
میں نے ہر آبِ رواں گرتا ہوا دیکھا ہے
جمعرات 17 ستمبر 2020

اُسامہ خالد
ہمیں غصّہ آ گیا۔ جی چاہا منہ توڑ دیں ان موقع پرستوں کے۔ اِدھر ہمارے دوست کا دل بیٹھا جا رہا ہے، جان نکل رہی ہے، اور انہیں اپنی دکان چمکانے کی پڑی ہے۔ دوست کو اُن سے چھڑوا کر اندر بھیجا اور اُن سے اُلجھ پڑے۔ بجائے شرمندہ ہونے کے، اُلٹا ہم ہی پر برسنے لگے۔ بولے جانے والا تو چلا گیا، اب تم کیونکر زندہ لوگوں کی روزی خراب کرتے ہو؟
جی تو چاہا کہ انہیں بھی جانے والے کے ساتھ رخصت کردیں، مگر موقع اور محل، اور زورِ بازو کو بھانپتے ہوئے خاموش رہ گئے۔
(جاری ہے)
بحیثیت قوم ہم کس قدر گر چکے ہیں۔ ایک عورت کی عزت کو اس کے بچوں کے سامنے تار تار کر دیا گیا۔ ایک عورت کی زندگی حرام کر دی گئی، اس کے بچوں کو تباہ کر دیا گیا، مگر اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ہم سب نے اپنی اپنی دکان کھول لی۔
عورت مارچ والوں کو عورت مارچ کی ضرورت میں اضافہ نظر آنے لگا، مرد ہونا گالی قرار پانے لگا، عریانی آزادی کہلانے لگی، اور اس مظلوم کی تکلیف کو سرِ بازار بیچا جانے لگا۔ بے چارہ خاندان کہتا ہو گا
زندگی تو حرام ہو گئی ہے
حد تو یہ ہے کہ آپوزیشن کو بھی فقط یہ یاد دلانا یاد رہا کہ جس نا مراد سڑک پر ظلم کی داستان رقم ہوئی، اس سڑک کے بنانے کا سہرا کس کے سر جاتا ہے۔ اور تو اور، شرم و حیا دلانے والے بھی اس بے شرم تقریر پر ڈیسک بجا بجا کر بتاتے رہے کہ ہمارے ہاں نہ کوئی شرم ہوتی ہے، نہ کوئی حیا، اور نہ ہی کوئی ایتھکس۔
میں نے پھولوں کو بھی دیکھا ہے بدلتے ہوئے رنگ
میں نے دیکھا ہے درندوں میں بھی اسلوبِ سُخن
میں نے ہر آبِ رواں گرتا ہوا دیکھا ہے
تم گواہ اپنی وفاؤں کا جسے کہتے رہے
میں نے وہ شعلہ دہن ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے
جن کو گردانا تھا جمہور نے سردارِ سخن
اُن کے الفاظ کو بھی بکتے ہوئے دیکھا ہے
خامؔ یاں گُل کے تئیں خار بکا کرتے ہیں
خامؔ یاں روشنی بھی آنکھ کا بس دھوکا ہے
لکھاریوں، حواریوں، اور پجاریوں سے مطالبہ ہے کہ ہوش کے ناخن لیں۔ کسی کی عزت کے جنازے پر اپنی دکان لگا کر نہ بیٹھ جایا کریں۔ شرم کریں، اور شرم کرنے دیں۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ کلبھوشن یادیو صرف بم گراتا اور آگ لگاتا ہے۔ ہماری روح کا قتل کرنے والے یہ بھیڑیے ہمارے اپنے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ بھارت کے ایجنٹ نہیں ہیں۔ یہ پاکستان میں پلے بڑھے شہری ہیں۔ ان کی تربیت یہیں کی گئی ہے۔ ہمیں فکر کا دامن تھامنا ہو گا، جھنجھوڑنا ہو گا، اوڑھنا ہو گا، اور سوچنا ہو گا کہ آخر معاشرے میں میڈیا اور تعلیمی اداروں کی بہتات کے باوجود تباہی کیونکر پھیلتی جا رہی ہے؟ جب تک لوگوں کی عزتوں کے جنازوں پر دکانیں چلانے کی روش ختم نہیں ہو گی، بھیڑیے پلتے رہیں گے اور عزتیں تا ر تار ہوتی رہیں گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
اُسامہ خالد کے کالمز
-
کامیاب نوجوان
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
بچوں کی تربیت کیسے کریں
ہفتہ 25 دسمبر 2021
-
ضدی بچوں کا علاج
منگل 26 اکتوبر 2021
-
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ہیرو نہیں؟
پیر 11 اکتوبر 2021
-
خط بنام عمران خان
منگل 28 ستمبر 2021
-
ایک کشمیری نوجوان سے ملاقات
ہفتہ 23 جنوری 2021
-
ڈگری ڈگری ہوتی ہے
پیر 18 جنوری 2021
-
غدار کون؟
بدھ 6 جنوری 2021
اُسامہ خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.