
شاہراہِ کشمیر سے سرینگر تک
جمعہ 7 اگست 2020

تصویر احمد
(جاری ہے)
میری ناقص رائے میں پاکستان کے پاس کشمیر کا مسلئہ حل کرنے کے لیے صرف دو آپشن ہیں، ایک یہ کہ پاکستان طاقت کے زور پر کسی جنگ کی صورت میں مقبوضہ کشمیر پر چڑھائی کر دے اور اُسے اپنے ساتھ مِلالے۔
اب اِس صورتحال میں پاکستان کو کشمیر کے حصول کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ پاکستان اور پاکستان کے مقتدر حلقوں اورپالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ مکمل طور پر اندرونی معاملات پر صرف کریں ، مُلک کو اندرونی طور پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ پاکستان کے خیر خواہوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو بحال کریں، اِسے اپنے پیروں پر کھڑا کریں ۔ لوگوں کو اپنا کاروبار کرنے کے مواقع فراہم کریں، سرکاری محکموں کے لوگوں کو ایمانداری اور دیانت داری کیساتھ کام کرنے کی تلقین کریں، اورجو سرکاری ملازمین اور افسران اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوہتاہی برتیں ، انہیں سزا وجزا کے نظام کے سامنے کھڑا کریں ۔ مُلک میں عدل وانصاف کا نظام قائم کریں ، کوئی شخص اور کوئی ادارہ قانون کی نظر سے بالاتر نہ ہو۔ مُلک میں انصاف کے نام پر پولیٹیکل وکٹمائیزیشن (political victmization)ختم ہونی چاہیے۔ نیب کا ادارہ صرف سیاست دانوں، بزنس مینوں اور عام آدمی کے احتساب کا پابند نہ ہو۔ نیب کے ہاتھ اُن لوگوں کے گریبانوں تک بھی جانے چاہیں جو صرف سیاستدانوں کو لڑوا کر تماشا دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ نیب کو اُنکی کرپشن کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کرنی چاہیے جو اپنے اثاثوں کی تفصیلات دیتے ہوئے تین کڑوڑ کی لینڈ کروزرکی مالیت تیس لاکھ لکھتے ہیں۔آپ یقین کریں کہ یہ مُلک احتساب کے نام پر اب یکطرفہ کاروائی کا مذید متحمل نہیں ہو سکتا۔
ہمارے مُلک کے سماجی مسائل میں معیاری تعلیم اور صحت دو بُنیادی مسائل ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظرانداز کر کے کوئی مُلک بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ایسا اب مذید زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا کہ ہم تعلیم کا بجٹ صرف دو فیصد سے بھی کم رکھیں اور ستر سالوں سے قومی سلامتی کا ڈراؤا دیکر دفاعی بجٹ میں مُسلسل اضافہ کرتے چلے جائیں۔اب ہمیں حقیقت کو سمجھنا ہوگا اور صحیح معنوں میں پاکستان کے عوام کی حالت بدلنے کیلئے کچھ کرنا ہوگا۔ کسی بھی مُلک کی ترقی کا انحصار اُسکی عوام پر ہوتا ہے اور ساتھ ہی کسی بھی مُلک کی ترقی کیلئے اُس مُلک کے تما م شعبوں میں ترقی ہونا بڑی ضروری ہوتا ہے، جن میں صنعت ومعیشت، باہُنر عوام، اعلٰی تعلیم یافتہ پروفیسرز، سائنس دان، ڈاکٹرز، سیاست دان، جج، وکلاء، غرض ہر شعبہ زندگی میں ترقی اُس مُلک کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ایسا کبھی مُمکن نہیں ہوتا کہ ہم کہیں کہ پاکستان کا صرف دفاع بڑا مضبوط ہے تو اِس لیے پاکستان دُنیا کا ایک عظیم مُلک ہے۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا!اِس سلسلے میں بھی حالیہ مثال چین کی ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔ چائنہ نے دُنیا کا سب سے تیز ترین ریلوے سسٹم بنایا، زرعی میدان میں ترقی کی، خلائی مشن بھیجے، ہوائی جہاز،بحری جہاز ،بندر گاہیں اور بڑے بڑے ائیرپورٹس بھی بنائے۔غرض آج ہمارے بازاروں میں ایک سوئی سے لیکر ہمارے دفاع کے جہازوں( جے ایف تھنڈر)تک سب کچھ چائنہ سے آرہا ہے یا چائنہ کی مدد شامل ہے۔جبکہ ہر شعبہ زندگی میں ترقی کی دوسری مثال سنگاپور ہے جسکے پاس دُنیا کے بہترین سول، الیکٹریکل ، کمپیوٹر انجئیرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، پائلٹس، ڈاکٹرز، اکاؤنٹنٹس،مینیجرز، پروفیسرز، ریسرچرز، اساتذہ، آرکیٹیکٹ ، غرض ہر شعبہ کے بہترین لوگ اُسکے پاس ہیں۔جنکے بِل بوتے پر سنگاپورہرسال اربوں ڈالرز کا ریونیو کما رہا ہے اور دُنیا کے کسی بھی مُلک کو ہمت نہیں ہوتی کہ اُس ایک جزیرے نما مُلک کو ہتھیا کر اپنے ساتھ مِلالے۔ یہ ہوتی ہے اکنامک پاورکی قیمت ، اکنامک پاور کی ویلیو۔
اب آپ پاکستان میں گورننس کا حال بھی مُلاحظہ کیجیے، جس سے بنیادی طور پر میری مُراد حکومت کا عوام کی اشیائے ضرورت کی چیزوں کی فراہمی ، سپلائی چین، اور اُنکے نرخوں کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ مُلک میں گورننس کی حالت اتنی خراب ہے کہ ابھی عید سے پہلے سبزی منڈی مین ٹماٹر کی قیمت 120روپے کلو تھی اور آج عید کے پانچویں دن وہی ٹماٹر گلی کوچوں میں پچاس اور ساٹھ روپے کلو بِک رہا ہے۔ عید کے دنوں میں ٹماٹر ، لیموں اور بند گوبھی کی مصنوعی قلت پید ا کی گئی اور عوام کی جیبوں پر لاکھوں روپوں کا ڈاکہ مارا گیا۔یہ وہی مجبور، بے بس، اور بے کس عوام ہیں جو ستر روپے والی چینی 88روپے میں خرید رہی ہے، جو مہنگا آٹا اور مہنگا پٹرول خرید رہی ہے۔ اگر آپ (حکومت اور پالیسی ساز)کی گورننس کی حالت یہ ہوتو پھر آپ اِس بائیس کڑوڑ عوام کیساتھ اپنے کشمیر ی بھائیوں کو بھی اِس طرح کی اذیتوں میں مُبتلا کرنے سے باز رہیں۔اگرا ٓپ اِس بائیس کڑوڑ عوام کے مخلص نہیں ہو سکے تو یہ کیسے ممکن ہو سکے گا کہ اِنہیں اپنے کشمیری بھائیوں کے دُکھ درد کا احساس ہو اور وہ (حکومت اور اُسکے خیرخواہ)اُن کشمیریوں کے ستر سالوں کے دُکھوں کا مداوا کرپائیں۔مُلک میں ستر سالوں سے تو ٹرانسپو رٹیشن (ذرائع آمدورفت)کا مسلئہ حل ہو نہیں سکا۔ قومی ائیر لائن کے پائلٹس، انجنئیرز اور سول ایویشن کا عملہ اپنے پاکستانیوں کے لیے تو فضائی سفر محفوظ بنا نہیں پائے ، یہ کشمیر کو کیا خاک محفوظ بنا پائیں گے۔ شیخ رشید صاحب خود اپنے محکمے کی ٹرینیں کو تو آگ اور حادثات سے محفوظ بنا نہیں پائے ، یہ حکومتی وزراء اور پاکستان کے خیرخواہ کشمیر میں لگنے والی آگ کو کیا خاگ بجھا پائیں گے، نہیں کبھی نہیں!
کشمیر کے آزاد ہونے یا پاکستان کے نقشے میں شامل ہونے کو دارومدار پاکستان کے موجودہ اپنے نقشے میں بسنے والے لوگوں کی معاشی، سماجی، اور انتظامی آسودگی سے وابستہ ہے، اگرہمارا مُلک معاشی، سماجی اور انتظامی لحاظ سے بدحال ہے تو پھر چاہے ہم شاہراہِ کشمیر کو شاہراہِ سرینگر بنا دیں ، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اِس سے کچھ نہیں ہوگا۔شکریہ!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
تصویر احمد کے کالمز
-
صرف بیس گھنٹوں کا کھیل
منگل 30 نومبر 2021
-
واقعی ہی کورونا کی تیسری لہر یا حکومتی دھوکے بازی؟
منگل 16 مارچ 2021
-
میٹروبس سروس ،واقعی سفید ہاتھی یا ہماری نااہلی
بدھ 24 فروری 2021
-
اپنا ذاتی گھر،ایسٹ نہیں لائیبلٹی
جمعرات 18 فروری 2021
-
میرے شہر میں وزیرِاعظم کی آمد
منگل 9 فروری 2021
-
ڈینیل پرل کی امریکہ جیسی ماں
جمعہ 5 فروری 2021
-
کرپشن کا پرچار
پیر 1 فروری 2021
-
بولنے کا خبط
جمعرات 28 جنوری 2021
تصویر احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.