بینکنگ سیکٹر اور ملک میں سمال اینڈ میڈیم بزنس

بدھ 5 اگست 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

2018ء میں عمران خان صاحب کی حکومت ایک بڑے اکنامک ریفارم کے ایجنڈے کیساتھ اقتدار میں آئی تھی، جس میں بڑے بڑے دعوئے کیے گئے تھے کہ ملک میں نئی انڈسٹری لگے گی، سرمایہ کاری بڑھے گی،نوجوانوں کو نئی نوکریاں اور کاروبار کے مواقع ملیں گے وغیرہ،وغیرہ۔لیکن ہوا بالکل اِسکے برعکس، ملک میں نہ تو کوئی خاطر خواہ بیرونی سرمایہ کاری بڑھی، نہ قومی اداروں (پی آئی اے، ریلوے سٹیل ملز وغیرہ) کے نقصانات کم ہوئے اور نہ ہی ملک میں نئی انڈسٹری لگنے کیوجہ سے نئی نوکریاں پیدا ہوئیں اور نہ ہی ملک میں نئے کاروبار کے مواقع پید ا ہوئے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بزنس مین نیب کے ڈر سے کوئی نیا بزنس شروع کرنے یا اپنا بزنس بڑھانے سے ہی قاصر ہیں۔لیکن اِسکے ساتھ ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے بینکنگ سیکٹر میں بھی بہت سے مسائل ہیں اور اِن مسائل کیوجہ سے ملک میں سمال اور میڈیم بزنس کے پروموٹ ہونے کے چانسز بہت کم ہیں۔

(جاری ہے)

کسی بھی ملک کی ترقی میں سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائز زکی بہت اہمیت ہوتی ہے۔

اگرآپ آج سے 30-40سال پیچھے چلے جائیں تو گوگل Googleاور مائیکروسافٹ ایک ایک کمرے سے شروع ہونیوالی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں تھیں، جو اِس تیس چالیس سال کے عرصے میں رینگتے رینگتے (ترقی کرتے کرتے)آج ایک business giantبن چکی ہیں۔ اِسی طرح اگر آج ملک میں تین چار ہزار چند چھوٹی کمپنیاں کُھل جاتی ہیں تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آگے چل کر 15-20سالوں کے بعد یہ چھوٹی کمپنیاں چند بڑی کمپنیاں بن جائیں، جو لوگوں کو کاروبار اور روزگار کے مواقع دے سکیں۔


آجکل اگرچہ ملک میں زیادہ تر لوگ بینکنگ ٹرانزیکشن کے لیے اے ٹی ایم (ATM)کارڈز اِستعمال کرتے ہیں لیکن اِسکے باوجود ملک میں ایک عام آدمی کے لیے ہاتھ/ چیک کے ذریعے کسی بینک میں پیسے جمع کروانا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ ہمارے بینکوں کا عملہ بڑا ہی سُست ، immatureاور فروفیشنلزم سے عاری ہے، اُنہیں کسٹمرز کے وقت اور تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، اور یہ حال مُلک کے شیڈول کمرشل بینکوں کا ہے۔

جبکہ نیشنل اور پنجاب بینکوں کا حال تو اِس سے بھی بُراہے، جہاں اِن بینکوں کے عملے کی نا اہلی، سستی اور apathyکا بہت ہی بُرا حال ہے۔پچھلے کچھ عرصے میں مجھے تین چار مرتبہ مختلف بینکوں میں کسی نہ کسی ٹرانزیکشن کے لیے جانے کا اتفاق ہوا ہے، جس کے لیے عام آدمی کو ایک طرف تو اِن بینکوں سے باہر کرونا کیوجہ سے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر بینک کے اندر جانے کے بعد کافی دیر تک کیشئیر کاؤنٹر کا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ وہ متعلقہ باری پر چیک کیش کرے۔

یقین کریں کہ ایک عام آدمی کو اِن شیڈول بینکوں سے اپنی رقم نکلوانے کے لیے اِتنا اِتنا لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بینکنگ عملے کی اِسطرح کی غیر سنجیدگی اور تاخیری حربوں کیوجہ سے ہمارا بینکنگ سیکٹر سمال بزنس کو پروموٹ نہیں کرپا رہا۔
میں چائنہ میں تقریباً ساڑھے تین سال رہا ہوں اور میں نے وہاں کے بینکنگ سیکٹرکو بڑا ہی مفید اور بزنس فرینڈلی پایا ہے۔

مجھے چائنہ میں رہتے ہوئے صرف دو یا تین مرتبہ بینک کے اندر جانے کا اتفاق ہواہے اور وہ بھی صرف کرنسی نوٹ تبدیل کروانے کے لیے، وگرنہ میری بینکنگ کی ضروریات اور پرابلمز زیادہ تر فون کے ذریعے یا اے ٹی ایم مشین پر ہی حل ہوجاتے تھے۔چائنہ میں ہر بینک برانچ کے باہر اے ٹی ایم کے تین یا چار بوتھز (booths)ہوا کرتے تھے،اور اگر کبھی ایک اے ٹی ایم مشین خراب ہوجاتی ، تو ساتھ والی دوسری مشین اِستعمال کر لیتے، اگر دوسری مشین بھی خراب ہوتی تو تیسری یا چوتھی استعمال کر کے اپنی ٹرانزیکشن مکمل لیتے۔

یہاں پاکستان میں صورتحال اِسکے برعکس ہے جہاں اگر کسی ایک بینک کی اے ٹی ایم مشین خراب ہے تو پھر یقیناآپکو بھاگ کر کسی دوسری اے ٹی ایم مشین پر ہی جانا پڑے گا۔ چائنہ میں اُسی ایک ہی بینک کی برانچ کے اے ٹی ایم میں آپ رقم نکلوا سکتے تھے اور آپکو زیادہ خوار نہیں ہونا پڑتا تھا۔
دوسرا چائنہ میں بینکنگ سیکٹر کی ایک بڑی خوبصورتی یہ تھی کہ اُنکی اے ٹی ایم مشینوں کے ذریعے پیسے نکلوائے اور جمع بھی کروائے جا سکتے تھے یعنی وہاں کی اے ٹی ایم مشینیں دونوں کا م کرتی تھیں۔

اِن اے ٹی ایم مشینوں کی پیسے جمع اور نکلوانے کی صلاحیت کیوجہ سے یہ ہوتا تھا کہ جو اے ٹی ایمز ڈاؤن ٹاؤن (یا سٹی سنٹریا شہر کے وسط) یا بزنس مارکیٹوں کے قریب ہوا کرتی تھیں وہا ں ہر چھوٹا بڑا بیوپاری اور دکاندار اپنی روزانہ کی سِیل اِن خود کار رقم جمع کرنیوالی مشینوں کے ذریعے بینکوں میں جمع کروادیتے تھے اور پھر شام کو یکسوئی کیساتھ واپس گھروں کو جایا کرتے تھے۔

اُنہیں پاکستانی بیوپاریوں اور دکانداروں کیطرح روزانہ کی سِیل جیبوں میں ڈال کر گھر لانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی انہیں اپنی روزانہ کی سِیل کو دُکانوں کے غلوں میں رکھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔اِسکے دو فائدے ہوتے تھے ایک تو یہ کہ رقم کے دکان سے گھر یا گھر سے دکان جاتے ہوئے ڈاکہ ، راہزنی کا اندیشہ کم ہوتا تھااور دوسرا بڑا فائدہ بینکوں اور حکومت کے پاس اِن چھوٹے بزنس مینوں کی روزانہ کی آمدن کا ریکارڈ آجاتا تھا۔

اور پھر اِن حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت اِن بازاروں اور شاپنگ سنٹرز کو محتلف سہولیات اور انہیں اپنا بزنس پروموٹ کرنے کے طریقے متعارف کرواتے تھے۔ہمارا بینکنگ سیکٹر اور ہماری حکومت بھی اِس طرح کی سہولیات فراہم کر کے ہمارے چھوٹے بزنس اور کاروبار کو فروغ دے سکتی ہے۔
سمال اور میڈیم بزنس کو پروموٹ کرنے کی ایک تیسری ا ور سب سے اہم ضرورت مُلک میں ڈیجیٹل مَنی (digital money)کا فروغ ہے ۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ مُلک میں ڈیجیٹل منی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے ۔ چھوٹے بزنس اور ریٹیلرز کو ہدایات دیں کہ وہ اپنے بزنس کو زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل منی پر شفٹ کریں ، جس کے تحت ہر ریٹیلر (retailer)شاپ پر پوائنٹ آف سیل (Point of sale)موجود ہو، جسکے تحت کسٹمرز اپنے کریڈیٹ کارڈز، جاز کیش، ایزی پیسہ ،یو بی ایل اومنی یا ایچ بی ایل کنیکٹ یا دیگر طریقوں سے رقم کی ادائیگی کر سکیں۔

اِس طریقہ سے حکومت کے پاس دکانداروں کی ٹرانزیکشن کی تفصیلات خود بخود آجائیں گی ، اور حکومت کے علم میںآ جائے گا کہ فلاں دکان کی روزانہ یا ماہانہ سیل کتنی ہے۔ اِسکے ساتھ ہی ملک میں ڈیجیٹل منی کے استعمال کے بعد رقم کی چوری، منی لانڈرنگ اوردیگر مسائل میں کافی حد تک کمی آجائے گی، اور مذید یہ کہ ساتھ ہی مُلک میں یہ ٹریند کہ آپکو ہر وقت رقم ساتھ اُٹھا کر چلنا پڑتا ہے ، یہ بھی کافی حد تک کم ہو جائے گا۔

اب پاکستان میں بازار میں بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ آپکو کوئی چیز پسند آجاتی ہے لیکن آپ کے پاس اُس چیز کے لیے مطلوبہ رقم نہیں ہوتی، جسکی وجہ سے عین موقع پر آپ وہ چیز خرید نہیں پاتے اور آپکو اُس دکان پر دوبارہ اضافی رقم کیساتھ آنا پڑتا ہے۔ اِسکے برعکس اگرہرریٹیلرشاپ پر POSموجود ہو تو اپنے کریڈیٹ کارڈ یا اپنے سمارٹ فون کی ڈیجیٹل منی ٹرانسفر کے ذریعے موقع پر ہی رقم ادا کرکے چیز خرید سکتے ہیں۔

اِس طرح سے ڈیجیٹل منی کی یہ سہولت ایک طرح سے بزنس کو پروموٹ کرنے کاذریعہ بنتی ہے۔
میں نے اپنی اِس تحریر میں ملک میں سمال اینڈ میڈیم بزنس کو پروموٹ کرنے کے حوالے سے آپکے سامنے چند گزارشات رکھی ہیں جس کے ذریعے ملک میں flow of cash/moneyمیں اضافہ ہوسکے، ملک میں کاروبا ر کو فروغ مِل سکے اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری کی کوئی اُمید آسکے۔شکریہ!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :