یہ وزارت اطلاعات ہے، کوئی اندر آکر بچ کر دکھائے

جمعرات 30 اپریل 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرنا اور صحافیوں کے سامنے حکومت کا خلوص ثابت کرنا کسی ماہر یا بھلے مانس انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی لیے اب وزیر اطلاعات کی جاب کے لیے اِس سے مختلف صلاحیتوں کا مالک ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ مختلف صلاحیتوں کے باوجود بھی وزیر اطلاعات صحافیوں اور اپنی حکومت دونوں کے شدید دباؤ اور تنقید کے نرغے میں آجاتے ہیں۔

روایت کے مطابق اس عہدے پر موجود افراد کو تھوڑے عرصے بعد ہی ویسے ہی بدلنا ضروری ہوجاتا ہے جیسے انجن میں لگے فلٹر کو بدلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ہماری وزارت اطلاعات کی ہسٹری میں شیری رحمان جیسا شاید ایک آدھ ہی ایسا واقعہ ہوا ہو جب وزیر اطلاعات نے آزادی صحافت پر دباؤ کے خلاف اپنی وزارت اطلاعات سے استعفیٰ دیا ہو اور اس جرات پر عزت بھی حاصل کی ہو۔

(جاری ہے)

فردوس عاشق اعوان کا پی ٹی آئی میں وارد ہونا ایسا ہی تھا جیسے سی ایس ایس کا مشکل امتحان پاس کرنے اور سخت تربیتی عمل سے گزرنے کے بعد ملک کا انتظام چلانے والی بیوروکریسی میں کوئی اِس تمام عمل سے گزرے بغیر براہِ راست وارد ہو اور پرانے تربیت یافتہ افراد کو اپنی ڈرامائی صلاحیتوں کے زعم پر مرعوب کرنے کی کوشش کرے۔ اس لیے فردوس عاشق اعوان کوتو جانا ہی تھا، سو وہ چلی گئیں۔

ان کے جانے کی دوسری وجہ عمران خان کا وہ بے چین مزاج ہے جس پر ان کا اپنا بھی اختیار نہیں ہے۔ وہ ان سے تو ناخوش ہوتے ہی ہیں جو انہیں ناخوش کرتے ہیں لیکن وہ ان سے بھی جلد ناخوش ہو جاتے ہیں جو انہیں خوش رکھنے کی ہرناجائز کوشش بھی کرتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کے جانے کی تیسری وجہ وہی ہے جس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا یعنی حکومت کی ناقص کارکردگی اور ناکام فتوحات کا ملبہ وزیر اطلاعات پرہی گرتا ہے کیونکہ غریب عوام کے ٹیکسوں پر چلنے والی حکومت جب اپنے وعدے اور دعوے پورے نہ کرسکے تو کوئی حساب لے یا نہ لے لیکن صحافی ضرور حساب لیتے ہیں۔

ایک فردوس عاشق اعوان کے جانے کے بعد سینیٹر شبلی فراز اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ جیسی دو دیوہیکل شخصیات لائی گئی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دو پہلوانوں کو ایک ہی اکھاڑے کا نظام سونپنے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے ردعمل پر کس حد تک پریشان ہے۔ دوسری بات یہ کہ گزشتہ 20ماہ میں اگر حکومت اپنی حقیقی کارکردگی نہیں دکھا سکی تو اِن دو مہاشخصیتوں کے آنے کے بعد وہ فی الفور اپ ٹومارک کیسے ہو جائے گی؟ تیسری بات یہ کہ حکومت کی کارکردگی جیسی بھی ہوگی یہ دونوں شخصیات خلوص نیت سے اُسے بڑھا چڑھا کر شاندار کھیل پیش کرنے کی کوشش کریں گی۔

چوتھی بات یہ کہ بھاری بھرکم وزن والی شخصیات کا اثر کچھ دیر تو برقرار رہتا ہے لیکن حتمی نتیجہ حکومتی کارکردگی کے نمبروں پرہی نکلتا ہے۔ پانچویں بات یہ کہ کارکردگی کے نمبروں پر اگر حکومت ایک مرتبہ پھر فیل ہوگئی تو شبلی فراز اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ جیسی ماہر اور شریف شخصیات کو حسبِ روایت عہدوں سے ہٹایا جائے گا یا وہ خود اس جاب سے معذرت کرلیں گی؟ شبلی فراز اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی اطلاعات کے میدان سے جڑی نئی ذمہ داریوں میں کچھ دوسری نوعیت کے رسک بھی شامل ہیں۔

پہلے سینیٹر شبلی فراز کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کی تقرری پر حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور زیادہ تر میڈیا والے بھی مطمئن ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کے فوراً بعد ایک پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی شخصیت کو وفاقی وزیر اطلاعات کا قلمدان دیا گیا ہے۔ یہاں یہی بات تشویش کی بھی ہے کیونکہ وزیر اطلاعات کو اپنی چادر سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ شبلی فراز پڑھے لکھے سلجھے ہوئے مزاج والے ہیں۔

وزارت اطلاعات کے قلمدان میں ایسی نفاستوں کا ذکر فرش پر ڈُلے دہی کی مانند ہی ہے۔ وزارت اطلاعات سے واپسی پر کیا شبلی فراز اپنے ساتھ عزتِ سادات لے جاسکیں گے؟ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ ایک شاندار فوجی کیریئر گزارکر آئے ہیں۔ ان کے اِس کیریئر میں بطور ڈی جی آئی ایس پی آر ایک مثال ہے۔ اس دوران انہوں نے ملک کے اندر دہشت گردی اور سرحدوں کے پار کی جارحیت دونوں کے خلاف میڈیا وارفیئر میں جھنڈے گاڑے۔

جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے تقریباً 35 برسوں پر مبنی ملٹری کیریئر میں ان کا آئی ایس پی آر کا عرصہ تقریباً 4برس کا ہے۔ اس طرح انہوں نے 31برس پیشہ ورانہ فوجی اور سیکورٹی کے امور کے ماحول میں بہترین حیثیت میں گزارے ہیں۔ لہٰذا ان کی اصل شناخت ایک شاندار فوجی افسر کی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سی پیک اتھارٹی کا پہلا چیئرمین مقرر کیا گیا۔

ان کے تقرر سے سی پیک پر تیزی سے پروگریس کی امید پیدا ہوئی۔ اب انہیں وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے اطلاعات بھی مقرر کردیا گیا ہے۔ ابھی یہ بات واضح نہیں کہ کیا وہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات دونوں ذمہ داریاں نبھائیں گے اور دونوں سے یکساں انصاف کرپائیں گے یا ایک کا انتخاب کریں گے۔ ان کی اِس نئی تقرری سے چار سوالات ذہن میں آتے ہیں۔

پہلا یہ کہ اگر انہوں نے صرف نئی ذمہ داری نبھانے کا فیصلہ کیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سی پیک جیسا منصوبہ کھٹائی میں پڑگیا ہے؟ دوسرا یہ کہ معاون خصوصی برائے اطلاعات کے طور پر کیا وہ ان خبروں کے خفیہ طور پر لیک ہونے کا موثر سدباب کرنے کے لیے لائے گئے ہیں جن کے لیک ہونے پر حکومت سے زیادہ سیکورٹی اداروں کو پریشانی ہوتی ہے؟ تیسرا یہ کہ آئی ایس پی آر کے ڈی جی کے طور پر انہیں عوام اور صحافیوں کی طرف سے جو سازگار ماحول ملا تھا اس کی ایک وجہ اِن سب کی ملکی دفاع سے محبت بھی تھی لیکن پی ٹی آئی کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بننے کے بعد انہیں صحافیوں، پریشان حال عوام اور اپوزیشن کے مارٹر گولوں کا شدید سامنا رہے گا جبکہ حکومت کی سپلائی لائن بھی شرمندگی کا باعث ہوسکتی ہے۔

چوتھا یہ کہ مستقبل میں آٹا چینی اور بجلی گھروں کے مافیا جیسے جن خوفناک سکینڈلوں کے مقدمات چلنے کا امکان ہے اُن کے ملکی اور بالخصوص غیرملکی میڈیا دفاع کے لیے ایک سابق پیشہ ور دفاعی افسر کی بلند قدوقامت شخصیت سے فائدہ اٹھانے کا رسکی تجربہ کیا جارہا ہے۔ پورے تجزیئے کے بعد یہی کہ وزارت اطلاعات کا مقصد حکومت کو ہرحال میں درست اور اے ون ثابت کرنا ہوتا ہے۔

دوسری طرف میڈیا اہم کام تفتیشی اور تحقیقی صحافت کا بھی کرتا ہے اور عین اسی وقت میڈیا کو رکاوٹوں اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شبلی فراز اپنے من موہنے مزاج کی بدولت صحافیوں سے محبتی رشتہ استوار رکھنے کی کوشش کریں گے اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اپنی بھرپور شخصیت کی بناء پر ملکی اور خاص طور پر غیرملکی صحافیوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ کوششیں ایسی ہی ہیں جیسے دریا کے دو کناروں کو ملانا۔ اسی بناء پر اب تک کے سب معاونین خصوصی یا وزرائے اطلاعات اپنی دوڑ درمیان میں چھوڑ کر چلتے بنے۔ اکتوبر 2016ء میں بھارتی سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ بے نقاب کرنے کے لیے جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ صحافیوں کو لے کر اُس مقام پر گئے تو ان کی گفتگو کا ایک ایک جملہ بہت مشہور ہوا۔ خاص طور پر ان کا یہ جملہ ہیرو کے جملے کی طرح سنا اور دہرایا گیا جو انہوں نے بھارتی فوج کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ پاکستان آرمی ہے، کوئی اندر آکر بچ کر دکھائے“۔ ہم وزرائے اطلاعات کی ہسٹری پڑھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”یہ وزارت اطلاعات ہے، کوئی اندر آکر بچ کر دکھائے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :