کرونا SOPsاور ہمارے ٹریفک و دیگر قوانین پر عمل درآمد

ہفتہ 6 جون 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

لاہور سے کراچی جانیوالی پی آئی اے کی بد قسمت فلائیٹ (پی کے 8308)کا معاملہ ،جس میں ابتدائی رپورٹ کے مطابق جہاں جہاز کے پائلٹ کی بلندی 3000فٹ ہونی چاہیے تھی وہاں اُسکی بلندی 7000فٹ تھی اور جہاں لینڈنگ کے دوران جہاز کی بلندی 1800فٹ ہونی چاہیے تھی وہاں اُسکی بلندی 3000فٹ تھی۔اور اِسی بلندی اور رفتار کو برقرار رکھنے کے دوران جہاز کا پائلٹ لینڈنگ گئیر کھو لنا بھول گیایا صحیح طریقے سے لینڈنگ گئیر نہیں کھول پایا۔

مذید یہ کہ جہاز کے پائلٹ نے کئی بار ائیر ٹریفک کنٹرولر کی ہدایات کو نظر انداز کیا اور لینڈنگ کے لیے جہاز کی جو بلندی ہونی چاہیے تھی وہ نہ رکھ پایا۔یہ ہماری قومی ائیر لائن کاپائلٹ تھا جو ایک کمرشل جہاز اُڑا رہا تھاجس میں لوگ، فیملیز،اور بچے سوارتھے۔

(جاری ہے)

آپ تصور کریں کہ اگر ہماری قومی ائیرلائن کا پائلٹ اِس طرح ائیر ٹریفک کنٹرولر اور سول ایویشن کی ہدایات اور SOPsپر عمل نہیں کر پایا تو ہم لوگ دیگر شعبوں کے معاملے میں SOPsپر کیا عمل کرواپائیں گے۔

جبکہ اِسکے بر عکس میں اگر دوبئی ائیرپورٹ کی بات کروں تو وہاں روزانہ 2000 کے قریب پروازیں اُترتی ہیں۔ یہ تمام پروازیں وہاں کے ایویشن قوانین پر عمل کرتی ہیں اور بڑے ہی محفوظ طریقے سے وہاں لینڈ کر رہی ہوتی ہیں۔جبکہ پاکستان کے سارے مُلک کے ائیرپورٹس کو مِلا کر بھی ایک دن میں 2000پروازیں نہیں اترپاتیں ، یقین مانیے ہمارے ائیرپورٹس تو باقی دنیا کے ائیرپورٹس کے مقابلے میں بالکل ویران دکھائی دیتے ہیں کیونکہ دنیا کے باقی بڑے شہروں کے ائیرپورٹس پر جہازوں اور ائیرٹریفک کا جس قدر رش ہوتا ہے ،پاکستانی ائیرپورٹس پر اُسکا عشرِعشیر بھی نہیں ہوتا، اور پھر بھی ہم اِن چند جہازوں کو بحفاظت نہیں لینڈ کرواپاتے۔


31اکتوبر 2019کا دن تیزگام ٹرین کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے ایک خطرناک حادثے کا شکار ہوگئی، جس میں ٹرین کی بوگیوں میں آگ لگ گئی اور اُس آگ کے نتیجے میں 75بے گناہ لوگ جھلس کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق ٹرین کی بوگیوں میں چند مسافروں نے آگ کے چولھے رکھے ہوئے تھے اور غالباً اُنہوں نے صبح کی چائے یا ناشتہ بنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اُن بوگیوں میں آگ لگ گئی اور پچہتر لوگو ں کی جانیں لے گئی۔

اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ ٹرین کی اِن بوگیوں میں مٹی کا تیل یا گیس کا چولہاکسطرح مسافر سامان کیساتھ لے آئے؟کیا مسافروں کا اِس طرح اپنے ساتھ آگ والے چولہے لے آنا ،ریلوے سیکورٹی یا ریلوے پولیس کی غفلت اور بد انتظامی کا نتیجہ نہیں ہے؟اِن جان بحق ہونیوالے لوگوں میں کتنی فیملیز، کتنے بچے اور کتنی خواتین ہوں گی؟کیا گیس یا تیل کے چولہے مسافر ٹرین میں لیکر آنا ایس اوپیز کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے؟کیا ریاست اِن ایس اوپیز پر عمل کروا کر 75مسافروں کی جانیں نہیں بچا سکتی تھی؟اور کیا آج تقریباً 7-8ماہ بعد اِس ٹرین حادثہ کی کوئی جامع رپورٹ منظرِعام پر آئی ہے؟ اگر نہیں تو میں یہ کیسے سمجھ لوں کہ فلائیٹ پی کے 8303کی رپورٹ منظرِعام پر آجائے گی؟ کیا اِن 75معصوم لوگوں کی جانوں کے بعد وزیرِریلوے کواخلاقاً مستعفیٰ ہو جانا چاہیے تھا؟
تیسرا واقعہ 31مئی 2020کو خانیوال سے لاہور جانیوالی ایک بس میں ہوا،جس میں ایک تیز رفتار بس ایک موٹر سائیکل سوار کو بچاتے ہوئے اورہیڈ پُل سے نیچے گِر گئی، جس کے نتیجے میں 6لوگوں کی موت واقع ہوئی اور 30کے قریب لوگ زخمی ہوئے جن میں کچھ لوگ شدید زخمی بتائے جاتے ہیں۔

یہ حادثہ بھی یا تو بس ڈرائیور یا پھر موٹر سائیکل سوار کی غلطی کا انجام ہو گا۔یہ سانحہ اِن دونوں میں سے کسی ایک کے SOPsپر عمل نہ کرنے کے سبب ہوا۔یہ تو ایک بڑا ہی معمولی واقعہ ہے جو ابھی میرے ذہن میں آیا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں ٹریفک قوانین کے حوالے سے آگاہی اور عمل درآمد سِرے سے ہے ہی نہیں۔ہم نے ٹریفک یا روڈ سیفٹی کو سِرے سے اہمیت دی ہی نہیں۔

حکومت اور ہمارے اداروں نے ٹریفک قوانین اور ٹریفک SOPsکو سِرے سے لاگو ہی نہیں کیا اور عوام کو ٹریفک قوانین کی پابندی کی عادت ہی نہیں ڈالی، یہی وجہ ہے کہ روڈ ایکسیڈنٹ کے حوالے سے پاکستان کی حالت بڑی ہی پریشان کُن ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی، موٹر سائیکل پر ہیلمٹ کی خلاف ورزی، اورسپیڈنگ، خطرناک اورٹیکنگ اور 18سال سے کم عمر بچوں کی ڈرایئونگ کو تو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سمجھا ہی نہیں جاتا۔


سول ایویشن قوانین اور SOPs، ریلوے قوانین اورSOPsاور ٹریفک قوانین وSOPs، اِن سب کے موجود ہوتے ہوئے ، میں نے اِن قوانین اور SOPsپر عمل درآمد کے حوالے سے آپ کو آگاہ کیا۔ اِن تمام شعبوں کے قوانین ، ہدایات نامے اور SOPsموجود ہیں، لیکن اِن سب کے باوجود ریاست اِن ایس او پیز پر عمل نہیں کروا پا رہی ہے جبکہ اِن ہدایات پر عمل کروانا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔

تمام مہذب دنیا کے مُمالک اور دیگر ترقی پذیر مُلکوں(مثلاً چائنہ وغیرہ)میں اِن قوانین اور ایس او پیز پر بڑے بھرپور طریقے سے عمل ہو رہا ہے۔جبکہ یہ صرف ریاستِ پاکستان ہی ہے جو اپنے شہریوں سے اِن SOPsپر عمل درآمد نہیں کرواپا رہی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اگر حکومتِ پاکستان ایویشن ایس اوپیز، ریلوے ایس او پیز اور ٹریفک ایس او پیز پر عمل درآمد ممکن نہیں کرواپا رہی تو یہ کرونا وبا کے خلاف تاجر برادری، مذہبی اجتماعات، ٹرانسپورٹ، ٹوارزم اور ہوٹل انڈسٹری سے کرونا SOPsپر کس طرح عمل درآمد کرواپائے گی۔

آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا بازاروں میں لوگ ماسک پہن رہے ہیں؟ کیا بازاروں میں سماجی فاصلے پر عمل ہو پا رہا ہے؟کیا بازاروں میں رش کم ہوئے ہیں؟ کیا ہماری مساجد حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی پابندی کر پا رہی ہیں؟کیا ہماری بسوں، رکشوں،اور ویگنوں میں سماجی دوری کا خیال رکھ کر مسافروں کو سوار کیا جا رہا ہے؟اور اِسی طرح کیا ہماری ہوٹل انڈسٹری اور ٹوارزم انڈسٹری ہینڈ سینٹائیزز، ٹشو پیپرز اور متعلقہ کمروں اور جگہوں کو ڈس انفکٹ کر پائے گی؟باقی شعبوں (ٹریفک، ایویشن،ریلوے وغیرہ)کی ایس اوپیز پر تو تمام دنیا کا اتفاق تھا اور یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا بڑی کامیابی کیساتھ باقی شعبوں کے ایس او پیز پر عمل کروا پا رہی ہے، جبکہ کرون کے بارے میں تو باقی دنیا بھی کنفیوژن کا شکار ہے اور باقی دنیا کوبھی اپنے شہریوں سے کرونا ایس اوپیز پر عمل درآمد کروانے میں مشکلات آپارہی ہیں۔

جبکہ اِسکے برعکس ہماری حکومت ہر شعبہ سے متعلق برائے نام SOPsبنوا کر ہر اُس شعبے کو کھولے جارہی ہے، جبکہ اِن ایس او پیز پر بازاروں ، مساجد اور ٹرانسپورٹ پر عمل درآمد کروانا شاید حکومت کے بس کی بات نہیں ، شاید حکومت کو عوام کی صحت اورجان کا خیال نہیں ہے۔ُ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :