پشاور کی ماں کا، ملک کی مٹی کے نام خط

جمعرات 13 اگست 2020

Usama Khalid

اُسامہ خالد

پاکستان 73برس کا ہونے کو ہے۔اس ملک نے ان تہتر برسوں میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ کئی مارشل لاء لگے۔ سیاست کے نام پر کرپشن ہوئی۔ جاگیر داروں نے استحصال کیا۔ قوم کی ماں کو غدارِ وطن گردانا گیا۔ جگر کاٹ کر الگ ملک بنا دیا گیا۔ وزراءِ اعظم کے قتل ہوئے۔ عالمی طاقتوں کا میدانِ جدل سجا۔ اسی کی زمین سے اُڑنے والے طیاروں نے اسی کی زمین پر بم برسائے۔

مگر کوئی بھی دُکھ ہمیں ایک نہیں کر پایا۔ ہم ہمیشہ پاکستان سے زیادہ اپنے چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے سے عشق کرتے رہے۔
بازار جا کر دیکھ لیجیے۔ کسی بھی چوراہے پر کھڑے رہ کر آواز لگائیے کہ پاکستانی تو سارے ہی چور ہیں، کرپٹ ہیں، کوئی آپ کو برا بھلا نہیں کہے گا۔ بلکہ چار لوگ آپ کے ساتھ مل کر قوم کو گالی دیں گے۔

(جاری ہے)

آپ جملے میں ذرا سی تبدیلی لائیے، اور پنجابی، سندھی، پختون یا بلوچی کو برا کہہ کر دیکھیے، خنجر بے نیام ہو جائیں گے اور لوگ آپ کا گلا کاٹنے کے لیے لپک پڑیں گے۔

آپ مسلمانوں کو من حیث القوم بے غیرت کہہ کر دیکھ لیجیے، کوئی برا نہیں مانے گا۔ بلکہ سبزی والے سے لے کر، سبزی خریدنے والے تک، سب آپ کی آواز سے آواز ملائیں گے۔ آپ ذرا سا جملہ بدل کر مسلمانوں کے کسی ایک گروہ یعنی فرقے کو برا کہہ کر دیکھیے، اپنے پیروں پر گھر نہیں جائیں گے۔
یعنی کسی شخص کواس ملک یا اپنے مذہب سے کوئی حب نہیں ہے۔ خون کا رشتہ ہے تو اپنی ذات، اپنی زبان، اپنے فرقے کے ساتھ۔

قومی تشخص سے مراد کیا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ بازار چھوڑیے، کسی جامعہ میں جا کر تجربہ کر لیجیے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کی نسل اور فرقے کی بنیاد پر تنظیمیں تو مل جائیں گی، قومی تنظیم کوئی نہیں۔ قوم پرستی سے مراد قوم پرستی کے بجائے نسل پرستی لیا جاتا ہے۔ اور اسلام کی خدمت کے نام پر اپنے فرقے کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے وراثتی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ قومی شناخت کا رہا ہے۔

تقسیم اس قدر شدید رہی کہ جب افغان جہاد کے نام پر ہیرو پیدا کیے گئے تو اُن کے سچے یا جھوٹے ہونے کا فیصلہ اُن کے فرقے کی بنیاد پر کیا جانے لگا۔ افغان جہاد میں تربیت یافتہ غازی پاکستان میں مخالف فرقوں کے خلاف جہاد کرنے لگے۔ دس سال بعد امریکہ کو خیال آیا کہ چین بڑی طاقت بن کر اُبھر رہا ہے، ایشیاء کی منڈی ہاتھ سے جا رہی ہے، اور ہتھیاروں کی کمائی میں کمی واقع ہو گئی ہے۔

وہ لوگ جنہیں ہیرو بنایا تھا، انہی کو جہنم کا حقدار ٹھہرا کر افغانستان پر حملہ کر دیا۔ جہاں افغان وار نے پاکستان کو کروڑوں ڈالر اور لاکھوں زندگیوں کا نقصان پہنچایا، وہیں ہماری قوم میں تقسیم کو ایک دفعہ پھر سے ہوا دے دی۔
پاکستان میں واضح طور پر دو مخالف گروہ سامنے آنے لگے۔ ایک گروہ کے خیال میں یہ سب لوگ دہشت گرد اور خوارج تھے، جن کا مقدر جہنم تھا۔

دوسرے گروہ کو لگا کہ یہ ہمارے ناراض بھائی ہیں، جنہیں منا کر لانا ہمارا فرض ہے۔ ایک طویل عرصے تک ہماری فوج ان افراد سے لڑتی رہی، بے گناہ لوگ اپنی جانیں دیتے رہے، مگر نتیجہ صفر رہا۔ کیونکہ جنگیں فوجیں نہیں، عوامی جذبات جیتا کرتے ہیں۔ اور افغان جنگ کی بابت ہمارے عوام کے جذبات بہت مبہم اور متضاد تھے۔
یہ لا علمی اور بے یقینی کا مرض قوم کے لیے کینسر بنتا جا رہا تھا۔

روزانہ سینکڑوں جانیں جاتیں۔ روزانہ مباحثے ہوتے اور روزانہ یہ کہا جاتا کہ طالبان گُڈ بھی ہوتے ہیں اور بیڈ بھی۔پھر 2014 کا وہ بدقسمت دسمبر آ گیا کہ جس نے کئی ماؤں کی کوکھ اُجاڑ دی۔سکول میں دہشت گرد گھس آئے۔ بچوں سے پوچھتے کہ باپ فوجی ہے یا نہیں۔ فوجی کا بچہ نکلتا تو مار دیا جاتا۔ استانی نے بچوں کو تنہا چھوڑنے سے انکار کیا تو بچوں کے سامنے زندہ جلا دی گئی۔

پرنسپل جان بچا کر بھاگنے کے بجائے بچوں پر قربان ہو گئی۔ مائیں دوپٹہ اوڑھے ایک پیر میں جوتا پہنے سڑکوں پر بھاگنے لگیں، ہائے میرا بچہ، مجھے سکول جانے دو، میرا بچہ ڈرا ہوا ہو گا۔ مگر فوجی آپریشن میں فوجی اندر کیسے جانے دیتے۔ پورے ملک نے دیکھا کہ ماؤں کے بچے لہو لہان ہوئے۔
اس سانحے کی رپورٹ آج بھی منظرِ عام پر آنے کی منتظر ہے۔ یہ سانحہ کس قدر اندوہ ناک ہے، بیان کرنا ممکن نہیں۔

مگر یہی وہ سانحہ ہے کہ جس نے پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا مرحلہ پیدا کیا کہ یہ قوم بالآخر یک زباں ہو کر دہشت گردوں کے خلاف ہو گئی۔ آپریشن کیے گئے۔ اور گذشتہ چھ برس میں دہشت کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔
پاکستان کے اس جنم دین پر پشاور کے بچوں کی ماؤں کا ملک کی مٹی کے نام موصول ہونے والا خط ایک آزاد نظم کی صورت  پیشِ خدمت ہے۔
ملک کی مٹی کے نام
پشاور کی ماں کا پیام
اے مرے  مُلک کی مٹی تری خوشبو کی قسم
میرے بچوں کا لہو تیری رگِ جاں میں محو
خون میں نہلے ہوئے بچوں کے جسموں کے تحت
تیری عزت کے ہے پرچم کو نکھارا میں نے
اے مرے مُلک کی مڑی تری خوشبو کے لیے
میرے آنچل کے کئی پھول جنازوں پہ بچھے
پرنہ مرے اشک بہے،
نہ ہی مری سسکی بھری
گیدڑوں کے ہوں سنو، سامنے
میں اب بھی کھڑی
جتنے بھی لال مری کوکھ سے پیدا ہیں ہوئے
ہاں پشاور میں اُنہیں
تیرے سپرد سونپ دیا
اے مرے مُلک  کی مٹی، تجھے مبارک ہو
اِک نیا سال جو بیٹے نے مرے تُجھ کو دیا
میرے ہر رنگ کے لفظوں پہ مقدم ترا رنگ
تُو نہیں، تو یہ زمانہ بھی نہیں
میں نہیں، اور یہ پیمانہ نہیں
میرے زخموں کی فراوانی کا اُسلوب نہ دیکھ
تُومری زیست، مرا جگر، مرا لال تُو دیکھ
اور تُو دیکھ تری حرمتِ اقدس کے لیے
میرے آنچل میں ہزاروں ہیں نئے پھول جڑے
ایک بیٹا جو گیا،
ٹھیس لگی،
 رو بھی دیے
پر مرے اور بھی بیٹے ہیں ابھی تیرے لیے
میں تو وہ ماں ہوں جو زندہ ہے گھڑی بھر کے لیے
مادرِاصل! خدارا، تُو ہمیشہ ہی رہے!
مادرِاصل! خدارا، تُو ہمیشہ ہی رہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :