نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم

بدھ 15 جولائی 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

اپنا گھر ہر کسی کا خواب ہوتا ہے۔ لوگ عمر بھر محنت کر کے اس خواب کو پائے تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔اور بہت سے لوگوں کا تو یہ خواب بس ایک خواب ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلے ذولفقار بھٹو نے اعلان کیا کہ ہر کسی کو اپنا گھر فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی 2018 کے الیکشن منشور میں پچاس لاکھ نئے گھر بنانے کا اعلان کیا۔

اس سکیم کو نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا نام دیا گیا۔ الیکشن کے وقت بہت  سے لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت یہ گھر مفت فراہم کرے گی۔ لیکن ظاہری بات ہے مفت گھر تو کہیں بھی نہیں ملتے۔ حکومت اگر کسی پروجیکٹ کا اعلان کرتی ہے تو اس کا بنیادی مقصد کچھ سبسیڈی کے ساتھ لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)


حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم پر کام شروع کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی کی بھاگ دوڑ برطانیہ کے ایک بزنس مین انیل مسرت کے حوالے کر دی۔

اس تقرری پر بھی بہت واویلا مچا کہ جو شخص پاکستان کے بارے میں جانتا نہ ہو وہ کیسے پچاس لاکھ گھر بنائے گا۔ انیل مسرت نے ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں ایک پلان پیش کیا جس میں یہ کہا گیا کے اس پروگرام کے تحت سستے اور مہنگے دونوں گھر بنائیے جائیں گے۔اور یہ بھی کہا اس سکیم کے آخری بننے والے گھروں کی مالیت کروڑوں میں ہوگی ۔
وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں میڈیا سے گفتگو کے دوران نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے پچاس لاکھ گھروں کے پہلے حصے یعنی ایک لاکھ گھروں پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا۔

اس اعلان کے مطابق بینکس لوگوں کو گھر بنانے کے لیے قرضے فراہم کرے گا۔ یہ قرضے کم سود پر جاری کیے جائیں گے۔ اس وقت پاکستان میں سود کا ریٹ سات فیصد ہے لیکن بینک 5 مرلہ گھر بنانے کے لیے قرض پانچ فیصد جبکہ دس مرلہ گھر بنانے کہ لیے قرض سات فیصد سود پر دے گا۔ پاکستان میں اس سے قبل بینک گھر بنانے کے لیے بہت کم قرضے فراہم کرتا تھا۔ آب حکومت نے بینکوں سے کہا ہے کے وہ پانچ فیصد قرضے لوگوں کو گھر بنانے کے لیے فراہم کرے۔


حکومت نے اس سکیم کو بنانے کے لیے کنسٹرکشن انڈسٹری کو بجٹ میں بھی بہت سی مراعات دی ہیں۔ اس سکیم کے اعلان کے بعد مزید مراعات بھی دے دی گئی ہیں۔ آب این اؤ سی اور نقشہ پاس کرنے کے لیے آنلائن نظام متعارف کروایا جائے گا۔ جس سے کام کی رفتار میں تیزی آئے گی۔ حکومت اس سکیم پر اکتیس ارب روپے کی سبسڈی دے گی۔ جس سے بیس لاکھ میں بننے والے گھر کی لاگت کم ہو کر سترہ لاکھ ہو جائے گی۔

اس سکیم میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ گھر بنانے والے سے ذرائع امدن کا بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ اس سکیم سے اکتیس دسمبر تک فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔ یہ سکیم غریبوں کے لیے تو نہیں لیکن مڈل کلاس طبقے کے لیے گھر بنانے کا ایک اچھا موقع ہے۔
عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس ملک کو مدینہ کے ریاست کے اصولوں پر چلانا چاہتے ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہ خود لوگوں کو ترغیب دے رہیں ہیں کہ وہ سود کے پیسوں سے اپنا گھر بنائیں۔

سود کے بارے میں اسلام کا حکم بھی انتہائی سخت اور واضح ہے۔ جھوٹ،چوری ،قتل، فراڈ اور دوسری بہت سی گناہ کبیرہ کے بارے میں سخت عذاب کا حکم ہے لیکن یہ واحد سود ہے کہ جس کے خلاف اللّٰہ نے اعلان جنگ کیا ہے۔کیوں کہ سود امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب بنا دیتا ہے۔ ماضی میں عمران خان کی صوبائی حکومت نے نوجوانوں کے لیے قرضہ حسنہ کی ایک سکیم متعارف کروائی تھی۔

اور اُمید کے جارہی تھی کہ گھر بنانے کے لیے بھی کچھ اس قسم کی سکیم ہوگی۔مگر اس سکیم کے آنے کے بعد عمران خان کے اپنے بہت سے  سپورٹر بھی مایوس ہوئے۔
معاشی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو بینک قرض دینے کے لیے پراپرٹی گروی رکھواتا ہے۔ بینک قرضوں کی اقساط کی واپسی کے لیے ایک پلان مرتب کرتا ہے اور وقت پر اقساط جمع نہ کرنے والوں کی پراپرٹی ضبط کر لیتا ہے۔

آب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی فی کس آمدنی بھی کم ہے۔ بیروزگاری بھی بہت زیادہ ہے اور مہنگائی بھی اپنے عروج پر ہے۔ اب ان حالات میں اگر کوئی مڈل کلاس شخص قرضہ لےگا تو قسطیں کہاں سے بھرے گا۔ قسطیں نہیں بھرے گا تو پراپرٹی ضبط ہوگی اور جو قسطیں جمع کی ہیں وہ رقم بھی  سود کے وجہ سے چلی جائے گی۔اس قسم کا ایک منصوبہ امریکا میں 2000 کے اوائل میں شروع ہوا۔

لوگوں نے بینکوں سے قرض لے کر گھر خریدے اور اقساط جمع نہ کرنے کے وجہ سے ڈیفالٹ کر گئے۔ اس وجہ سے امریکہ میں ایک بحران کھڑا ہوا کیوں کہ جب بہت سے لوگ ڈیفالٹ کر گئے تو بینکوں کے ساتھ گھروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اور اس اضافے کے وجہ سے گھروں کے قیمتیں گر گئیں۔ آب گھر زیادہ تھے اور خریدار کم ۔ اس کے نتیجے میں بہت سے امریکی بینک دیوالیہ ہوگئے۔

اور 2008 میں یہ بحران گلوبل اکنامک کرائسس کی شکل اختیار کر گیا۔ پھر امریکہ کی حکومت نے اپنے پیسوں سے بہت سے بینکوں کو بیل آؤٹ پیکج دیا اور انکو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ آب خدا نخواستہ اگر پاکستان میں اس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں تُو حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ ان بینکوں کی مدد کر سکے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم مڈل کلاس لوگوں کے لیے ایک اچھا موقع ضرور ہے مگر یہ انتہائی رسکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :