''سنتا جا، شرماتا جا،اور'' پڑھتا جا ، کڑھتا جا''

ہفتہ 27 فروری 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب '' شبلی نامہ '' میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ محمود غزنوی نے اپنا دربار لگا رکھا تھا اور اس میں ہزاروں افراد شریک تھے،جن میں ان کی سلطنت کے تمام علمائے کرام ،کتب اور ابدال حضرات بھی شریک تھے۔ محمود غزنوی نے پورے دربار کو مخاطب کر کے سوال و اعلان کیا کہ کیا اس ہزاروں کے دربار میں کوئی ایسا اللہ کا نیک بندہ بھی موجود ہے جو مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کروا سکے؟ اس دربار میں موجود تمام علماء ، کتب اور ابدال اپنی اپنی جگہ پر خاموش بیٹھے رہے۔

اسی دربار میں محمود غزنوی کی سلطنت کا ایک چھوٹا سا مزدور کسان پورے مجمع میں کھڑا ہو گیا اور اس نے بادشاہ سلامت کو عرض کی کہ جناب والا۔۔۔! میں آپ کو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کروا سکتا ہوں۔

(جاری ہے)

بادشاہ نے اس بارے میں تفصیل جاننے کیلئے اس سے پوچھا اس کی کیا کیا شرائط ہونگی؟ تو جواباً اس مزدور کسان نے کہا کہ بادشاہ سلامت مجھے اس کیلئے دریا کے کنارے چھ ماہ کا ایک چلہ کاٹنا ہو گا، میں خودایک غریب مزدور کسان ہوں، میں اگر آپ کیلئے چلہ کاٹنے کی غرض سے سب کام چھوڑ کراس میں مگن ہو گیا تو میرے بیوی بچوں کی روٹی روزی بند ہو جائیگی، اگر آپ میرے بیوی بچوں کی کفالت کا ذمہ چھ ماہ کیلئے لیتے ہیں تو میں اس چلہ کیلئے تیار ہوں۔

سلطان محمود غزنوی نے اس مزدور کی شرائط کو تسلیم کر لیا اور اسے چلہ کیلئے دریا کے کنارے بھیج دیا گیا اور اس کے بیوی بچوں کی چھ ماہ کیلئے کفالت کا ذمہ لے لیا۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد بادشاہ نے اس مزدور کسان کو اپنے سامنے پیش کروانے کا حکم دیا، مزدور کے پیش ہونے پراس کا کہنا تھا کہ حضور چلہ کے دوران پڑھے جانیوالے وظائف آگے پیچھے یا الٹے ہوگئے ہیں جس کے باعث مجھے کامیابی نہیں مل سکی، اور اگر میں وہی چلہ دوبارہ سے شروع کروں تو اس کیلئے پھر سے چھ ماہ درکار ہونگے۔

چنانچہ بادشاہ نے اس دیہاتی آدمی کو پھر سے چھ ماہ کا وقت دیدیا۔ پھر سے چھ ماہ گزرنے کے بعد اس دیہاتی مزدور کو دوبارہ بھرے دربار میں پیش کیا گیا۔ اور اس سے سوال کیا کہ میرے کام کا کیا بنا؟ تو مزدور نے بادشاہ محمود غزنوی کو عرض کیا کہ جناب میں اللہ کا ایک گناہگار بندہ ہوں اور میں کہاں اور حضرات خضر علیہ السلام کہاں؟ ایک سال قبل آپ نے جب اپنی خواہش کا اظہار اپنے دربار میں حاضر علماء کرام، کتب اور ابدال حضرات کے سامنے رکھا تو میرے گھر میں فاقے چل رہے تھے،اور وہ بھوک و افلاس کے باعث مر رہے تھے، میرے پاس کام بھی نہیں تھا، اس لئے میں نے آپ کے سامنے جھوٹ بولا تھاتاکہ میرے غریب بیوی بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہو سکے۔

اس پر سلطان محمود غزنوی کو ناگوار گزرا اور بادشاہ نے دربار میں موجود اپنے ایک وزیر سے کہا کہ آپ بتائیں اس مزدور دیہاتی کے جھوٹ کی سزا کیا ہونی چاہئے۔تو اس وزیر نے سلطان محمود غزنوی کو مشورہ دیا کہ اس دیہاتی جاہل انسان نے بادشاہ سلامت سے نا صرف جھوٹ بولا بلکہ ایک سال کا وقت بھی برباد کر دیا ہے، اس لئے فوراًاس مزدور کا سر اس کے تن سے جدا کر دیا جائے۔

اسی دربار میں موجود ایک نہایت خوبصورت نورانی چہرے والے بزرگ بھی موجود تھے ، انہوں نے فوراً اس وزیر کی تجویز کردہ سزا کی تائید کی۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے دوسرے وزیر سے اس بارے میں پوچھا کہ اس دیہاتی کی کیا سزا ہونی چاہئے۔ تو اس وزیر نے اس دیہاتی کیلئے یہ سزا تجویز کی کہ اس جاہل مزدور کو سرعام بھوکے خون خوار کتوں کے آگے ڈال دینا چاہئے تاکہ یہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہو جسے دیکھ کر رعایا کو عبرت حاصل ہو۔

اس پر دربار میں موجود اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے دوبارہ بادشاہ سے کہا کہ یہ وزیر بھی صحیح فرما رہے ہیں، اس مزدور کو بلک بلک کر ہلاک کرنے کی سزا ہی ہونی چاہئے۔ اس کے بعد آخر میں بادشاہ سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا کہ اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ تو ایاز نے بادشاہ سے کہا کہ حضور والا آپ کی فیاضی اور خدا ترسی کے باعث اس غریب دیہاتی کے بچے ایک سال تک پلتے رہے ، اور اس ایک سال میں اس کے گھر کا خرچ چلانے کی وجہ سے آپ کے خزانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور نا ہی اس کے جھوٹ کے باعث آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا ہے۔

مجھ ناچیز کی رائے یہ ہے کہ آپ اس مزدور دیہاتی کو معاف کر دیں، کیونکہ اگر اس دیہاتی کو سزائے موت دیدی گئی تو اس کے بعد اس کے بیوی بچے بھوک وافلاس سے ہی مر جائیں گے۔اب پورے دربار میں بالکل خاموشی چھا چکی تھی، اس پر اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے دوبارہ کہا کہ جناب بادشاہ سلامت ۔۔ ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس پر بادشاہ سلامت نے اسی نورانی چہرے والے بزرگ سے دریافت کیا کہ آپ نے اس سے پہلے دو وزیروں کی تجویز کردہ سزاؤں کی تائید کی۔

اور اب ایاز کی طرف سے دی گئی تجویز کو بھی درست قرار دے رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس نورانی چہرے والے بزرگ نے جواباً کہا کہ حضورجس پہلے وزیر سے آپ نے اس مزدور کیلئے سزا تجویز کرنے کا کہا اور اس نے گلہ کاٹنے کا بولا، کیونکہ اگر اس وزیرکو خاندانی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ وزیر خاندانی اعتبار سے ایک قصائی پیشہ رکھنے والا وزیر ہے، اور قصائی کا تو کام ہی گلا کاٹنا ہوتا ہے۔

اس میں اس وزیر کی کوئی غلطی نہیں بلکہ غلطی آپ کی ہے کیونکہ آپ نے ایک قصائی کو اپنے دربار میں وزیر رکھا ہوا ہے۔اور دوسرے وزیر جس نے اس دیہاتی کو خون خوار کتوں کے آگے ڈالنے کی سزا تجویز کی تھی اس وزیر کے والد کا پیشہ بھی یہی تھا کہ اس کا والد بادشاہوں کے کتوں کو نہلایا کرتا تھا۔اور انہی خون خوار کتوں سے شکار کی چیرپھاڑکرواتا تھا۔اب دوبارہ سے اس میں غلطی آپ ہی کی ہے سلطان معظم کہ آپ نے ایسے لوگوں کو وزیر بنا رکھا ہے جن کا خاندانی ماضی اسی بات کی غمازی کرتا ہے اور ایسے وزیروں سے اسی بات کی امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ غریب رعایا کیلئے ایسی ہی سزائیں تجویز کریں گے،اور یہ بات غور سے سن لیں آخر میں جب آپ نے اپنے غلام ایاز سے اس بارے میں پوچھا تو کیونکہ ایاز ایک سیدزادہ ہے ، اور ایک سیدزادے کی یہ شان ہے کہ وہ اپنا سارا خاندان میدان کربلا میں ذبح کروا دیتا ہے لیکن وہ بدلے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا۔

سلطان محمود غزنوی اپنے تخت سے کھڑا ہو گیا اور اپنے غلام ایاز کو مخاطب کر کے بولا ، ایاز تم نے مجھے آج تک نہیں بتایا کہ تم ایک سید زادے ہو۔ایاز نے کہا میرے شہنشاہ پوری زندگی میں یہ راز نا میں نے کسی کو بتایا اور نا کسی کو معلوم تھا کہ میں سیدزادہ ہوں، لیکن آج اس نورانی چہرہ بزرگ نے میرا راز پورے دربار میں کھول دیا۔چنانچہ آج اس بھرے دربار میں میں بھی ایک راز سے پردہ اٹھاؤں گا، وہ راز یہ ہے کہ یہ نورانی شکل بزرگ کوئی عام ہستی نہیں بلکہ یہ خود حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔


نہیں مانتا میں کاغذ پے لکھا شجرہ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے
جب سے پاکستان میں ضمنی الیکشن منعقد کئے گئے ہیں ، باقی تو سب ٹھیک ہے صرف ایک این اے 75 ڈسکہ پر ایسا ہنگامہ کھڑا ہوا کہ اس کے نتیجہ میں دو انسانی جانیں اس ضمنی الیکشن کی نظر ہو چکی ہیں، اور ان الیکشن کا نتیجہ بھی روک کر عدالتی کارروائی کی جا رہی ہے ۔

ٹی وی اخبارات اور سوشل میڈیا پر ڈسکہ الیکشن پر بحث ہو رہی ہے، حکومتی اور اپوزیشن ارکان الیکشن کمیشن اور عدالت میں اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مرنے والے پی ٹی آئی اور ن لیگ والے کہہ رہے ہیں کہ یہ دونوں ارکان ہمارے کارکن تھے۔دو روز پہلے کی خبر ہے کہ الیکشن کمیشن نے این اے 75 الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پولنگ دوبارہ کرانے کا حکم جاری کر دیا ہے، اب یہ الیکشن 18 مارچ کو ہونگے۔

ان الیکشنز میں مقامی انتظامیہ کو تبدیل یا برخواست بھی کر دیا گیا ہے، اور اس سلسلے میں پنجاب کے آئی جی اور چیف سیکرٹری کو الیکشن کمیشن نے اپنے سامنے طلب کر کے ان سے جواب طلب کر لیا ہے۔اب 18مارچ کو ایک مرتبہ پھر سے این اے 75 ڈسکہ میں میدان الیکشن سجے گا۔ اس مرتبہ قومی امید ہے کہ وہی عوامی نمائندہ آگے آئے گا جس کے ساتھ عوام کے ووٹوں کی قوت ہو گی۔

کیونکہ پنجاب انتظامیہ اب دوبارہ پرانی غلطیاں نہیں دھرائے گی اور کوشش کریگی کہ الیکشن پولنگ میں بے ضابطگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے ناصرف ان کالی بھیڑوں کو منظر عام لاتے ہوئے روکے گی بلکہ ان کو قرار واقعی سزا بھی دے گی، جو اس حلقہ کے عوام میں دہشت اور بے چینی پیدا کرنے کا باعث بنے۔
پاکستان میں مختلف قانونی اور غیرقانونی رونماء ہونیوالے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومتی سطح پر فوراً تحقیقات کیلئے تحقیقاتی کمیشن بنا دیئے جاتے ہیں، اور شائد ہی کبھی کسی حساس تحقیقات کے نتائج کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہو۔

لیکن پچھلے کچھ ادوار سے پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ہونیوالی جتنی بھی تحقیقات کی گئیں ان میں چند ایک کو چھوڑ کر سب کی سب کو عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اب ایک اور کرپشن کی غضب کہانی کی تحقیقات کو چند روز قبل ہی عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی عوام کو تھوڑا تھوڑا یاد تو ہو گا کہ جون 2020 ء میں اور کرونا وائرس کی پہلی لہر شروع ہونے پر ملک بھر میں پٹرول بحران پیدا ہو گیا تھا، لیکن دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتیں حیرت انگیز حد تک کم ہو گئیں تھیں۔

ان دنوں ازراہ مزاح اخبارات اور سوشل میڈیا کے مطابق امریکہ میں تو پٹرول کی قیمتیں اس حد تک نیچے گریں کہ پٹرول کمپنیوں نے پٹرول خریدے والے صارفین کو پٹرول خریدنے کے عوض پلے سے پیسے بھی ادا کرنے شروع کر دیے، لیکن اس صورتحال کے بعد پاکستان میں پٹرول بحران شدت اختیار کر گیا، جس کے بعد عوام کو پٹرول نا ملنے کے باعث عوامی غم و غصہ دیدنی تھا۔

اس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی ایف آئی اے ابوبکر خدا بخش، ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس سمیت 5 رکنی پٹرولیم کمیشن بنایا گیا جس نے تفصیلاً تحقیقات کر کے 168 صفحات پر مشمل ایک رپورٹ چیف جسٹس ہائیکورٹ لاہور کو پیش کی، چیف جسٹس صاحب کی ہدایت پر یہ تحقیقاتی رپورٹ چند روز قبل پبلک کر دی گئی۔

اس پٹرولیم تحقیقاتی کمیٹی نے حسب سابق وقت تو کافی سے زیادہ لے لیا لیکن شکر ہے دیر آید درست آید۔ اس رپورٹ کے مضمرات پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پورے ملک میں صرف وہی ایماندار ہے اور بے ایمانی سے پاک ہے جس کو ابھی تک کرپشن کرنے کا موقع نہیں ملا، نہیں تو ایسا ایماندار آج کل کے زمانے میں کہیں ڈھونڈنا مشکل ہے جسے موقع بھی ملے اور وہ اپنے ایمان کی سلامتی کو قائم رکھتے ہوئے اپنا کام ایمانداری سے کرتا رہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیاکہ اوگرہ ،آئل اینڈ گیس ریگوریٹری اتھارٹی (OGRA)کا قیام 2002 میں عمل میں لایا گیا لیکن اس کو چلانے کیلئے بنائے گئے قوانین کا اطلاق 2016 میں نافذ کیا گیا۔ یعنی 2002 سے 2016 ء کا درمیانی 14 سال کا عرصہ بغیر کسی قانون اور ریگولیٹری کے تحت اس ادارے کو چلایا گیا۔ ان 14سالوں میں تمام کام ایڈہاک اور عارضی حکم ناموں کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔

اوگرہ قانون کے مطابق کوئی ایسی کمپنی جس کے پاس پٹرول ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں وہ کام کرنے کی اہل نہیں، لیکن پاکستان میں 25 آئل کمپنیاں ایسی بھی ہیں جن کے پاس پٹرول ذخیرہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔آج سے پہلے تک ملکی سطح پر تمام آئل کمپنیاں اس بات کی پابند ہیں کہ وہ اپنے پاس آنے والے 20 روز کا پٹرول ذخیرہ رکھیں تاکہ گرانی کی صورت میں بغیر کسی مشکل کے پورے ملک کا پہیہ چلتا رہے۔

جون 2020ء میں انہی کمپنیوں نے ذخیرہ کئے ہوئے پٹرول کو عام عوام کیلئے بند کر دیا اور اس آس پر بیٹھ گئے کہ کچھ دنوں بعد جب پٹرول کی قیمتیں اوپر جائیں گی تو یہی ذخیرہ کیا ہوا تیل ان کے لئے منافع بخش ثابت ہو گا۔اس ذخیرہ اندوزی اور بحران کو اوگرہ نے روکنا تھا، لیکن اوگرہ خود اس بحران میں کٹھ پتلی بنی رہی، اس بحران کی ذمہ داری وزارت پٹرولیم اوگرہ اور اوگرہ وزارت پٹرولیم پرڈالتی رہی۔

اس بحران کا سارا نقصان پاکستان کو ہوا اور پاکستانی عوام ان آئل کمپنیوں کے ہاتھوں مہنگے اور منہ مانگے داموں پر پٹرول حاصل کر کے لٹتے رہے۔ وزارت پٹرولم کے مطابق 2002ء میں پاکستان میں رجسٹرڈ 4 آئل کمپنیاں کام کر رہی تھیں اور آج ان کی تعداد 66 ہو چکی ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا کاروبار جو 4 کمپنیوں سے 66 کمپنیوں تک پہنچ گیا لیکن سب کی سب اس وقت خسارے میں چل رہی ہیں۔

اب ظاہر ہے یہ 66 کمپنیاں اگر خسارے میں چل رہی ہے تو حکومت کو ٹیکس کہاں سے دیں گی ؟ پاکستان سے دس گنا بڑے ملک بھارت میں صرف 7، بنگلا دیش میں 6 اور سری لنکا میں 3 آئل کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور پاکستان میں پٹرولیم کاروبار اتنا منافع بخش ہے کہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے کے باوجود خسارے میں جا رہا ہے۔ اب اگر جائزہ لیا جائے تو ملک کا کوئی بااثر امیر آدمی نہیں جو اپنی آئل کمپنی کا مالک نا ہو، کیونکہ اس کاروبار میں سب محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ پٹرولیم کمیشن سے پوچھا جائے کہ ان کمپنیوں کی طرف سے پاکستان کو سالانہ ڈھائی سو ارب روپے کا ٹیکہ لگانے کی ذمہ داری آخر کس پر ڈالی جائے۔ ڈی جی پٹرولیم آئل انجیئر یا تیل مصنوعات کا ماہر ہونا چاہئے لیکن ماشااللہ ہمارے پیارے پاکستان میں اس سیٹ پر ویٹنری ڈاکٹر ) ڈنگر ڈاکٹر( کام کر رہا ہے۔اس تحقیقاتی کمیشن نے ایک ایسے سیکشن آفیسر کی نشاندہی بھی کی جس کا کام صرف اور صرف متعلقہ آئل کمپنیوں سے رشوت اور کرپشن کے پیسوں کو اکٹھا کر کے متعلقہ محکمہ کے چھوٹے سے لیکر بڑے آفیسر کے حصے کے پیسے ان تک پہنچانے کا حساب رکھنا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سندھ کے بادشاہ جسے سب جانتے ہیں کی 23 ارب کی چوری پکڑی گئی جسے اس نے پری بارگین کے سنہری قانون پر عمل کرتے ہوئے صرف ڈیڑھ ارب ادائیگی کے بعد سب اچھا کی آواز کے ساتھ ختم کروا لیا، اس طرح کے بے شمار طریقوں سے پاکستان کو کس کس طریقے سے چونا لگایا جا رہا ہے، اس سے پاکستان کی باشعور عوام تو خوب اچھی طرح جانتی ہے لیکن نہیں جانتی تو صرف پاکستانی حکومت۔

اس بارے میں ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے ہی سال 15 جون 2020 کو ایک بحری جہازساٹھ ہزار میٹرک ٹن تیل لیکر پورٹ قاسم کراچی پہنچا ہی تھا کہ اس وقت متعلقہ محکمہ والوں کو پتہ چلا کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے باعث اس وقت گرانی چل رہی ہے اور جلد تیل کی قیمتیں مزید بڑھنے والی ہیں، لہٰذا اس تیل بردار جہاز کو پورٹ قاسم سے تھوڑا دور ہی سمندر کے پانی میں لنگر انداز کرا دیا گیا، اور 27 جون 2020ء کو جب تیل کی قیمتوں میں 20 روپے اضافہ کیا گیا تو اس کے بعد تیل بردار جہاز کو پورٹ قاسم کراچی پر لنگرانداز کروا دیا گیا۔

اور پرانی قیمتوں پرخریدے گئے تیل کو جب نئی قیمتوں پر بازار میں غریب عوام کے سامنے بیچا گیا تو صرف ایک تیل بردار جہاز کے عوض آئل کمپنی کے مالکان نے 2 ارب روپے کا اضافی منافع کمایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور کرپشن کا حساب کون دے گا؟ جب پچھلے سال پٹرول بحران کے دوران ملکی سطح پر پٹرول کی سپلائی 44 فیصد کم ہو گئی تھی۔

اور جونہی پٹرول آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو سب بحران ختم ہو گیا۔اس پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کے مطابق آئل سپلائی کرنے والے تمام کنٹینروں کے پاس Q کیٹیگری کا لائسنس ہونا چاہئے لیکن ان میں سے کسی کے پاس بھی Q کیٹیگری کا لائسنس موجود نہیں۔168 صفحات پر مشتمل پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے یہ تو صرف چند پیراگراف ٹکڑوں کی شکل میں قارئین کرام کے سامنے رکھے ہیں جبکہ اگر اس ساری رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو ہر باشعور محب وطن پاکستانی کا دل بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔

اب تو یہ حال ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک نئی کرپشن کی غضب کہانی سننے کو مل رہی ہے۔ ابھی تک پی ٹی آئی حکومت نے تمباکو مافیا پر ہاتھ نہیں ڈالا، جان بچانے اور نارمل ادویات صحت پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں، گندم آٹا چینی مافیا اپنے ہی انداز میں بے ہنگم کسی انجان سمت میں سرپٹ دوڑے جا رہی ہے، بجلی روز بروز ایسے بڑھ رہی ہے کہ جیسے ثواب کا کام ہو، اس ساری بے ہیجان صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک اور تحقیقاتی کمیشن رپورٹ آ گئی۔ اب تو بس ہر پاکستانی کا یہی کام رہ گیا ہے کہ '' سنتا جا، شرماتا جا'' نہیں بلکہ '' پڑھتا جا ، کڑھتا جا''۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :