ہمارے معاشرے کیلئے چند صحتمند پیشوں کی ضرورت

بدھ 20 مئی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

ہمارے معاشرے میں چند پیشوں(professions)کی بے جا طور پر بہتات ہے ،مثلاً ہمارے شہروں اور بازاروں میں کھانے کی دُکانوں اور ڈھابوں کا ایک رش دکھائی دیتا ہے جو کہ لوگوں میں بے ہنگم اور بِلا ضرورت کھانے کے رُجحان اور لوگوں کی کھانے پینے کی عادت کو بطور انٹرٹینمنٹ لینے کو ظاہر کرتاہے۔ اِسی طرح سے ہمارے معاشروں میں جوتوں ،کپڑوں کی دُکانیں بھی ضرورت سے زیادہ ہیں۔

اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہر شخص کے پاس جوتوں اور کپڑوں کے پانچ،پانچ اور آٹھ ،آٹھ جوڑے مُوجود ہیں،اور اِس پر مذید غضب کی بات یہ ہوتی ہے کہ ہمارے لوگ ہر عید اور تہوار پر نئے کپڑے اور جوتے خریدنے کو عین عبادت سمجھتے ہیں۔
ہم پاکستانی اگر انفرادی طو رپر اِن تین شعبوں (کھانے پینے، کپڑے ،جوتے) پر خرچ کی جانے والی سالانہ آمدن کا تخمینہ لگائیں تو یہی رقم ہم لوگ اپنی سِکل ڈویلپمنٹ یا اپنی بچت میں اضافہ کے لیے بھی اِستعمال کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اور اگر ہم لوگ اِس trendکو اپنائیں تو عین مُمکن ہے کہ اِن چند شعبوں(کھانے پینے، کپڑے، جوتے) سے وابستہ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔اِس لیے اِس اندیشے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں چند نئے، مفید اورصحتمند پیشے(healthy professions)متعارف کروانا چاہتاہوں جو کہ میں نے اپنے بیرونِ مُلک قیام کے دوران اور باقی دنیا کے سفر کے دوران دیکھے۔
یہ چند نئے پیشے پہلے پیش کردہ پیشوں (کھانے پینے، کپڑے ،جوتے)کا کسی حد تک متبادل ہو سکتے ہیں اور سوسائٹی کے رہن سہن ، تہذیب وتمدن اور پرفارمنس میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔

اِن نئے پیش کردہ پیشوں میں سے کچھ پیشوں کو حکومت سپونسر کر سکتی ہے اور باقی چند شعبے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت شروع کیے جاسکتے ہیں۔
مثلاً اِس سلسلے میں ایک پہلا شُعبہ جو میں متعارف کروانا چاہتا ہوں وہ ہے عجائب گھر یا میوزیم۔ یقین کیجئے ہمارے ملک میں میوزیمز کی شدید کمی ہے ہمارے چند ایک بڑے شہروں (لاہور، کراچی، اسلام آباد) کے علاوہ کہیں کوئی شاید ہی میوزیم ہو۔

اور اِن چند ایک موجودہ عجائب گھروں کی حالت بھی بہت ابتر ہے جہاں نہ تو کوئی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کی گیلیریز ہیں اور نہ ہی مینجمنٹ یا Maintenanceکا کوئی مناسب اِنتظام موجود ہے۔ جبکہ اسکے برعکس چائنہ کے بڑے شہروں )شنگھائی، نانجنگ،گوانگزو)اور اِسی طرح سنگاپور، لندن اور ہانگ کانگ میں کئی میوزیمز )نیشنل میوزیم،سائنس میوزیم،Marine Museum)موجود ہیں،یہ میوزیم اِن شہروں کی تاریخ، جغرافیہ، کلچر، رہن سہن، ترقی کا سفر، جنگوں کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔

اِس سلسلے میں نیشنل میوزیم سنگاپور، ائیر فورس میوزیم لندن، اور سائنس میوزیم شنگھائی میری زندگی کا بہترین تجربہ رہے ہیں۔
چائنہ میں رہتے ہوئے میں نے بڑے اور درمیانے درجے کے شہروں (Zhongshan, Zhuhai, Dalian, Yangjiang)میں ایک دو میوزیم دیکھے ہیں جو اِن شہروں کی تاریخ اور تہذیب کی رُوداد سناتے ہیں۔اِسی ٹرینڈ کو فالو کرتے ہوئے ہماری حکومت بھی اپنے تئیں یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اِس پراجیکٹ کو شروع کر سکتی ہے اور ہر ڈسٹرکٹ یاکم ازکم ہر ڈویژن کی سطح پرکوئی میوزیم یا عجائب گھر بنواسکتی ہے۔

یہ رجحان لوگوں کو اپنی تاریخ اورکلچرسے جوڑنے کیساتھ ساتھ معاشرے میں ماضی کی اچھی عادات اور روایات کو بھی پروان چڑھا سکتاہے۔ اِن میوزیمز کے تحت طلبہ کو سائنس کے اُصولوں کی demostrationدی جا سکتی ہے اور اُنہیں ریاضی اور فلکیات کے بہت سے قوانین بھی بتائے جاسکتے ہیں۔
نئے پیش کیے جانیوالے دیگر پیشوں کے زُمرے میں دوسرا پیشہ ہے پاک ٹی ہاؤس کی طرز پر ٹی ہاؤسز اور انٹرنیشل سٹینڈرڈ کافی شاپس ہیں۔

یہ ٹی ہاوسز اور کافی شاپس بڑی ہی صاف ستھری ہونی چاہیں،جہاں ادیب، دانشور، پروفیسرز، لکھاری، شاعر حضرات آسکیں اور علمی وادبی محفلیں اور بحث ومباحثے مُنعقد کروائے جاسکیں۔لاہور کے انارکلی بازار کے پاس پاک ٹی ہاؤس کی شکل میں اَدب اور فن کو پروان چڑھانے کی ایک عُمدہ بنیاد یا درس گاہ واقع ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اِس رُجحان کو مذید بڑھایا جاتا اور مذید شہروں میں اِس طرز پر ٹی ہاوسز اور کافی شاپس بنائی جاتیں جہاں لوگ جا کر بیٹھ سکتے اور علمی و ادبی سرگرمیاں سرانجام دی جا سکتیں،یا ایک کوالٹی ٹائم گُزارا جاسکتا۔

اسی طرز کی کافی شاپس اور اِن میں علمی وادبی بحث ومباحثے اور Short lecturesمیں نے اپنے چائنہ میں قیام کے دوران دیکھے۔ہم لوگ بھی اس ٹرینڈ کو اپنا سکتے ہیں اور اپنی پرائیویٹ انڈسٹری کو اِس بزنس میں شامل کر سکتے ہیں۔
تیسری قسم کے نئے بزنس جنکی میں سمجھتا ہوں کہ اشد ضرورت ہے وہ ہیں جمنیزیم یا فٹنس کلب،جہاں لوگ جا کر ایکسرسائز یا گیمز(ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن، سکوائش )کھیل سکیں۔

ہمارے معاشرے میں کھیلوں اورورزش کا رُجحان بتدریج کم ہوتا جارہا ہے،اور ساتھ ہی ساتھ پارکس، جاگنگ ٹریکس اور فٹنس کلبز بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔اِسکی ایک وجہ لائف سٹائل میں تبدیلی، جبکہ دوسری وجہ اِن پارکس ، جاگنگ ٹریکس پر بنائے جانیوالی کمرشل بلڈنگز ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بزنس مین کیلیے Gymnsiam/Fitness clubبنانے کی بجائے کوئی دُکان یا شاپنگ سٹور بنانا زیادہ مُنافع بخش کاروبا ر ہے۔

جبکہ اِسکے برعکس ترقی یافتہ شہروں میں بڑے اور جدید Fitness centersکھولے جاتے ہیں جن سے لوگوں کو بآسانی صحت برقرار رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ہماری حکومت بھی لوگوں کی صحت اور فٹنس کا خیال رکھتے ہوئے اِس شعبہ کو سہولیات فراہم کر سکتی ہے جس سے لوگوں کو بہتر صحت کیساتھ ساتھ ایک نئی قسم کا کاروبار بھی معاشرے میں پروان چڑھ سکتا ہے۔
چوتھی قسم کا بزنس جو میں سمجھتا ہوں کہ اِنتہائی ضرورت کا حامل ہے وہ ہے Fire Fighting Training۔

میری ناقص رائے کے مطابق آگ بجھانے کی تربیت ہر سکول جانیوالے بچے ، اُستاد، دفتر ملازم اور دُکان پر کام کرنیوالے شخص کو ہونی چاہیے،بلکہ یہاں تک کہ Basic firefighting trainingہر پاکستانی شہری کو سکھائی جانی چاہیے۔یہ ہماری وہ نااہلی ہے جو کہ مُسلسل نظر انداز ہو پارہی ہے۔اگر آپ پچھلے 5-7سالوں میں آگ لگنے کے قومی سانحوں کو یاد کریں تو ہمیں یاد آئے گا کہ کس طرح لوگوں نے لاہور کے LDAپلازے سے جانیں بچانے کیلیے چھلانگیں لگائیں،اور کئی لوگوں کی تواِس کوشش میں جانیں بھی چلی گئیں۔

اسی طرح اگر اِس قوم کی یادداشت کمزور نہ ہوئی ہو تو اِس قوم کو احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر میں لگنے والی آگ سے 148لوگوں کی اموات یاد ہونی چاہیں۔مذید یہ کہ 31اکتوبر 2019کو ٹارزن قسم کے وفاقی وزیر شیخ رشید کی وزرات میں تیز گام میں لگنے والی آگ اور اُسکے نتیجے میں 75افراد کی اموات کے بعد آگ بجھانے کی ٹرینیگ کو قومی سطح پر لازمی قرار دینا چاہیے۔

میں تو اِس ضمن میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے ادارے کی کارکردگی پر حیران ہوں جسکی یہ بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ فائر فائیٹینگ کی بنیادی تربیت پاکستانی شہریوں کو دے ، جبکہ NDMAکی ویب سائٹ پر Fire Fightingسے متعلق صرف ایک ٹرینیگ وڈیو کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اِس وشعبے پر جنگی بُنیادوں پر جلد ازجلد توجہ دینا ہو گی وگرنہ دوسری صورت میں ہمیں پھر کسی بڑے سانحے کا انتظار کرنا ہو گا۔

دنیا میں کرایے کی سائیکلیں دینا ایک بہت بڑا کاروبار ہے،پورے یورپ ،آسٹریلیا ،چائنہ،جاپان اور سنگاپور میں OFO, MoBikeاورEasyBikeکے نام سے بے شمار Sharing bike companiesکام کررہی ہیں۔ہم یہ شئیرنگ بائکس کا ٹرینڈ پاکستان میں کیوں نہیں مُتعارف کرواسکتے۔ اب تو ہندوستان اور بنگلہ دیش جیسے مُلکوں میں بھی شئیرنگ بائکس کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔شئیرنگ بائکس کایہ رُجحان ایک طرف تو سستی سواری فراہم کرتا ہے وہیں دوسری طرف فضائی آلودگی میں کمی، اور جسمانی ورزش کا سبب بھی بنتا ہے۔

چائنہ میں رہتے ہوئے میں نے جب بھی شئیرنگ بائکس استعمال کی تو مجھے ایک گھنٹے کا ایک آرایم بی (RMB)کرایہ پڑتا تھاجو پاکستانی تقریباً22.5روپے بنتا ہے۔ہماری پاکستانی حکومت بھی اِس بزنس آئیڈیا کو اپنا سکتی ہے اور اپنے لوگوں کو ایک صحتمند اورمنافع بخش قسم کا کاروبار فراہم کرسکتی ہے۔
میں نے اپنے بیرونِ ملک قیام کے دوران چھٹی قسم کا جو کاروبار نوٹس کیا ہے وہ ہیںIndustrial Fairs۔

مختلف شہروں میں اُنکی پیداواری صلاحیت کے مطابق مُختلف قسم کے انڈسٹریل فئیرز منعقد کروائے جاتے ہیں۔جن کا مقصد اُن شہروں کی پیداوار(Products)کوقومی اور نین الاقوامی سطح پر متعارف کروانا ہوتا ہے۔اِن انڈسٹریل فئیرز کے دوران مختلف شعبوں،مثلاًٹرانسپورٹ، ائیرلائن،ہوٹل انڈسٹری سمیت مُختلف شعبوں میں نئی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاًچائنہ کے شہر گوانگزو میں Canton Fairکے نام سے ایک فئیر سال میں دو مرتبہ (مارچ اوراکتوبر)مُنعقد کروایا جاتا ہے جہاں پوری دُنیا سے لوگ اِس فئیر میں شرکت کیلیے آتے ہیں اور پورے شہر کے ہوٹلز کچھا کچ مہمانوں سے بھرے ہوتے ہیں اور کمرہ کرایہ پر لینا مُحال ہوا ہوتا ہے۔

ہماری حکومت بھی اسی طرز پر بڑے بڑے شہروں میں انڈسٹریل فئیرز منعقد کرواسکتی ہے،مثلاً فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کا سالانہ فئیر منعقد ہو جس میں فیصل آبا د میں بنائے جانیوالے کپڑے کی مُختلف ورائٹی لوکل اور انٹرنیشنل سطح پر متعارف کروائی جائے۔اِسی طرح مُلتان شہر میں آموں کا سالانہ فئیر منعقد کروایا جا سکتا ہے جس میں آموں کی مختلف قسموں کو لوکل اور انٹرنیشنل سطح پر متعارف کروایا جائے۔

اِسی طرح کا ایک فئیر سرگودھا کے کینوؤں کی مارکیٹ ویلیو کو لوکل اور انٹرنیشنل لیول پر بڑھانے کیلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔حکومت کو اب یہ با ت بھی ماننا ہوگی کہ اگر اِس مُلک کو ترقی کرنا ہے تو پھر ہمیں بزنس اور ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا، مُلک اب افغان جنگ یا طالبان جنگ کی طرز پر مذید ڈالروں کی بھیک سے نہیں چل پائے گا۔
سا تواں اور آخر ی بزنس جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے انٹر نیشنل سٹینڈرڈRecreational/Amusement park۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں Disneylandشنگھائی، یونیورسل سٹوڈیو سنگاپور یا Chimelong Amusement Park Gaungzhou/Zhuhaiکی طرز پر امیوزمنٹ پارکس بنائے جاتے ہیں جہاں پر لوگوں کو سستی اور معیاری تفریح فراہم کی جانی چاہیے۔جنوری 2019میں مجھے منٹوپارک لاہور میں مینارِپاکستان کے پاس جانے کا اتفاق ہوا جہاں مجھے ایک بورڈکو دیکھ کر نہایت افسوس ہوا جس میں وزیٹرز کیلیے مینارکے قریب جانے اور اِسکو چھونے سے منع کیا گیا تھا، جبکہ اِسکے برعکس مجھے گوانگزو کے IFCٹاور کے 70فلور پر فورسیزن ہوٹل میں بیٹھ کر کافی پینے کا تجربہ بھی ہوا ہے جہاں سے سارا گوانگزو شہر اور اِسکے درمیان بہتا ہوا دریا نظر آتا تھا۔

اور اِسی طرح مجھے لندن آئی کا تجربہ بھی ہوا جسکی 135میٹر کی اونچائی سے آپ پورے لندن شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔اسی طرح کا بوجھل پن مجھے کوالمپور کے Twin Towersکو دیکھتے ہوئے اور اسکے ٹاپ فلور پر لوگوں کے جاتے ہوئے ہوا،جب میرے ذہن میں فوراً یہ سوال آیا کہ کیا اِنکے لوگوں میں کیوں کوئی خودکش بمبار نہیں، جنکے ڈر سے اِن لوگوں کو بھی اتنی بُلندوبالا عمارتیں اورٹاورز بند کردینے چاہیں۔

میرے دُکھ کی یہی انتہا 1000میٹر اونچے بُرج دُبئی کو دیکھتے ہوئے بھی تھی۔بالآخر ہم لوگ اپنے ٹاورز ، نیشنل بلڈنگز اورlandmarksکوعوام کیلے کیوں نہیں کھول سکتے،جبکہ پوری دنیا نے اپنی نیشنل بلڈنگز اور ٹاورز کو عوام کے لیے کھول رکھے ہوتے ہیں۔کیا ہمیں اِس مُلک کو سکیورٹی کے نام پر سب کچھ بند کردینا چاہیے۔تو بس میں واپس اپنے ساتویں بزنس آئیڈیا پر آتا ہوں اور حکومت کو تجویز دینا چاہتا ہوں کہ وہ پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ساتھ مِلکرAmusementیا recreational projectsپر کام کرسکتی ہے۔

آپ یقین کریں پاکستانی معاشروں میں anxiety, frustrationاورcatharsisدن بدن بڑھتا جارہا ہے۔اِس قسم کے تفریحی پراجیکٹس عوام کی ذہنی اور جسمانی صحت کے ضامن ثابت ہوں گے۔
میں نے اپنی اِس تحریر میں اُن چند نئے پیشوں کا ذکر کیا ہے جنہیں ،ہمیں اپنی سوسائٹی میں پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سارے تقریباً نان ٹیکنیکل non-technicalشعبے ہیں،جبکہ میں اپنی آئندہ تحریر میں اُن چند ٹیکنیکل شعبوں کا ذکر کروں گا جن کی ہمیں مستقبل میں ضرورت پڑسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :