جمہوری رویے

بدھ 29 جولائی 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

پاکستانی جمہوریت کبھی سنبھل نہ سکی۔ ہر وقت یہ الفاظ سننے میں آتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔  اور نظام خطرے میں ہے۔ آب سوچ کی بات تو یہ ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان میں  مسلسل دو منتخب حکومتیں اپنا وقت پورا کر چکی ہیں اور جمہوریت کو بحال ہوئے بارہ سال ہو چکے ہیں۔لیکن آب بھی یہ جمہوریت ائی سی یو کے وینٹیلیٹر پر پڑی ہے۔

اور کسی بھی وقت ایک بار پھر اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
اس کمزور اور بے بس جمہوریت کی اصل وجہ جمہوری رویوں کی کمی ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ دوسو سے زائد پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں اکثر پارٹیاں تو بس نام ہی کی پارٹیاں ہیں کیوں کہ آئین پاکستان سب کو تنظیم سازی کی اجازت دیتا ہے۔ ان پارٹیوں میں تین پارٹیاں ملکی سطح پر مقبول ہیں اور باقی پارٹیاں کچھ خاص علاقوں میں مقبولیت رکھتی ہیں۔

(جاری ہے)

آب اگر ان سیاسی پارٹیوں پر نظر ڈالی جائے تو ان پارٹیوں کے اندر  بذاتِ خود کوئی جمہوریت موجود نہیں ہے۔صرف جماعت اسلامی پاکستان اور ایم کیو ایم پاکستان وہ سیاسی جماعتیں ہیں جن میں پارٹی سطح پر جمہوریت موجود ہے اور ایک عام ورکر بھی محنت کر کہ پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے۔
جب ہم اصل جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے برطانیہ کی مثال پیش کی جاتی ہے۔

برطانوی جمہوری نظام میں کوئی شخص وزیر اعظم سے زیادہ پارٹی کا سربراہ منتخب ہونا پسند کرتا ہے۔حال ہی میں برطانیہ میں جب الیکشن کے بعد لیبر پارٹی کو شکست ہوئی تو لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کاربن نے پارٹی کے سربراہ کے حیثیت سے استعفیٰ دے دیا اور پارٹی کی کمان کسی اور کے حوالے کر دی۔لیکن ہمارے جمہوری نظام کی تو کہانی ہی عجیب ہے۔یہاں پیپلز پارٹی بلاول کے بچے کا انتظار کر رہی ہے۔

تاکہ انہیں نیا لیڈر مل سکے۔ پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما اعتزاز احسن نے ایک انٹرویو میں افسوس سے کہا کہ وہ پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم تو بن سکتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین نہیں بن سکتے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کا بھی یہی حال ہے۔ وہاں بھی انتہائی سینئر لیڈران کی موجوگی میں مریم نواز کو ایک ورکر کی بجائے ایک لیڈر کے روپ میں لانچ کیا گیا۔

جو یقیناً سینئر رہنماؤں کے لیے قابل تکلیف تھا مگر پاکستان میں بلیو بلڈ پولیٹکس کی وجہ سے وہ کچھ  کہہ نہیں سکتے۔کچھ کہیں گے تو حال چودھری نثار والا ہوگا۔
پاکستانی نوجوان نسل میں سیاسی شعور پیدا کرنے والی تحریک انصاف بھی ان دو جماعتوں سے کم نہیں ہے۔ 2013 کے الیکشن سے پہلے عمران خان نے ایک پارٹی آئین پیش کیا جس میں یہ کہا گیا کہ تحریک انصاف کا چیئرمین تین سال کے لیے منتخب ہوگا اور صرف دو بار منتخب ہوگا۔

مگر پھر خود عمران خان نے اس آئین کو معطل کیا اور خود تاحیات پارٹی چیئرمین بن گئے اور آب وہاں بھی ایک شخص کی امریت قائم ہوگئی ہے۔ جب کوئی عمران خان کو ہٹانے کی بات کرتا ہے تو پارٹی کے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ پارٹی تو ہے ہی عمران خان کی اور پارٹی کا نام عمران خان پارٹی رکھ لیں۔
اصل جمہوریت کے لیے جمہوری رویوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوری نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔

آب پارٹیوں کے جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے لیے دو چیزیں بہت لازمی ہیں۔پہلا یہ کہ دو بار سے زیادہ وزیر اعظم بننے پر پابندی لگا دی جائے۔اس سے یہ ہوگا کہ کوئی بھی شخص چاہے جیتنا بھی مضبوط کیوں نے ہو دو بار وزیر اعظم بننے کے بعد آرام سے گھر چلا جائے گا اور پھر پارٹی کو الیکشن جیتنے کے لیے نئے لیڈر کی ضرورت درپیش ہوگی۔ اس کا ساتھ ساتھ پارٹیوں کو ایک اخلاقی قدم اٹھانا چائیے کہ جو شخص پارٹی بدلے گا اسے آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹ نہیں دیا جاۓ گا۔

اس طرح مفاد پرست ٹولہ سیاسی فائدے اٹھانے محروم ہو جائے گا۔
جمہوریت جو کہ بنیادی طور پر خود بہت بڑھا ادارہ ہے۔اس لیے جمہوریت کی ترقی کے لیے عوام کی تربیت بھی لازم ہے۔تربیت کے لیے سب سے اہم جگہ تعلیمی ادارے ہیں۔ اسکول اور کالج میں تو بچوں کی عمر کام ہوتی ہے البتہ یونیورسٹی میں طلباء کی جمہوری ذہن سازی کرنی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے پابندی زدہ سٹوڈنٹ فیڈریشن کو بحال کرنا ہوگا۔

اس سٹوڈنٹ فیڈریشن کو آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ماڈل کے تحت بحال کرنا بہت بہتر ہوگا۔ ان فیڈریشن کی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی پر پابندی لگائی جائے اور صرف سیاسی نظریات مثلاً لبرلزم، کمیونزم، سوشلزم اور کیپٹلزم وغیرہ پر سیاست کی اجازت دی جائے۔ہر یونیورسٹی میں ایک مکالمے کی سوسائٹی بنائی جائے جس میں ہر نظریے کے طلباء اپنا نظریہ دوسرے طلباء کے سامنے پیش کریں۔


ووٹ کی حرمت کو بحال کرنے کے لیے ہر کلاس میں ہر ایک سیمسٹر کے بعد کلاس کے قائد یعنی سی آر کے انتخاب کے لیے الیکشن کروایا جائے۔اور سی آر کی مدت کو ایک سیمسٹر تک محدود کیا جائے۔اس سے یہ ہوگا کہ اگر کی بندہ پسند نہ پسند کی وجہ سے غلط آدمی کو ووٹ دیگا تو ایک سیمسٹر تک اس کے کام متاثر ہونگے اور اگلے سیمسٹر میں وہ یقیناً ایک اہل آدمی کو ووٹ دیگا۔

اس عمل کی وجہ سے کلاس میں جمہوری فضا قائم ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ کسی ایک شخص کی اجارہ داری بھی نہیں بنے گی اور عام انتخابات میں قابل اور اہل لوگوں کو ووٹ دینے کی تربیت بھی ہوگی۔
عام انتخابات ایک بہت بڑھی چیز ہے اور کسی کلاس کے انتخابات سے عام انتخابات کے صحیح ہونے کی امید لگا دینا بہت مشکل ہے لیکن اگر ہمیں اصلی جمہوریت چاہئے تو ہمیں آغاز اس چھوٹے لیول سے کرنا ہوگا اور جمہوری رویوں سے طلباء کو روشناس کرنا ہوگا۔ اگر یہ طریقہ کار تمام یونیورسٹیوں میں رائج ہوگیا تو یقیناً اس سے جمہوری رویے پروان چڑھے گے اور یہ چھوٹا سا قطرہ ایک دن بڑے پتر کو ضرور توڑ ڈالے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :