چینی افواج کی چڑھائی اور بھارتی دگرگوں صورتحال

ہفتہ 13 جون 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پچھلے ماہ سے بھارت اور چین کے درمیان لداخ اور سکم کے بارڈر پر شروع ہونیوالی لڑائی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب نیپال نے بھی انڈیا کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اپنی اسمبلی میں یہ قراردادبھی جمع کرا دی ہے کہ بھارت نیپال سے اپنے قبضہ کو فوراً سے پہلے ختم کرے اور نیپال کے وہ علاقے جہاں انڈیا نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے اسے واپس نیپال کے حوالے کرے۔

ابھی دو روز قبل ہی اس سلسلے میں تازہ ترین صورتحال یہ سامنے آئی ہے کہ نیپال بھارت بارڈر کے علاقے سیتا منڈی میں انڈیا آرمی پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں بھارت کے 5 فوجیوں میں سے 4 کی حالت انتہائی خراب بتائی جا رہی ہے اور ایک فوجی ہلاک ہو گیا ہے۔ اس انڈیا کے نیپال پر ناجائز قبضہ کو لیکر نیپالی عوام سخت غم و غصہ کا اظہار کچھ اسی طرح کر رہے ہیں جیسے وہ انڈیا کے ظلم و ستم سے سخت نالاں ہیں۔

(جاری ہے)

انڈیا کی آرمی میں ایک بڑی اہم فورس گورکھا رجمنٹ کے نام سے بھی ہے، اس گورکھا بٹالین میں 40 ہزار کے قریب جوان اور آفیسر تعینات ہیں ، ان میں تقریباً تمام فوجی اور آفیسر نیپال کے لوگ ہیں، اس گورکھا بٹالین کے علاوہ بھی پوری بھارتی آرمی میں خاص طور پر فوجیوں میں سخت بے چینی پھیلی ہوئی ہے، اور وہ دبے لفظوں میں مودی سرکار پر اپنے غم وغصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔

کیونکہ مبینہ طور پر لداخ اور سکم کے بارڈر پر چینی افواج بھارتی فوج کو دھکیلتے دھکیلتے 60 مربعہ کلو میٹر اندر چلے گئے ہیں۔اور ابھی مزید اندر تک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور انڈین حکام گزشتہ ایک ہفتے سے چینی حکام سے میٹنگ میں مصروف ہیں جس کا نتیجہ گفتم نشستاً اور برخواستاً سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ انڈین میڈیا بھی سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، آئے روز میڈیا پر ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر انڈیا کے سابق آرمی آفیسرز بھی برملا طور پر مودی سرکار پر بہت زیادہ تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ٹوئیٹر پر بھارتی آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر اور موجودہ مشہور صحافی شوشانت نے تو چند سوالات بھی اٹھا دیئے ہیں،انہوں نے انڈین سرکار سے پوچھا ہے کہ کیا چینی افواج واپس جا چکی ہیں ، جس کا جواب وہ خود ہی دیتے ہوئے ٹوئیٹ میں لکھتے ہیں نہیں وہ ابھی تک لداخ اور سکم کے بارڈر ایریا میں موجود ہیں۔پھر وہ پوچھتے ہیں کہ کیا انڈیا اور چین میں کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں، پھر اس کا وہ خود ہی جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں ہاں، لیکن اس بارڈر لیول کی فلیگ میٹنگ میں بھارت کے لیفٹینٹ جنرل لیول کے آفیسر کیوں جا رہے ہیں؟کیونکہ دنیا بھر میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ اتنے بڑے لیول کے آفیسرز کو بارڈر لیول کی فلیگ میٹنگ میں بھیجا جائے۔

پھر ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ کیا چینی افواج انڈین ایریا میں موجود ہیں، اس کا جواب وہ پھر سے ہاں میں دیتے ہیں، اور پھر یہ سوال بھی کرتے ہیں کیا چینی افواج انڈیا کی سائیڈ میں کتنے کلومیٹر اندر تک آ چکی ہیں، اس کا جواب پھر خود ہی لکھتے ہیں کہ 8 کلومیٹر تک چینی افواج نے انڈین سائیڈ پر قبضہ جما رکھا ہے۔
اس ساری صورتحال کے تناظر میں یہ سارا معاملہ عالمی میڈیا پر بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔

انڈین آرمی کے ریٹائرڈ جنرل ہوڈا کے مطابق پوری انڈین عالمی اس وقت سخت ذہنی تناؤ اور بے چینی کا شکار ہے۔ ریٹائرڈ کرنل اجے شکلانے بھی اپنے بھارتی اخبارات میں چھپنے والے کالموں میں انڈین آرمی کا سارے کچے چٹھے کا پردہ اٹھا دیا ہے۔ ایک اور سابق بھارتی جنرل این ایچ پیناگ نے بھی اپنے کالم میں انڈین آرمی کے سارے پول کھول کر رکھ دیئے ہیں۔

بھارتی اخباری میں سابق ریٹائرڈ آفسروں کے ان سارے تنقیدی بیانات کے باعث انڈین آرمی میں سخت مایوسی اور بددلی پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کے اپنے اندر حالات بہت زیادہ دگرگوں ہو چکے ہیں۔ انہی سارے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی ممالک اور امریکہ کا انڈیا پر قائم اعتماد سخت مجروح ہو رہا ہے۔مغربی دنیا اور خاص کر امریکہ انڈیا کو ایک ایسے دوست کے طور پر دیکھ رہے تھے جو اس خطے میں ان کے مفادات کا تحفظ کر یگا، مغربی ممالک اور امریکہ بہادر یہ چاہتا تھا کہ انڈیا ان کیلئے وہی کچھ کرے جو پاکستان نے روس کے ساتھ کیا تھا۔

امریکہ نے روس افغانستان جنگ میں پاکستان کی تھوڑی بہت مدد کی جس کے بعد پاکستان نے روس کے وہ کیا کہ روس جیسا بڑا ملک اب ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے۔امریکہ کا خیال تھا کہ جیسا سلوک پاکستان نے روس جیسی سپر پاور کے ساتھ کیا تھا اب انڈیا بھی چین کے ساتھ ویسا ہی کوئی قدم اٹھاتے ہوئے وہی کام کرے کہ چین بھی مختلف نئی ریاستوں میں بٹ جائے۔ظاہر ہے اس سے امریکہ اور یورپ کو بہت فائدہ ہو گا لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ انڈیا چین کے سامنے لیٹ گیا۔


ابھی پچھلے سال ہی انڈیا نے پاکستان پر سٹرائیک حملہ کے نام سے حملہ تو کیا لیکن ان کا ایک جہاز پاکستان اور دوسرا انڈین سائیڈ پر ملبہ کی صورت میں ملا، ساری دنیا کے دباؤ اور منت سماجت کے بعد اپنا پائلٹ پاکستان سے واپس لیا۔اب امریکہ اور یورپی ممالک یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آیا انہوں نے اپنی جو انویسٹمنٹ انڈیا پر کی تو کیا یہ صحیح فیصلہ تھا؟ جس بھارت کو یہ تمام ممالک اس خطہ میں ایک غنڈہ بنا کر بٹھانا چاہتے تھے، اور انڈیا کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے اور چین جیسی سپر پاور کے سامنے کھڑا کر کے اسے توڑنے کا خواب دیکھا تھا، وہ پورا نہ ہونا بھی انڈیا کے ان یورپی ممالک اور امریکہ کے اعتماد کو سخت گزند پہنچتا ہے۔

شہریوں اور بیوروکریسی کو بہت غرور تھا کہ انڈیا ایک بہت بڑا ملک ہے، بڑی عوامی جمہوریت ہے ، ہماری دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے، ہم آپ کے مفادات کا تحفظ کریں گے وغیرہ وغیرہ۔انڈیا نے تواپنے ہمسائیہ ممالک سے حالات بھی خراب کر رکھے ہیں، اس بنا پر جو دنیا بھر میں انہیں اچھا سٹیٹس اور پرٹوکول دیا جاتا تھا اب وہ پہلے والی بات اسی بداعتمادی کھوجانے کی نشانی ہے،اور بھارت کا بیرونی دنیا میں اپنا خود ساختہ قائم کیا ہوا سیکولر ازم تباہ ہو چکا ہے۔


ابھی ایک تازہ خبر جو امریکی اخبار رائٹر میں چھپی ہے جس میں اخبار نے لکھا ہے کہ امریکہ میں قائم بھارتی سفارتخانے نے امریکہ کی ایک ایسی ٹیم کو بھارت کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا جو دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے اپنی رپورٹ تیار کرتی ہے ۔اس ویزہ نہ دینے پر بھارتی سفارتخانہ نے اپنایہ مئوقف اختیار کیا ہے کہ اس ٹیم کی کوئی حیثیت اورکوئی اختیار نہیں کہ وہ بھارت میں موجود مختلف مذاہب کا آئینی طور پر جائزہ لے سکیں۔

ابھی چند ماہ قبل ہی ایسی ہی ایک تنظیم یونائیٹڈ سٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلجیس فریڈم (USCIRF) نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومت سے انڈیا پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا تھا ،کیونکہ اس رپورٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ انڈین حکومت اپنے آئین میں ترامیم کر کے مختلف مذاہب خصوصاً مسلمانوں کے حقوق ناصرف دبا جا رہی ہے بلکہ انہیں سلب کیا جا رہا ہے۔

ان سارے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والے وقتوں میں کم از کم امریکہ میں بھارت کو کوئی پذیرائی نہیں ملے گی۔اس کے علاوہ انڈیا ہر معاملے میں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر بلاسوچے سمجھے الزام لگا دیتی ہے۔ نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا یا انڈیا کہیں بھی کوئی ایسے کسی واقعات کی صورت میں آئی ایس آئی پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان اور چین کی بڑھتی ہوئی دوستی اور سب سے بڑھ کر دونوں ملکوں میں سی پیک کی تعمیر بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ایران کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے۔ افغانستان کے امن میں پاکستان کا کردار ساری دنیا کے سامنے ہے۔ غرضیکہ بھارت اپنے علاقے میں اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ جس کو واپس لانے کیلئے وہ عالمی دنیا کی نظر میں کوئی ایسا کام کرنے کا پلان تیار کر رہا ہے جس سے ان کی ساکھ عالمی دنیا میں بحال ہو سکے۔

ابھی پچھلے سال کی طرح چند روزقبل ہی پلواما کی طرز کا کوئی ازخود حملہ ہونیوالا تھا کہ پکڑا گیا، اور پھر انڈیا کو اس پلان مئوخر کرنا پڑا، اس کے باعث بھی دنیا بھر میں انڈیا کی بہت سبکی ہوئی۔ انڈیا چاہتا ہے کہ پھر پچھلے سال پلواما کی طرح کا ہی کوئی واقع رونما کرنے کے بعد جزوی جنگ پاکستان سے کی جائے، لیکن اب موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا ممکن نہیں کیونکہ چین اس کے سر پر موجود ہے اور اگر انہوں نے پھر ایک نیا محاذ کھول دیا تو اس جزوی جنگ کا نقصان وہ خود ہی اٹھائے گا۔انشااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :