمہ ریلوے کو حادثات سے بچانے اور درست ٹریک پر لانے میں وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید بھی ناکام دکھائی دیتے ہیں)۔

دونوں محکمے حکومتی غفلت کے سبب تباہ حالی کی جانب گامزن ہیں جس کے تحت یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دونوں محکموں کو موجودہ دور میں نہ سہی تو اگلے چند سالوں میں نجکاری کے مرحلے میں داخل کیے جانے کا امکان ہے ۔
پاکستانی قوم آ ج بھی کسی مسیحا کی منتظر دکھا ئی دیتی ہے جبکہ تبدیلی کے دعوے اور احتساب کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آ نے والوں سے محض چند سوالات کرتی ہے ؟وہ عمران خان کہاں گئے جو حکومت میں آ نے سے قبل پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ کبھی کیا کرتے تھے ۔

وہ عمران خان کہا ں گئے جن کے انتخابی منشور کا حصہ کبھی عافیہ صدیقی اور ان جیسے دیگر مظلوم قیدیوں کی رہائی ہوا کرتی تھی ۔آخر کب تک یہ آ نکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہے گا کب تک اپنی ناکامی کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈالا جاتا رہے گا۔ کب تک پڑھے لکھے نوجوان طبقے کو بے روزگاری کے دلدل میں دکھیلا جاتا رہے گا۔
 اگر یہ ریاست مدینہ کہلاتی ہے تو شاید کوئی بھی با شعور شخص اسے تسلیم کرنے سے انکار کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :