ساہیوال سے فیصل آباد اور ہماری ترقی کا سفر

جمعرات 31 دسمبر 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

گزشتہ چند دنوں میں مجھے تقریباً چار سالوں کے بعد ساہیوال (منٹگمری)سے فیصل آبا د جانے کا اتفاق ہوا۔ میں ساہیوال سے فیصل آباد آخری مرتبہ 2016ء میں گیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2016ء میں ساہیوال سے فیصل آباد کا سفر بڑا دشوار گزاراور تھکا دینے والا تھا، اِس کے باوجود کہ اِن دونوں شہروں کے درمیان صرف 90کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔

2016ء میں اِس 90کلومیٹر کی مسافت کو طے کرنے میں دو سے اڑھائی گھنٹے لگ جایا کرتے تھے کیونکہ سڑک کی حالت ناگفتہ بہہ تھی۔ اور اِسی طرح2020ء کے آخرمیں بھی مجھے یہ سفر کرتے ہوئے نہایت پریشانی اور مُشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ فیصل آباد سے ساہیوال کے درمیان سڑک کی حالت بد سے بد تر ہو چکی ہے اور بڑی گاڑی یا کار کی رفتار محض 30-40کلومیٹر سے بڑھائی نہیں جاسکتی۔

(جاری ہے)

روڈ کی حالت خراب ہونے کیوجہ سے ٹرانسپورٹ کمپنیاں اِس روٹ پر نئی اور اچھی بسیں چلانے سے گُریزاں ہیں ۔اِس خراب صورتحال کیوجہ سے ایک طرف تو لوگوں کے قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہے ، وہیں دوسری طرف اِس روٹ پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو شدید (wear-tear)کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ساہیوال شہر کی آباد ی 25لاکھ کے قریب ہے اور اگرضلع ساہیوال سے مُلحقہ تحصیلیں (پاکپتن، چیچہ وطنی، عارفوالا) کو بھی اِس میں شامل کیا جائے تو یہ تعداد 2.5ملین سے بھی بڑھ جاتی ہے جو شاید اِس روٹ کو فیصل آباد آنے جانے کے لیے اِستعمال کرتی ہے۔

لوگوں کی آمدورفت کے علاوہ ساہیوال سے فیصل آباد روٹ (goods transport)کے اعتبار کے حوالے سے بھی بڑا اہم ہے، ساہیوال زرعی زمین ہونے کی وجہ سے مکئی، گندم، اور دیگر اجناس کی پیداوار کے حوالے سے مشہور ہے۔ اِسی طرح ضلع ساہیوال پورے پاکستان میں دودھ کی پیداوار اور دودھ کی مصنوعات (ڈیری پراڈکٹس) کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔جبکہ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا اور صنعتی شہر ہے جوہزاروں مزدورں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

اِس ایک روٹ کی بہتری سے اِن دونوں شہروں کے درمیان صنعت اور تجارت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔دراصل فیصل آباد ، ساہیوال شہر اور مُلحقہ علاقوں کیلئے شمالی درہ(northern gateway)کا کام کرتا ہے، یعنی اگرساہیوال کے لوگوں کو پاکستان کے وسطی اور شمالی علاقوں (اسلام آباد، ایبٹ آباد، پشاوروغیرہ)کی طرف جانا پڑا ہے تو اِس کا سب سے آسان اور مختصر راستہ بذریعہ فیصل آباد ہی ہے۔


میں مُلک میں بہتر ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ (human resource development)کے ساتھ ساتھ بہتر انفراسٹرکچر، شہراؤں اور مواصلات کے بہتر نظام کے قیام کا بھی قائل ہوں ۔ اگرمُلک میں اچھی سڑکوں کا جال ہو گا تو لوگ نئے روزگار کیلئے بآسانی دوسرے شہروں کا رُخ کر سکیں گے،صنعت کار اپنی پراڈکٹس دور درازعلاقوں تک پہنچا سکیں گے ، اور لوگوں کے معیارِ زندگی میں بہتری آئے گی۔

اِس کے ساتھ ساتھ نئی سڑکوں اور پُلوں کی تعمیر سے سمینٹ ، کنکریٹ انڈسٹری اور مُزدورں کو روزگا ر بھی مِلے گا۔لیکن اِس سب کے لیے ضروری ہے کہ مُلک صحیح سمت میں چَل رہا ہو، مُلک کی ایکسپورٹس بڑھ رہی ہوں ، مُلک کا جی ڈی پی تقریباً چھ فیصد سے اُوپر ہو، تب ہی کوئی حکومت انفراسٹرکچر یا ڈوپلمنٹ بجٹ پر کام کر سکتی ہے۔لیکن موجودہ حکومت حالات کو جس نہج پر لے آئی ہے ،اور جس طرح سے اُمورِسلطنت چل رہے ہیں ،اِس میں مجھے بہتری کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ ہماری ترقی کا سفر بالکل رُک گیا ہے ، اور ساہیوال اور اِسکے گردونواح کے باسیوں کوفیصل آباد سفر کے لیے مذید کچھ برس سفری صعوبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :