صوفی برکت علی کی پیشن گوئی اور ٹیکس کا نظام

ہفتہ 17 جولائی 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

فیصل آباد سے 24 کلومیٹر دور آستانہ عالیہ ابوانیس محمد برکت علی ) المعروف صوفی برکت علی( کا مزارشریف ہے۔ صوفی صاحب کو دنیا سے پردہ کئے ابھی چند ہی سال گزرے ہیں۔ ان کے مزار پر ہر وقت مریدین اور عقیدت مندوں کا کافی رش رہتا ہے۔ ممتاز مفتی اپنی کتاب الکھ نگری میں ان صوفی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''میں اپنے ایک ذاتی کام کے سلسلے میں اسلام آباد سے لاہور آنے سے قبل قدرت اللہ شہاب کے پاس گیا تو ان کو لاہور جانے کا بتایا۔

تو انہوں نے مجھے کہا کہ اگر ٹائم ملے تو فیصل آباد جڑانوالہ کے قریب صوفی برکت علی صاحب کا ڈیرہ ہے ان کے پاس بھی ہو آنا اور میرا سلام عرض کرنا تو مجھے تھوڑا عجیب سا لگا کہ میں لاہور جا رہا ہوں اور مجھے پتہ نہیں وقت ملے گا یا نہیں اور شہاب صاحب ناجانے کیوں مجھے فیصل آباد جانے کا کہہ رہے ہیں، خیر بات آئی گئی ہو گئی۔

(جاری ہے)

تو لاہور میں اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر ایک صبح میں فارغ ہی بیٹھا کہ میرے ایک دوست تشریف لے آئے اور کچھ دیر گفت و شنید کے بعد کہنے لگے میں فیصل آباد جا رہا ہوں اگر فارغ ہو تو چلو تمہیں بھی فیصل آباد کی سیر کروا لاؤں، شام تک واپس آ جائیں گے۔

ان کی اس آفر کو سنتے ہی میرے کان کھڑے ہوئے اور صوفی برکت علی سے ملنے کیلئے ان کے ساتھ ہو لیا۔ ہم لوگ پہلے فیصل آباد گئے اور جس دوست کے ساتھ میں وہاں گیا تھا انہوں نے اپنا کام نبٹایا اور اس کے بعد ہم صوفی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حسب روایت شہاب صاحب کا سلام بھی دیا۔ کچھ دیر بعد ایسے ہی میں نے صوفی صاحب کو ایک سوال داغا۔ کہ جناب صوفی صاحب! پاکستان کے مستقبل کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو ان کا جواب سن کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ بیٹا آنے والے وقت میں پاکستان اسلامی دنیا کی عظیم ترین طاقت بنے گا، اور پوری دنیا کے فیصلے پاکستان کی ہاں اور ناں پر ہی ہوا کریں گے، انشااللہ۔ اور یہ کہ یہ بات میرے اوپر ایک قرض کی مانند ہے، اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں اور میں نے اپنا قرض اتار دیا۔ اورانہوں نے اس بات کوکئی بار دہرایا۔ اس وقت شاید آپ اور میں اس دنیا میں موجود نہ ہوں لیکن اگر ایسا نا ہوا تو میری قبر پر آ کر تھوک دینا۔

صوفی صاحب کی اس بات پر واپس لاہور آتے ہوئے سارا راستہ یہی سوچتا رہا کہ فیصل آباد جڑانوالہ کے قریب ایک کچے سے ڈیرہ کے باسی جو نا اتنے تعلیم یافتہ ہیں اور نا ان کی اس معاملے میں اتنی تحقیق ہو گی تو صوفی صاحب اتنی بڑی بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟'' اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے، قارئین کرام بھی صوفی برکت کا نام U ٹیوب پر ڈھونڈ کر اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں، ان کی کہی یہ سب باتیں جو وہ ہر نئے آنے والے سے کیا کرتے تھے U ٹیوب پر موجود ہیں۔

اللہ کی شان ہے کہ گزشتہ ہفتے عمران خان کی اقوام متحدہ کی تقریر کے بعد جو پوری دنیا میں اور پاکستان میںآ گ لگ گئی ہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے صوفی صاحب کی بات سچ ہوتی نظر آ رہی ہے۔اس کے چند ماہ بعد اوآئی سی کا اجلاس بھی سعودی عرب میں منعقد کیا گیا ہے جس میں ایک بار پھر عمران خان نے اپنی تقریر کی ہے اور وہاں بھیً عمران خان اسی طرح مسلم ممالک کے ضمیر کو جھنجھوڑاکہ شاید اسی طرح اس سوئی ہوئی مسلم امہ بیدار ہو۔

سوشل میڈیا کے ٹویٹر، انسٹاگرام،یوٹیوب، فیس بک،اور تو اور ٹک ٹاک پر مسلم دنیا جس طرح عمران خان کی ان تقاریراور ان کے نہایت بہادر اور جراتمندانہ فیصلوں کا فیڈبیک ابھی تک دے رہی ہے اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ ہر سچے مسلمان کی یہی دعا ہے کہ عمران خان کو اللہ تعالیٰ لمبی زندگی عطا فرمائے اور دشمن کے ہر ناپاک ارادے کو نیست و نابود کر دے۔


پوری دنیا کے ہر ملک کی اکنامی کا دارومدار ٹیکس پر چلتا ہے، جس سے ملک بھر کی تعلیم،صحت، دفاع، سرکاری دفاتر کی تنخواہوں، اقتدار میں شامل حکومتی اہلکار، غرضکہ ہر شعبہ ہائے زندگی ٹیکس سے حاصل شدہ رقوم سے چلتا ہے۔ ٹیکس کے بارے میں اگر سمجھا جائے تو یہ دو طرح کا ہے، 1۔ ڈائریکٹ ٹیکس 2۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس ۔۔ ڈائریکٹ ٹیکس تو وہ ہے جو کہ آپ کی آمدنی کو سامنے رکھ کرلیا جاتا ہے، جو کہ وہی لوگ ادا کرتے ہیں جو حکومت کی طرف سے مقرر شدہ ایک مخصوص آمدنی سے زیادہ کماتے ہیں تو اس آمدنی پر آپ سے حکومت مطالبہ کرتی ہے کہ اس اضافی آمدنی میں سے حکومت کو بھی کچھ نہ کچھ ادا کریں تاکہ آپ کو اس کے بدلے کچھ آسانیاں دی جائیں۔

اور دوسرا ان ڈائریکٹ ٹیکس ۔۔۔ یقین جانئے دنیا میں بسنے والا ہر شخص جس کی نبض چل رہی ہے وہ اس کو ادا کرتا ہے۔ایک چھوٹے بچے جو کہ کوئی چاکلیٹ گولی ٹافی خریدتے ہیں سے لیکر ادھیڑ عمر شخص مردوزن سب لوگ مارکیٹ، دکان سے جب بھی کوئی چیز خریدتے ہیں تو اس کا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتا ہے۔ جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ادا کیا جانیوالا ٹیکس ہے، میڈیکل کی دوائی ہو، گھریلو ضروریات کا سامان ہو، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں ادا کیا جانیوالا بل ہو یا تعلیمی میدان میں خرچ کیا جانیوالا پیسہ ہو اس میں ہمارے معاشرے کا ہر بندہ ٹیکس دیتا ہے۔

جس کا ہمارے معاشرے میں بسنے والے زیادہ تر لوگوں کو ادراک نہیں۔ اس ٹیکس کو ادا کرنے میں اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ کیونکہ اس چیز کی قیمت ہی یہی ہے اس لئے وہ بخوشی ادا کر دیتا ہے۔اور سارے زمانے میں مہنگائی کا رونا روتا ہے۔ لیکن جو لوگ اپنی سالانہ آمدنی پر ٹیکس ادا کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتے تو اس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس سلسلے میں سختی تو دکھائی ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے تو نہیں لیکن آنے والے چند سالوں میں اس کی امید ضرور کی جا سکتی ہے۔
یہاں یورپ میں اگر کسی بھی عام شخص نے چھوٹی سے چھوٹی مونگ پھلی کی ریڑی یا برگر کی ریڑھی سے اپنا کاروبار شروع کرنا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے کاروبار کے متعلق ساری تفصیل کا لوکل اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے، جس میں اسے ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اس کاروبار کو کرنے کا اہل بھی ہے یا نہیں، اور اگر وہ اہل نہیں تو اسے یہاں کی گورنمنٹ اس کاروبار کے متعلق جامع معلومات کا کورس کرنے کا مشورہ دے گی۔

اس کو کرنے اور اس کا سرٹیفکیٹ وغیرہ حاصل کرنے کے بعد ہی وہ کاروبار کرنے کا اہل ہو سکے گا۔ اور جب وہ اہل ہو جائیگا تو اسے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والوں کو بتانا پڑے گا کہ وہ اس کاروبار میں اندازاً سالانہ کتنا پیسہ کما لے گا۔ اگر تو وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے معیار کے مطابق ہو گا ٹھیک ورنہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ آپ کو کچھ رقم ماہانہ امداد کے طور پر فراہم کریگا کہ آپ کی آمدنی اتنی ہو جائے کہ آپ کا گزربسر ایک متوسط طبقے کے معیار کے مطابق ہو۔

پورے ایک سال کے بعد ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو آپ اپنی آمدنی کی تفصیل سے آگاہ کریں گے۔ اگر تو آپ کی آمدنی اس اندازاً آمدنی کے اندر ہوگی جو آپ نے سال کے شروع میں انہیں بتائی تھی تو ٹھیک ورنہ اگر آمدن بڑھ گئی تو اس کا حساب کتاب کر کے آپ سے ٹیکس مد میں دی گئی ماہانہ امداد سے کچھ فیصد واپس لے لئے جائیں گے۔ اس سارے عمل سے یہاں بسنے والے سب لوگ بہت خوش ہیں اور یقین جانئے کسی کو کوئی شکایت نہیں۔

پیٹرول بجلی گیس اور ضروریات زندگی کی جو بھی چیزوں کی قیمتوں میں اونچ نیچ کا یہاں رہنے والے لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پاکستان کے سارے طبقات میں ٹیکس چوروں اور آمدن کو چھپانے کا رواج عام ہے۔ پاکستان جیسے بڑے اور زیادہ آبادی والے ملک میں اگر یہی ٹیکس نظام رائج ہو جائے تو یقیناً آپ اور ہم سب غریب و امیر کا نظام زندگی آئیڈیل ہو جائیگا۔ افسوس کہ پاکستان کے اکثر لوگ تو ٹیکس کے دائرہ میں آنے کو تیار نہیں لیکن مفت تعلیمی نظام، مفت صحت پالیسی، اوروہ تمام سہولیات کے خوہاں ہیں، جو یورپ میں بسنے والے لوگوں کو میسر ہیں، یہ تو آپ قارئین کرام ہی فیصلہ کریں کہ کیا ایسا ممکن ہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :