میثاق کراچی مانیں اورگھٹنےمیرے نرخرے سےہٹا لیں

جمعرات 4 جون 2020

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

ایک پولیس اہلکار کے گھٹنے سے گلا دبنے کے نتیجے میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت پہ ہونے والے فسادات نے سارے امریکہ کو جیسے ہلا کے رکھ دیا ہے کہ جہاں کئی ریاستیں ہنگاموں کی زد میں ہیں اور بات لگ بھگ چالیس شہروں میں‌ کرفیو لگانے کی نوبت آجانےتک پہنچ گئی ہے ۔۔۔ یہ معاملہ ویسے تو سارے عالم انسانیت کے لیئے لمحہء فکر یہ ہے لیکن ہم اہل پاکستان کے نزدیک اسکی حیثیت شاید لمحہء ذکریہ سے زیادہ کی نہیں کہ نشستوں ، بیٹھکوں اور چوپالوں میں بس ایک لمحے کو اس کا ذکر ہوگا اور پھر سرجھٹک کر گفتگو کا رخ کسی اور موضوع کی طرف ہوجائے گا اور یوں اتنی اہم بات بھی آئی گئی ہوجائے گی ۔

۔ یہ دراصل اک طرح سے حقائق سے آنکھیں‌چرانے والی نفسیات کا معاملہ ہے کیونکہ ہمارے ملک میں تو وفاق اور بالخصوص صوبہ سندھ کی حکومت ایک طویل عرصے سے  ایک طبقہء آبادی یعنی سندھ کی شہری آبادی کے سینے پہ چڑھے بیٹھے ہیں اور نسل پرست کوٹہ سسٹم اور ڈومیسائل کے نام پہ اس کے نرخرے کو اپنے سرکاری گھٹنوں سے مسلسل دبائے جارہے ہیں لیکن اس سخت جاں بدنصیب کا دم ہے کہ نکل کے نہیں دیتا ۔

(جاری ہے)

۔۔  میں نے اس نسل پرست اس لیئے کہا کیونکہ ملک کے چاروں صوبوں میں صرف صوبہ سندھ ہی میں اسے شہری اور دیہی کی بنیادوں پہ تقسیم کیا گیا ہے جیسے کہ باقی تین صوبوں میں تو شہری و دیہی آبادیاں ہوتی ہی نہیں ۔۔۔
 مزید ظلم یہ کہ شہری کوٹے کی ملازمتوں کا معینہ حصہ بھی بڑے دھڑلے سے سندھ کی دیہی آبادی کو جعلی ڈومیسائل بنا بناکر یا جارہا ہے یا پھر کراچی کے گوٹھوں اور دیات کے مکینوں کے ڈومیسائل والوں کو نوازا جارہا ہے-  درحقیقت یہ معاملہ جارج فلائیڈ کے سانحے سے زیادہ سنگین اور شدید تر ہے کیونکہ یہ معاملہ محض چند افراد کا نہیں لگ بھگ پورے ساڑھے تین کروڑ افراد کے ساتھ جاری رکھی گئی زیادتیوں کا ہے اور  یہ زیادتیاں محض کسی ایک اہلکار کی ذاتی بربریت کے سبب نہیں ہورہیں بلکہ اس ظلم عظیم کوقانون اور آئین کے مقدس جامے پہنا کر ڈھایا جارہا ہے۔

۔۔ میرا تعلق اسی بدنصیب طبقہء آبادی سے ہے اور یہاں میرا سوال یہ ہے کہ کسی اتنے بڑے طبقہء آبادی کو آخر کب تک اور کہاں تک دبایا جاسکتا ہے خصوصاً جبکہ اس میں کسی ایک قومیت کے لوگ نہیں متعدد زبانوں کے بولنے والے افراد موجود ہیں یعنی اردووال  طبقہء آبادی کے علاوہ پنجابی ۔ پختون ، بلوچ ، سرائیکی ، ہزارہ وال ۔ کشمیری ، گلگتی وغیرہ وغیرہ  جبکہ اس طبقے کی تعلیم کا تناسب سارے ملک سے کہیں زیادہ بھی ہے ۔

۔ نوبت یہ آچکی ہے کہ اس طبقہء آبادی کو دیوار سے لگا ڈالا گیا ہے کیونکہ اب سندھ شہری کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے جسکی اک مثال کے ڈی اور واٹر بورڈ پہ صوبائی حکومت کا قبضہ ، موٹر وہیکل ٹیکس کو جھپٹ کر اسکی بلدیات کے بیشتر اہم اختیارات کو سلب کرلینا ہے- عالم یہ ہے کہ اس طبقے کے جائز حقوق چھین لینے والے یہ ظالم کوٹے کے نام پہ دی جانے والی سرکاری ملازمتیں بھی انہیں نہیں دے رہے اور نوبت یہ ہے کہ اس وقت صوبائی محکموں میں شہری سندھ کے ملازمین کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے
 احساس محرومی کی اسی ابتر صورتحال کو بھانپ کر کچھ ملک دشمن طاقتوں‌ نے یہاں سے ایسے عناصر کی سرپرستی شروع کردی تھی کہ جو ان دلگیرو  مخدوش حالات کا فائدہ اٹھا کے یہاں کے نمائبدے بن گئے تھے اور کئی دہائیوں تک انکے حقوق کی سودے بازیاں کرکے اور اسکی آڑ میں بے پناہ قتل و غارت اور بھتے بازی کے بل پہ مال و دولت کے انبار پہ چڑھ بیٹھے تھے  - انہی میں سے چند گروہ نام اور چہرے بدل کر اب بھی میدان میں موجود ہیں اور گو کہ چند حقوق کی اسٹیریو ٹائپ باتیں بھی کرتے سنے جاتے ہیں لیکن انکی اصل دلچسپی اس میں ہے کہ وہ  اپنے اور اپنے جرائم پیشہ حامیوں کے لیئے تحفظ کا سائبان بنالیں اور سرکاری معافی حاصل کرسکیں اور یوں پھر سے اس شہر پہ اپنا راج پاٹ قائم کرپائیں - سچائی سے دیکھا جائے تو اس وقت سیاسی سطح پہ کوئی بھی کراچی اور شہری سندھ کی باقی آبادی کے حقوق کی بات کرنے کے لیئے سنجیدہ نظر نہیں آتا ۔

۔۔ تاریخی طور پہ پیپلز پارٹی تو ہمیشہ سے سندھ کی شہری آبادی کے مقابل صف آراء رہی ہے لیکن باقی دیگر وفاقی سیاسی جماعتیں بھی اس طبقے کی پشتیبان نہیں کیونکہ وہ بھی اسے چیونٹیوں بھرا کباب سمجھتی ہیں اور اس خدشے سے خوفزدہ ہیں کہ وہ اس بابت منہ کھولتے ہی سندھ کی دیہی آبادی کو ناراض کربیٹھیں‌ گی اور انہیں یہ تو منظور ہے کہ وہ سندھ کی شہری آبادی کے حقوق پامال ہوتے دیکھیں لیکن انکے حقوق دلوانے کے لیئے آواز بلند کرنا اور انکا حامی و مددگار بننا ان کو ہرگز منظور نہیں ۔

۔۔
 دوسری طرف دیکھیئے تو صاف نظر آجائے گا کہ باقی زیادہ تر قابل ذکر سیاسی گروہ اب ' چلا ہوا کارتوس' ہیں اور آزمائے ہوئے ان لوگوں میں کم وبیش وہی صفات اب بھی جھلکتی ہیں کہ جو ماضی میں بھی انکی پہچان رہی ہیں اور خدانخواستہ انہیں آج بھی ان علاقوں کا قتدار مل جائے تو تین دہائیوں پہ مبنی پرانے دور وحشت کی واپسی ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب ایسے میں سندھ شہری کے عوام کہاں جائیں کیونکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس وقت  سارے ملک کی سفید فام آبادی ہے اور وہ اس کے مقابل ایک سیاہ فام آبادی بنا کے رکھ دیئے گئے ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ وہ اس وقت اپنی صحیح نمائندگی اور راست فکر قیادت کے فقدان سے دوچار ہیں اور یوں وہ ایک مہیب سیاسی خلاء میں معلق ہیں اور یہ وہ خوفناک تناظر ہے کہ جسکی ضرررسانی کی شدت کا اندازہ لگا کے بھی روح لرز لرز جاتی ہے ۔

۔۔ میں نے اس ضمن میں صورتحال کی بہتری و اصلاح کی غرض سے بہت تحقیق اور نہایت عرق ریزی سے ایک 23 نکاتی میثاق کراچی لکھا ہے جوتلافیء مافات کا رستہ کھولتا ہے اور اگر اسکے نکات پہ عملدرآمد کرلیا جائے تو کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی کوئی ضرورت نہیں وگرنہ کراچی کو الگ انتظامی صوبہ بنانے یا وفاق کے زیرانتظام کرنے کے علاوہ کوئی اور حل ہرگز قابل قبول نہیں رہے گا  ۔

۔۔۔
یاد رکھیئے اور جان لیجیئے کہ اگر اس خلاء کو جلد سے جلد اور مناسب ترین انداز میں پر نہ کیا گیا تو منفی قؤتیں اس خلاء کو پر کرنے کے لیئے آگے بڑھیں گی اور یوں ہمارے دین اور ملک  کی دشمن اندرونی و بیرونی طاقتوں کو اپنے گھناؤنے کھیل کھیلنے کا ایسا موقع ہاتھ آجائے گا کہ جس سے فائدہ اٹھا کر وہ کراچی کو ملک سے الگ کرنے کے ہدف پہ سرگرمی سے جت جائیں گی ۔

۔۔ ویسے بھی کشمیر کو ہڑپ لینے کے اقدام پہ پاکستان کے احتجاج کی سزا دینے کے لیئے بھارت کو اس سے اچھا موقع اور کیا ہاتھ آئے گا ۔۔۔ خصوصاً جبکہ یہاں اپنوں کی سرد مہری نے مشرقی پاکستان جیسا خوفناک احساس محرومی والی صورتحال کو نہ صرف جنم دے رکھا ہے کیونکہ ملازمتوں اور وسائل کی شرمناک حد تک غیرمنصافانہ  تقسیم کے بالکل ویسے ہی اعداد و شمار یہاں بھی موجود ہیں بلکہ اس میں روز افزوں اضافے یہ یہ معاملہ گھمبیر تر اور نہایت خوفناک ہوچلا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اب اس بے سفاکانہ سرکاری نیازی کی وجہ سے دہشت کے لندن بیٹھے دیوتا کے لیئے یہاں پھر گنجائش بڑھتی جارہی ہے ۔

۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکار اپنا گھٹنا اس ظلوم کے نرخرے سے ہٹالے اور جان لے کہ اب مکمل اخلاص کے ساتھ اس طبقہء آبادی کی آئینی و قانوی تلافی ہی اس کی اشک شوئی کا باعث بن سکتی ہے ورنہ باقی جو بھی کچھ ہے اسکی حقیقت محض  بھاشن بازی  اور ڈرامے بازی سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور یہ سب صورتحال وطن عزیز پاکستان کے استحکام کے لیئے ایک حقیقی وسنگین ترین خطرہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :