Live Updates

اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو مدینہ کی ریاست کے اصولوں کو اپنانا ہوگا‘

خواتین کو وراثت میں حصہ دلانے کے لئے قانون لا رہے ہیں‘ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھنے والا کسی کے آگے نہیں جھکتا‘ ہم نے دنیا کے آگے ہاتھ پھیلا کر اپنی قومی غیرت ختم کردی ‘ ہم اب کبھی کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے‘ کسی کے آگے نہیں جھکیں گے‘ یہ قوم عظیم قوم بنے گی‘ بلوچستان میں صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر بلوچستان کی ترقی کے لئے کردار ادا کریں گے‘ پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کے لئے کوشش کریں گے‘ ساحلی علاقوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سمندر سے پانی فراہم کریں گے‘ سی پیک ہمارے لئے ایک نادر موقع ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان ون روڈ ون بیلٹ کا حصہ ہے‘ عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی موجودہ حکومت پر اعتماد ہے‘ حکومت کی پالیسیوں کی بنیاد متوسط طبقہ ہے‘ خوف کسی بھی کام کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے وزیراعظم عمران خان کا بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے طالب علموں سے وزیراعظم آفس میں خطاب

جمعہ 7 دسمبر 2018 23:43

اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو مدینہ کی ریاست کے اصولوں ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 دسمبر2018ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو مدینہ کی ریاست کے اصولوں کو اپنانا ہوگا‘ خواتین کو وراثت میں حصہ دلانے کے لئے قانون لا رہے ہیں‘ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھنے والا کسی کے آگے نہیں جھکتا‘ ہم نے دنیا کے آگے ہاتھ پھیلا کر اپنی قومی غیرت ختم کردی ہے‘ ہم اب کبھی کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے‘ کسی کے آگے نہیں جھکیں گے‘ یہ قوم عظیم قوم بنے گی‘ بلوچستان میں صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر بلوچستان کی ترقی کے لئے کردار ادا کریں گے‘ پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کے لئے کوشش کریں گے‘ ساحلی علاقوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سمندر سے پانی فراہم کریں گے‘ سی پیک ہمارے لئے ایک نادر موقع ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان ون روڈ ون بیلٹ کا حصہ ہے‘ عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی موجودہ حکومت پر اعتماد ہے‘ حکومت کی پالیسیوں کی بنیاد متوسط طبقہ ہے‘ خوف کسی بھی کام کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

(جاری ہے)

وہ جمعہ کو یہاں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے طالب علموں کو وزیراعظم آفس میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا ملک کیوں بنایا گیا‘ انہوں نے انگریزی محاورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نظریے کے بغیر قومیں مر جاتی ہیں‘ پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک مسئلہ نظریات کا بھی ہے‘ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے‘ برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم لیڈر قائداعظم محمد علی جناح پہلے پہل ہندو مسلم اتحاد کے قائل تھے وہ مسلمان اور ہندوئوں کے اکٹھے رہنے کا موقف رکھتے تھے تاہم انہیں جلد اس بات کا ادراک ہوگیا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں برابر کا شہری نہیں سمجھا جائے گا‘ قائد اعظم کے اس موقف کی مسلمانوں نے بھی مخالفت کی تاہم وہ اکیلے مہم چلاتے رہے‘ بہت عرصہ تک ان کی بات نہیں سنی گئی۔

ان پر الزام تراشی بھی کی گئی اور الزام تراشی کرنے والوں میں مسلمان بھی شامل تھے۔ ایک وقت آیا کہ وہ دلبرداشتہ ہوکر انگلینڈ چلے گئے۔ وہ اپنے زمانے کے بہترین وکیل تھے‘ شاہانہ زندگی گزار رہے تھے۔ مہنگی ترین گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بعد ازاں علامہ اقبال نے انہیں واپسی پر قائل کیا اور انہیں بتایا کہ برصغیر میں کوئی مسلمان ایسا لیڈر نہیں جو مسلمانوں کی قیادت کر سکے جیسے آج بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں تاہم ان کو کوئی قیادت میسر نہیں۔

اس پر انہوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔1936ء میں پہلے انتخابات میں مسلم لیگ کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جہاں بھی حکومتیں بنیں مسلم لیگ کے کسی رکن کو وزیر نہیں بنایا گیا تب لوگوں کو قائداعظم کی بات سمجھ آئی اور وہ مسلم لیگ کی طرف آئے۔ عزم اور حوصلے اور موقف کی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ پاکستان بن جائے گا۔

ایک سال پہلے کے اخبارات دیکھ کر اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ نے ایک ذہن دیا اور قائدانہ صلاحیت کی مالک قیادت دی۔ پاکستان بننے سے چھ ہفتے قبل قائداعظم کراچی تشریف لائے تو انہوں نے اپنے اے ڈی سی کو کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن بنے گا۔ ہندوستان میں آج مسلمانوں کی جو حالت زار ہے وہ قائداعظم کے موقف کی تصدیق کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال ایک نظریاتی جبکہ قائداعظم ایک سیاسی رہنما تھے۔ علامہ اقبال کا یہ نظریہ تھا کہ وہ ایک ایسا اسلامی ملک بنائیں گے جہاں پر اصل اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جائے گی۔ اس کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ برصغیر میں ہندو اکثریت میں آباد ہیں اس لئے انہیں حقوق نہیں ملیں گے اور دوسرا یہ کہ صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنائی جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی ریاست جن اصولوں پر بنی تھی ان میں نبی کریمﷺ کی پیدائش سے وصال تک کی زندگی ایک تاریخ ہے۔ مدینہ کی ریاست کے اصول یہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل کیا جائے۔ اس میں عدل و انصاف انتہائی اہم ہے۔ کوئی بھی تہذیب اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ قانون کی حکمرانی اس کا دوسرا ستون ہے۔ اس کا کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان شروع میں جمہوری اصولوں پر تھے جہاں حکمران جوابدہ تھا۔ خلیفہ قانون کے کٹہرے میں آتے تھے‘ مشاورت اس کی بنیاد تھی۔ انہوں نے کہا کہ خلافت خون خرابے کی وجہ سے نہیں گئی۔ ہم جمہوری اصولوں سے شروع ہوکر بادشاہت جبکہ مغرب بادشاہت سے شروع ہوکر جمہوریت کی طرف آئے۔ جمہوریت کا مطلب میرٹ اور جوابدہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں پروگریسیو ٹیکسیشن ہے جو اسلام کے زکوٰة کا تصور تھا۔

سکنڈے نیوین ممالک میں اسلام کا ٹیکس کا تصور رائج ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے ترقی کی تو وہ انہی اصولوں پر چلے۔ 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ یہ عمل عدل کے دائرے میں آتا ہے جہاں پیسے والے لوگ غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں تاہم ہم نے اس کا الٹ کیا۔ یہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔ جو علاقے پسماندہ تھے وہ اور پیچھے چلے گئے۔ ہم نے ایک سروے کیا جس کے مطابق لاہور میں ترقیاتی بجٹ کا 70 ہزار روپے فی کس جبکہ راجن پور میں 2500 روپے فی کس خرچ کیا گیا۔

اسی وجہ سے امیر اور غریب میں فرق بڑھتا گیا۔ ہم نے مدینہ کے اصولوں پر عمل نہیں کیا۔ حضورﷺ نے میثاق مدینہ کے تحت پہلا قانون دیا۔ اقلیتوں کو حقوق دیئے‘ اسلام نے خواتین کو حقوق دیئے‘ وراثت میں حصہ دیا‘ یورپ نے گزشتہ چند سالوں میں اقلیتوں پر ظلم کیا۔ پاکستان میں آج تک خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں ملتا‘ یہ شرعی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی محترمﷺ کا آخری خطبہ انسانی حقوق کا چارٹر ہے جو آج بھی واضح مثال ہے۔

اس دور میں کمزور کو تحفظ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو انہی اصولوں پر گامزن ہونا پڑے گا۔ ہم نے بلوچستان سمیت پسماندہ علاقوں کو ترقی دینا ہے۔ وزیراعلیٰ سے مل کر بلوچستان کی ترقی کے لئے کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی بہتری کے لئے خصوصی پروگرام لا رہے ہیں۔ خواتین کو وراثت میں حصہ کے لئے قانون سازی کی جائے گی اور اس پر عمل بھی کیا جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ 313 مجاہدوں کے ساتھ محمد عربیﷺ نے روم اور فارس کے بادشاہوں کو خطوط لکھے جن میں اللہ کی وحدانیت بیان کی۔ یہ چھوٹی سی ریاست کی خودداری کی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیرت ہر انسان میں ہوتی ہے‘ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھنے والا کسی کے آگے نہیں جھکتا۔ پاکستان میں ہم نے یہ ظلم کیا اور دنیا کے سامنے یہ تاثر دیا کہ سپر پاور کا ساتھ نہیں دیں گے یا ان کی جنگ نہیں لڑیں گے تو ملک تباہ ہو جائے گا۔

ہم نے جھک جھک کر اور ہاتھ پھیلا کر اپنی قومی غیرت ختم کردی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوم ضرور اٹھے گی۔ کبھی کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے‘ کسی کے آگے نہیں جھکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اس سے قبل ڈومور کے مطالبے کئے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ ہم پیسے دیتے ہیں‘ ہماری جنگ لڑیں۔ میں 15 سال سے کہہ رہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں ہے۔

اب ہماری بات سمجھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم اور ملک کو بہت وسائل دیئے ہیں۔ یہ قوم عظیم قوم بنے گی۔ مسلمانوں کی ترقی قرآن کے اصولوں پر چلنے سے ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ انشااللہ گوادر کا دورہ کریں گے۔ بلوچستان میں سینئر سکول ٹیچروں کی تعیناتی کے لئے ضلعی سطح پر کمیٹیاں بنائے جانے کے بارے میں ایک طالبعلم کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اس ملک میں میرٹ کا بہت مسئلہ ہے۔

اساتذہ کی تقرریاں میرٹ پر نہیں ہوتی تھیں۔ ہم نے خیبر پختونخوا میں پانچ سال این ٹی ایس کے ذریعے اساتذہ کی بھرتیاں کیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال دیگر صوبوں سے مختلف ہے تاہم وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اساتذہ کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہیے۔ بلوچستان میں انسانی وسائل پر جس طرح پیسہ خرچ ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہو سکا۔ ہم پوری کوشش کریں گے اور اعلیٰ تعلیم کے لئے مراعات دیں گے تاکہ لوگ اوپر آسکیں۔

انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بہتر ہونگے۔ معاشی حالات ہماری حکومت کو درپیش پہلا چیلنج تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو کوٹہ اور ملازمتیں دے کر ترقی کے دھارے میں لائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گوادر اور بلوچستان سمیت ملک کے اکثر علاقوں کا بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ اس کے لئے حکمت عملی تشکیل دی گئی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں کو ڈی سلٹیشن کے ذریعے سمندر سے کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرکے مہیا کیا جائے گا۔

پہلے اس کی لاگت بہت زیادہ ہوتی تھی تاہم اب اس کے لئے نئی ٹیکنالوجی دریافت ہوئی ہے۔ کراچی اور گوادر کے لئے ہم یہ ٹیکنالوجی لے کر آرہے ہیں۔ پھر اسے دوسرے علاقوں میں بھی لے جائیں گے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے سولر کے ذریعے یہ پلانٹ لگائے جائیں گے۔ دبئی اور ابوظہبی میں اسی کے ذریعے پانی فراہم کیاجارہا ہے۔ اس سے پانی بھی سستا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں بجلی کی فراہمی کے لئے چین کے تعاون سے پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کو چین کے ساتھ منسلک کرتا ہے تاہم بدقسمتی سے مغربی روٹ سی پیک کا حصہ نہیں تھا۔ اس سے سارا بلوچستان اور فاٹا کے علاقوں کے لوگوں کی زندگیاں بدل جائیں گی۔ سپیشل اقتصادی زونز بن رہے ہیں۔ سی پیک ہمارے لئے ایک نادر موقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ چین اگلے دس سالوں میں امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم روڈ اینڈ بیلٹ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے حالات درست کرلیں تو ملک تیزی سے ترقی کرے گا۔ دالبندین چاغی سے تعلق رکھنے والے طالب علم کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چینی اگر ان کے علاقے سے معدنیات نکال کر لے جارہے ہیں تو اس میں چینیوں کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ ان حکومتوں کا قصور ہے جنہوں نے ان کے ساتھ معاہدے کئے۔

آج چین کی بڑی کمپنیاں ہم سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بات کر رہی ہیں۔ تاہم ہم اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر ان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بھی غلط معاہدے کئے جاتے ہیں ان میں پیسہ چلتا ہے۔ وہ رشوت دے کر خرید لیتے ہیں۔ ایسا اس وقت تک نہیں ہوتا جب ہم اپنا سودا خود نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ باہر سے لوگ یہاں آکر سرمایہ کاری کریں۔

ابھی یہاں پیسا نہیں لیکن وقت آئے گا جب یہاں کے مقامی لوگ معدنیات ‘ آبی ذخائر کی تعمیر سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے تب تک بیرون ممالک سے سرمایہ کاروں کا آنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں بڑے بڑے سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لئے آرہے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ یہ ایسی حکومت ہے جو رشوت نہیں مانگے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس ملک کو اللہ نے جو جو وسائل دیئے ہیں یہ تیزی سے ترقی کرے گا۔

انہوں نے طالب علموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب پانچ سال بعد ملاقات کے لئے آئیں گے تو انہیں خود ترقی نظر آئے گی۔ ہم نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا ہے۔ وہ ایسے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اڑھائی لاکھ آبادی کے لئے ایک ڈاکٹر نہیں۔ انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں‘ گزشتہ ادوار میں ساری ترقی پہلے سے ترقی یافتہ علاقوں میں ہوئی اور نچلے طبقے کو اوپر لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔

وزیراعظم نے طلباء کو یقین دہانی کرائی کہ ہم پورا زور پسماندہ علاقوں کی ترقی پر لگائیں گے۔ بلوچستان کے ساتھ مرکز اور صوبے دونوں نے ظلم کیا۔ این ایف سی کے تحت بڑی رقم بلوچستان کے حصے میں آئی تاہم بلوچستان کے اپنے سیاسی لیڈروں نے یہ رقم ترقی پر خرچ کرنے کی بجائے آپس میں بانٹی۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پہلی بار اپنے ابتدائی سو دنوں کا پلان لوگوں کے سامنے رکھا اور اس پر پیشرفت سے بھی عوام کو آگاہ کیا۔

ہم نے ان سو دنوں میں اپنی سمت کا تعین کیا‘ جو پالیسیاں اس وقت حکومت میں بنائی جارہی ہیں ان کی بنیاد متوسط طبقہ ہے۔ سرکاری سکولوں میں تعلیم کیسے ٹھیک کریں‘ سرکاری ہسپتالوں کو کیسے بہتر کریں اس پر غور ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریب لوگوں کو ہیلتھ کارڈ دیئے جارہے ہیں۔ وہ ایک سال میں 7 لاکھ روپے تک کا علاج کروا سکیں گے۔ زراعت کے لئے پالیسی بنائی گئی ہے‘ زیادہ غربت دیہی علاقوں میں ہے۔

میں نے مرغیوں اور انڈوں کی بات کی تو اس کا مذاق اڑایا گیا تاہم وہی بات بل گیٹس نے کی تو سب شرمندہ ہوئے۔ ہم غریب گھرانوں کا معیار زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ لائیو سٹاک پر توجہ مرکوز کریں گے۔ کٹے پالنے سے گوشت دستیاب ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چھوٹے کاشتکاروں کو نئی تکینک سے آگاہ کریں گے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔

کسانوں کو اچھے بیج دیں گے۔ ایس ایم ایز کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کریں گے۔ نوجوانوں کو اپنے کاروبار کے لئے بلاسود قرضے دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ معاشرہ جب ترقی کرتا ہے تو اس میں خواتین کی تعلیم کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ 40،` 50 سال پہلے ترقی میں پاکستان سے پیچھے رہنے والے ممالک آج ایشیا کے ٹائیگر بن چکے ہیں۔ انہوں نے بنیادی صحت اور تعلیم پر توجہ مرکوز کی۔

خیبر پختونخوا میں ہم نے یہ پالیسی بنائی تھی کہ اگر 100 نئے تعلیمی ادارے کھولیں گے تو ان میں سے 70 خواتین کے لئے ہونگے کیونکہ ایک عورت کی تعلیم ایک پورے گھرانے کی تعلیم ہے۔ میں نے کرکٹ بھی کھیلی اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کی۔ اس میں میری ماں کا کردار ہے کیونکہ وہ پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں اس میں اطلاعات تیزی سے پہنچتی ہیں‘ اس نے دنیا بدل دی ہے۔

ہم نے وزیراعظم آفس میں ایک پورٹل بنایا ہے اس کے ذریعے ہمیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا جائے ہم وہاں پر اس کے حل کے لئے ٹائم فریم دیں گے اور جو معاملہ صوبوں سے متعلقہ ہوگا وہ صوبوں کے نوٹس میں لایا جائے گا۔ یہاں بیٹھے پورے پاکستان سے مسائل ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دور مواصلاتی انقلاب کا ہے۔ اس سے قبل کسی وزیراعظم کو ایسی فیڈ بیک نہیں ملتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ نوجوانوں کو اتنی طاقت دی ہے کہ جو خواب آپ دیکھتے ہیں ان کی تعبیر ہو سکتی ہے تاہم ہار نہ مانیں جب فیصلہ کرلیں کہ کوئی کام کرنا ہے تو اس کے راستے میں آنے والی مشکلات پر ثابت قدم رہیں۔ مشکل وقت سکھانے کے لئے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساری زندگی لوگ میرا مذاق اڑاتے رہے۔ 15 سال سیاست میں میرا مذاق اڑایا جاتا رہا۔

جب کرکٹ کھیلتا تھا تب بھی میرا مذاق اڑایا گیا۔ شوکت خانم ہسپتال بناتے وقت بھی میرا مذاق اڑایا گیا۔ یہ زندگی کا حصہ ہے۔ اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ لوگ یہ کہتے تھے کہ اس ملک میں دو جماعتی نظام ہے‘ یہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا تاہم یہ بھی ٹوٹا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ خوف کسی بھی کام کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک آپ اپنے خوف پر قابو نہیں پائیں گے آپ بڑے کھلاڑی‘ تاجر یا لیڈر نہیں بن سکتے۔ مدینہ کی ریاست میں دنیا کے سب سے عظیم لیڈر نے سب کو لیڈر بنا دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جو لوگ ایمان لے آئیں اللہ ان کا خوف دور کردیتا ہے۔ مشکل وقت ہمیشہ سکھاتا ہے اور اس سے بندہ سیکھ کر اپنی غلطی دور کرتا ہے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات