میں نے ہر آبِ رواں گرتا ہوا دیکھا ہے

جمعرات 17 ستمبر 2020

Usama Khalid

اُسامہ خالد

ایک عزیز کو نعش کی شناخت کے لئے ہسپتال جانا پڑا۔ سرد خانے کے دروازے پر ہی دو افراد نے اسے گھیرنے کی کوشش کی۔ پہلے نے کارڈ تھما کر کہا ہمارے ہاں قبر کشائی اور مردہ دفنائی کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہے۔ دوسرے نے کہا پھول ہم سے بہتر کوئی بھی قبروں  پر نہیں چڑھاتا۔ ہم تو قبر پر معمولی پیسوں میں اتنے پھول ڈال دیتے ہیں کہ قبر کا نشان بھی نظر نہیں آتا۔


ہمیں غصّہ آ گیا۔ جی چاہا منہ توڑ دیں ان موقع پرستوں کے۔ اِدھر ہمارے دوست کا دل بیٹھا جا رہا ہے، جان نکل رہی ہے، اور انہیں اپنی دکان چمکانے کی پڑی ہے۔ دوست کو اُن سے چھڑوا کر اندر بھیجا اور اُن سے اُلجھ پڑے۔ بجائے شرمندہ ہونے کے، اُلٹا ہم ہی پر برسنے لگے۔ بولے جانے والا تو چلا گیا، اب تم کیونکر زندہ لوگوں کی روزی خراب کرتے ہو؟
جی تو چاہا کہ انہیں بھی جانے والے کے ساتھ رخصت کردیں، مگر موقع اور محل، اور زورِ بازو کو بھانپتے ہوئے خاموش رہ گئے۔

(جاری ہے)


بحیثیت قوم ہم کس قدر گر چکے ہیں۔ ایک عورت کی عزت کو اس کے بچوں کے سامنے تار تار کر دیا گیا۔ ایک عورت کی زندگی حرام کر دی گئی، اس کے بچوں کو تباہ کر دیا گیا، مگر اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ہم سب نے اپنی اپنی دکان کھول لی۔
عورت مارچ والوں کو عورت مارچ کی ضرورت میں اضافہ نظر آنے لگا، مرد ہونا گالی قرار پانے لگا، عریانی آزادی کہلانے لگی، اور اس مظلوم کی تکلیف کو سرِ بازار بیچا جانے لگا۔

بے چارہ خاندان کہتا ہو گا
خودکشی ہی حلال کر دیجئے
زندگی تو حرام ہو گئی ہے
میڈیا پر راست گوئی کے دعویداروں کو سی سی پی او کی بہیمانہ گفتگو مل گئی۔ اُن کی چاندی ہو گئی۔ ظلم کی داستان چھوڑ، حکومت کے اس افسر کے بہانے حکومت پر بیان کسے جانے لگے۔ قلم والوں نے بھی مظلوم عورت کی لٹی ہوئی عزت کو خوب بیچا۔ اخبارات اور ٹی وی کی سکرین کو اسی کوٹھے کی شکل دے دی  گہی کہ جس کی بابت بت تمیز منٹو پوچھتا تھا کہ اگر سارا محلہ ان کے کاروبار کو حرام سمجھتا ہے تو پھر رات گئے ان کا کوٹھا آباد کس کے دَم سے ہوتا ہے؟ مظلوم کا نام لیتے رہے، اور اپنی مرضی کا سودا بیچتے رہے۔

کسی نے حکومت پر، کسی نے مرد ذات پر، تو کسی نے مشرقی اقدار پر غُصہ بہایا۔ مگر آنسو پونچھنے کوئی نہ آیا۔
حد تو یہ ہے کہ آپوزیشن کو بھی فقط یہ یاد دلانا یاد رہا کہ جس نا مراد سڑک پر ظلم کی داستان رقم ہوئی، اس سڑک کے بنانے کا سہرا کس کے سر جاتا ہے۔ اور تو اور، شرم و حیا دلانے والے بھی اس بے شرم تقریر پر ڈیسک بجا بجا کر بتاتے رہے کہ ہمارے ہاں نہ کوئی شرم ہوتی ہے، نہ کوئی حیا، اور نہ ہی کوئی ایتھکس۔


میں نے دیکھا ہے پرندوں کو بھی مرجھاتے ہوئے
میں نے پھولوں کو بھی دیکھا ہے بدلتے ہوئے رنگ
میں نے دیکھا ہے درندوں میں بھی اسلوبِ سُخن
میں نے ہر آبِ رواں گرتا ہوا دیکھا ہے
تم گواہ اپنی وفاؤں کا جسے کہتے رہے
میں نے وہ شعلہ دہن ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے
جن کو گردانا تھا جمہور نے سردارِ سخن
اُن کے الفاظ کو بھی بکتے ہوئے دیکھا ہے
خامؔ یاں گُل کے تئیں خار بکا کرتے ہیں
خامؔ یاں روشنی بھی آنکھ کا بس  دھوکا ہے
اِس نا قابلِ بیان واقعے کے پیشِ نظر، عمران خان سے مطالبہ ہے کہ فی الفور ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے، جو ہمارے ملک میں ہونے والے ان ریپ کیسز کے مظلوموں کو زندگی کی طرف لوٹنے میں، اپنے دُکھ اور تکلیف پر قابو پانے میں مدد فراہم کرے۔

یہ ادارہ مجرموں کی سزا سے لے کر مظلوموں کی بحالی تک، ہر کام صیغہ راز میں کرے، اور سپریم کورٹ کے بلا واسطہ تسلط میں رہے۔
لکھاریوں، حواریوں، اور پجاریوں سے مطالبہ ہے کہ ہوش کے ناخن لیں۔ کسی کی عزت کے جنازے پر اپنی دکان لگا کر نہ بیٹھ جایا کریں۔ شرم کریں، اور شرم کرنے دیں۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ کلبھوشن یادیو صرف بم گراتا اور آگ لگاتا ہے۔

ہماری روح کا قتل کرنے والے یہ بھیڑیے ہمارے اپنے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ بھارت کے ایجنٹ نہیں ہیں۔ یہ پاکستان میں پلے بڑھے شہری ہیں۔ ان کی تربیت یہیں کی گئی ہے۔ ہمیں  فکر کا دامن تھامنا ہو گا، جھنجھوڑنا ہو گا، اوڑھنا ہو گا، اور سوچنا ہو گا کہ آخر معاشرے میں میڈیا اور تعلیمی اداروں کی بہتات کے باوجود تباہی کیونکر پھیلتی جا رہی ہے؟  جب تک لوگوں کی عزتوں کے جنازوں پر دکانیں چلانے کی روش ختم نہیں ہو گی،  بھیڑیے پلتے رہیں گے اور عزتیں تا ر تار ہوتی رہیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :