شاہراہِ کشمیر سے سرینگر تک

جمعہ 7 اگست 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

کل پانچ اگست کو یومِ استحصالِ کشمیر، عمران خان صاحب کی حکومت کی طرف سے بڑے زوروشور کے ساتھ منایا گیا۔ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر کی گئی ، اہم شہراؤں پر مارچ کیے گئے اور سول سوسائٹی کو موبلائز کر کے ہمسایہ ملک کو جنجھوڑا گیا اور ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی برادری کو مسلئہ کشمیر کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا۔ کشمیر اور کشمیر ی عوام کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی 1948ء کی قرارداد کے مطابق حل کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔

وزیرِ خارجہ صاحب نے بڑی ہی پُر جوش تقاریر اور خطاب کیے اور عمران خان کو سرینگر اور نریندر مودی کو مظفرآباد آنے کا چیلنج بھی کیا ۔ یہ سب کچھ نعروں، ریلیوں اور جذبات کی حد تک بڑا ہی خوش آئند محسوس ہوتا ہے، جبکہ حقیقت بالکل اِسکے برعکس ہے۔

(جاری ہے)


میری ناقص رائے میں پاکستان کے پاس کشمیر کا مسلئہ حل کرنے کے لیے صرف دو آپشن ہیں، ایک یہ کہ پاکستان طاقت کے زور پر کسی جنگ کی صورت میں مقبوضہ کشمیر پر چڑھائی کر دے اور اُسے اپنے ساتھ مِلالے۔

اوردوسری آپشن یہ ہے کہ پاکستان خاموشی کیساتھ اپنی معاشی صورتحال بدلنے، اندرونی مسائل پر قابو پانے اور معاشی ، سماجی اور صنعتی ترقی پر توجہ دے۔بین الاقوامی برادری میں اپنا وقار بُلند کرے، بیرونی دُنیا کیساتھ اپنے تعلقات بہتر کرے ، مُلک میں تعلیم، انصاف اور گورننس کانظام بہتر کیاجائے، جس سے عام آدمی کی زندگی میں آسودگی آسکے اور ایک عام پاکستانی دل وجان کیساتھ ریاستِ پاکستان کی ترقی میں جُت جائے۔

یہ وہ ماڈل ہے جس پر چائنہ نے عمل کر کے ہانگ کانگ کو برطانیہ اور مکاؤ(Macao)کو پرتگال سے واپس لیا۔ چائنہ کے بارڈر پر واقع ہانگ کانگ اور مکاؤ1990ء کی دہائی تک بالترتیب برطانیہ اور پرتگال کا حصہ تھے، لیکن پھر چائنہ کی معاشی ، سماجی اور صنعتی ترقی کو دیکھتے ہوئے اِنہیں یہ علاقے چائنہ کو واپس کرناپڑے۔ پاکستان بھی بالکل اِسی ماڈل پر عمل کرتے ہوئے کشمیر کو واپس لینے کے لیے بین الاقوامی برادری پر اپنا دباؤ بڑھا سکتا ہے۔

یہ طریقہ مشکل اور کٹھن ہوسکتا ہے لیکن اِسکے علاوہ پاکستان کے پاس اپنا اثرورسوخ بڑھانے کا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان کسی صورت میں بھی بزورِبازو(جنگ مُسلط) کر کے ہندوستان سے کشمیر آزاد نہیں کروا سکتا ۔ کیونکہ یہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں ، دونوں ممالک کے درمیاں ذرا سی چپقلش کسی بڑی جنگ کی صورت اختیا ر کر سکتی ہے۔
اب اِس صورتحال میں پاکستان کو کشمیر کے حصول کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ پاکستان اور پاکستان کے مقتدر حلقوں اورپالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ مکمل طور پر اندرونی معاملات پر صرف کریں ، مُلک کو اندرونی طور پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ۔

پاکستان کے خیر خواہوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو بحال کریں، اِسے اپنے پیروں پر کھڑا کریں ۔ لوگوں کو اپنا کاروبار کرنے کے مواقع فراہم کریں، سرکاری محکموں کے لوگوں کو ایمانداری اور دیانت داری کیساتھ کام کرنے کی تلقین کریں، اورجو سرکاری ملازمین اور افسران اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوہتاہی برتیں ، انہیں سزا وجزا کے نظام کے سامنے کھڑا کریں ۔

مُلک میں عدل وانصاف کا نظام قائم کریں ، کوئی شخص اور کوئی ادارہ قانون کی نظر سے بالاتر نہ ہو۔ مُلک میں انصاف کے نام پر پولیٹیکل وکٹمائیزیشن (political victmization)ختم ہونی چاہیے۔ نیب کا ادارہ صرف سیاست دانوں، بزنس مینوں اور عام آدمی کے احتساب کا پابند نہ ہو۔ نیب کے ہاتھ اُن لوگوں کے گریبانوں تک بھی جانے چاہیں جو صرف سیاستدانوں کو لڑوا کر تماشا دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔

نیب کو اُنکی کرپشن کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کرنی چاہیے جو اپنے اثاثوں کی تفصیلات دیتے ہوئے تین کڑوڑ کی لینڈ کروزرکی مالیت تیس لاکھ لکھتے ہیں۔آپ یقین کریں کہ یہ مُلک احتساب کے نام پر اب یکطرفہ کاروائی کا مذید متحمل نہیں ہو سکتا۔
ہمارے مُلک کے سماجی مسائل میں معیاری تعلیم اور صحت دو بُنیادی مسائل ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظرانداز کر کے کوئی مُلک بھی ترقی نہیں کر سکتا۔

ایسا اب مذید زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا کہ ہم تعلیم کا بجٹ صرف دو فیصد سے بھی کم رکھیں اور ستر سالوں سے قومی سلامتی کا ڈراؤا دیکر دفاعی بجٹ میں مُسلسل اضافہ کرتے چلے جائیں۔اب ہمیں حقیقت کو سمجھنا ہوگا اور صحیح معنوں میں پاکستان کے عوام کی حالت بدلنے کیلئے کچھ کرنا ہوگا۔ کسی بھی مُلک کی ترقی کا انحصار اُسکی عوام پر ہوتا ہے اور ساتھ ہی کسی بھی مُلک کی ترقی کیلئے اُس مُلک کے تما م شعبوں میں ترقی ہونا بڑی ضروری ہوتا ہے، جن میں صنعت ومعیشت، باہُنر عوام، اعلٰی تعلیم یافتہ پروفیسرز، سائنس دان، ڈاکٹرز، سیاست دان، جج، وکلاء، غرض ہر شعبہ زندگی میں ترقی اُس مُلک کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔

ایسا کبھی مُمکن نہیں ہوتا کہ ہم کہیں کہ پاکستان کا صرف دفاع بڑا مضبوط ہے تو اِس لیے پاکستان دُنیا کا ایک عظیم مُلک ہے۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا!اِس سلسلے میں بھی حالیہ مثال چین کی ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔ چائنہ نے دُنیا کا سب سے تیز ترین ریلوے سسٹم بنایا، زرعی میدان میں ترقی کی، خلائی مشن بھیجے، ہوائی جہاز،بحری جہاز ،بندر گاہیں اور بڑے بڑے ائیرپورٹس بھی بنائے۔

غرض آج ہمارے بازاروں میں ایک سوئی سے لیکر ہمارے دفاع کے جہازوں( جے ایف تھنڈر)تک سب کچھ چائنہ سے آرہا ہے یا چائنہ کی مدد شامل ہے۔جبکہ ہر شعبہ زندگی میں ترقی کی دوسری مثال سنگاپور ہے جسکے پاس دُنیا کے بہترین سول، الیکٹریکل ، کمپیوٹر انجئیرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، پائلٹس، ڈاکٹرز، اکاؤنٹنٹس،مینیجرز، پروفیسرز، ریسرچرز، اساتذہ، آرکیٹیکٹ ، غرض ہر شعبہ کے بہترین لوگ اُسکے پاس ہیں۔

جنکے بِل بوتے پر سنگاپورہرسال اربوں ڈالرز کا ریونیو کما رہا ہے اور دُنیا کے کسی بھی مُلک کو ہمت نہیں ہوتی کہ اُس ایک جزیرے نما مُلک کو ہتھیا کر اپنے ساتھ مِلالے۔ یہ ہوتی ہے اکنامک پاورکی قیمت ، اکنامک پاور کی ویلیو۔
اب آپ پاکستان میں گورننس کا حال بھی مُلاحظہ کیجیے، جس سے بنیادی طور پر میری مُراد حکومت کا عوام کی اشیائے ضرورت کی چیزوں کی فراہمی ، سپلائی چین، اور اُنکے نرخوں کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔

جبکہ مُلک میں گورننس کی حالت اتنی خراب ہے کہ ابھی عید سے پہلے سبزی منڈی مین ٹماٹر کی قیمت 120روپے کلو تھی اور آج عید کے پانچویں دن وہی ٹماٹر گلی کوچوں میں پچاس اور ساٹھ روپے کلو بِک رہا ہے۔ عید کے دنوں میں ٹماٹر ، لیموں اور بند گوبھی کی مصنوعی قلت پید ا کی گئی اور عوام کی جیبوں پر لاکھوں روپوں کا ڈاکہ مارا گیا۔یہ وہی مجبور، بے بس، اور بے کس عوام ہیں جو ستر روپے والی چینی 88روپے میں خرید رہی ہے، جو مہنگا آٹا اور مہنگا پٹرول خرید رہی ہے۔

اگر آپ (حکومت اور پالیسی ساز)کی گورننس کی حالت یہ ہوتو پھر آپ اِس بائیس کڑوڑ عوام کیساتھ اپنے کشمیر ی بھائیوں کو بھی اِس طرح کی اذیتوں میں مُبتلا کرنے سے باز رہیں۔اگرا ٓپ اِس بائیس کڑوڑ عوام کے مخلص نہیں ہو سکے تو یہ کیسے ممکن ہو سکے گا کہ اِنہیں اپنے کشمیری بھائیوں کے دُکھ درد کا احساس ہو اور وہ (حکومت اور اُسکے خیرخواہ)اُن کشمیریوں کے ستر سالوں کے دُکھوں کا مداوا کرپائیں۔

مُلک میں ستر سالوں سے تو ٹرانسپو رٹیشن (ذرائع آمدورفت)کا مسلئہ حل ہو نہیں سکا۔ قومی ائیر لائن کے پائلٹس، انجنئیرز اور سول ایویشن کا عملہ اپنے پاکستانیوں کے لیے تو فضائی سفر محفوظ بنا نہیں پائے ، یہ کشمیر کو کیا خاک محفوظ بنا پائیں گے۔ شیخ رشید صاحب خود اپنے محکمے کی ٹرینیں کو تو آگ اور حادثات سے محفوظ بنا نہیں پائے ، یہ حکومتی وزراء اور پاکستان کے خیرخواہ کشمیر میں لگنے والی آگ کو کیا خاگ بجھا پائیں گے، نہیں کبھی نہیں!
کشمیر کے آزاد ہونے یا پاکستان کے نقشے میں شامل ہونے کو دارومدار پاکستان کے موجودہ اپنے نقشے میں بسنے والے لوگوں کی معاشی، سماجی، اور انتظامی آسودگی سے وابستہ ہے، اگرہمارا مُلک معاشی، سماجی اور انتظامی لحاظ سے بدحال ہے تو پھر چاہے ہم شاہراہِ کشمیر کو شاہراہِ سرینگر بنا دیں ، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اِس سے کچھ نہیں ہوگا۔

شکریہ!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :