خیبرپختونخوا حکومت کو دس سالوں میں 417 ارب روپے دئیے گئے ،اسکے باوجود پشاور محفوظ نہ بن سکا ،اپوزیشن لیڈر

خیبرپختونخوا کے دونوں وزرائے اعلیٰ بتائیں پیسے کہاں گئے ہم اداروں کیساتھ کھڑے ہیں ،ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں ، ایک ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کرینگے اور ان کو شکست دینگے ، ہمیں یکجہتی کی ضرورت ہے مگر ایک شخص نے اپنی مسجد بنا رکھی ہے ، اس کو کہتا ہوں تمہارے پیچھے اب کوئی کھڑا نہیں ہوگا، راجہ ریاض واقعہ پر بحث ہورہی ہے ، ایوان خالی ہے ،وزراء بھی نہیں ،آپریشن کی بجائے پالیسی تبدیل کرنی چاہیے،محسن داوڑ موجودہ حکومت پر برس پڑے ایوان میں جتنی تقاریر ہوئیں کسی نے سچ نہیں بولا،پشاور پریس کلب کے سامنے پولیس نے نامعلوم افراد کے حوالے سے احتجاج کیا ہے،اس طرح آخر ریاست کیسے چلے گی ،آپریشن کی بجائے پالیسی تبدیل کرنی چاہیے،اسمبلی میں خطاب دہشتگردی کی وجوہات جان کر حل نکالنا ہوگا ،آپریشن حل نہیں، وفاقی وزیر مفتی عبد الشکور کی آپریشن کی مخالفت اگر خیبر پختون خوا میں آپریشن ہونا ہے تو پنجاب میں بھی آپریشن ہونا چاہیے، مولانا جمال الدین …دہشتگردی نہ پنجابی ہے نہ پٹھان ہے ، اسپیکر اس ایوان میں دہشت گردوں کو شہید کون کہہ رہا تھا،کیا ہم اے پی ایس سانحہ بھول سکتے ہیں ، آغا رفیع اللہ …ہماری مساجد، مندر اور چرچ محفوظ نہیں ہیں، صلاح الدین کچھ لوگوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے خطہ میں آگ لگی،یہ آگ ہمارے گھروں میں آئی، پڑوس میں گئی جس میں آج بھی ہم جل رہے ہیں، مولانا اسعد محمود جب تک احساس محرومی ختم نہیں ہوگا دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ، سائرہ بانو…… اجلاس جمعہ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی

بدھ 1 فروری 2023 21:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 فروری2023ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کو دس سالوں میں 417 ارب روپے دیے گئے ،اربوں روپے ملنے کے باوجود پشاور محفوظ نہ بن سکا ،خیبرپختونخوا کے دونوں وزرائے اعلیٰ بتائیں پیسے کہاں گئے ہم اداروں کیساتھ کھڑے ہیں ،ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں ، ایک ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کرینگے اور ان کو شکست دینگے ، ہمیں یکجہتی کی ضرورت ہے مگر ایک شخص نے اپنی مسجد بنا رکھی ہے ، اس کو کہتا ہوں تمہارے پیچھے اب کوئی کھڑا نہیں ہوگا جبکہ محسن داوڑ موجودہ حکومت پر برس پڑے اور کہاہے کہ واقعہ پر بحث ہورہی ہے ، ایوان خالی ہے، وزراء بھی نہیں ،ایوان میں جتنی تقاریر ہوئیں کسی نے سچ نہیں بولا،پشاور پریس کلب کے سامنے پولیس نے نامعلوم افراد کے حوالے سے احتجاج کیا ہے،اس طرح آخر ریاست کیسے چلے گی ،آپریشن کی بجائے پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

بدھ کو سانحہ پشاور پر بحث کیلئے قومی اسمبلی قواعد معطل کرکے بحث شروع کرنے کی تحریک وزیر مملکت قانون شہادت اعوان نے پیش کی جس کی منظوری کے بعد وقفہ سوالات سمیت معمول کا ایجنڈا معطل کرکے ایوان میں اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کو فلور دیدیا گیا ۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہاکہ پشاور واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،ایک عرصے تک امن قائم ہوگیا تھا ۔

انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا میں واقعات ہوئے اور گزشتہ روز میانوالی میں بھی واقعہ ہوا ،یہ واقعات کیوں ہورہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا حکومت کو دس سالوں میں 417 ارب روپے دیے گئے ،اربوں روپے دینے کے باوجود پشاور محفوظ نہ بن سکا ۔ انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا کے دونوں وزرائے اعلیٰ سے سوال ہے وہ پیسے کہاں گئے ۔ انہوںنے کہاکہ اگر یہ پیسے صحیح طریقے سے استعمال ہوتے تو یہ واقعہ نہ ہوتا ۔

انہوںنے کہاکہ دہشت گردوں کو گڈ اور بیڈ کا نام دیا گیا ،یہ غلط سوچ اور ایک بہت بڑی غلطی تھی ۔انہوںنے کہاکہ دفاعی اداروں سے کہنا چاہتا ہوں پوری قوم آپ کے ساتھ ہے ،ایک ساتھ ان کا مقابلہ کرینگے اور ان کو شکست دیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ ایک شخص جس نے اپنی مسجد بنائی وہ پوری قوم کے ساتھ شامل نہیں ہوگا ،اس شخص کے پیچھے کوئی کھڑا نہیں ہوگا ،ہم ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔

راجہ ریاض نے کہاکہ پشاور سیف سٹی نہ بن سکا اور کیمرے نہ لگ سکے،سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر پشاور ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہاں کوئی اپوزیشن اور حکومت نہیں ہے،اب یکجہتی کی ضروت ہے ۔رکن قومی اسمبلی موسیٰ زئی نے کہاکہ ریاستی ادارے سیاسی جماعتیں اور قوم تقسیم ہے ،کچھ لوگ کہتے ہیں ٹی ٹی پی سے مذاکرات تو کچھ کہتے لڑنا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ ریاستی ادارے اور سیاستدان ایک پیج پر آجائیں کہ ان کے ساتھ لڑنا ہے یا مذاکرات کرنے ہیں ،اس وقت پوری قوم کنفیوژہے ہم تقسیم ہیں اور دہشت گرد لاشیں گرا رہے ہیں ،بدقسمتی ہم الزام تراشی کی سیاست کررہے ہیں ،ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں بیٹھ کر قومی پالیسی بنانا ہوگی ۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ رکن اسمبلی محسن داوڑ نے کہاکہ شہدا کا نا رکنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے،پرسوں کے واقعہ پر جو بحث ہوئی اس پر سنجیدگی کا یہ عا لم ہے کہ اس موقع پر ایوان خالی ہے۔انہوںنے کہاکہ کل کہہ رہے تھے وزیراعظم اور آرمی چیف آئیں گے ،کہاں ہیں وہ،یہ وہی ترجیحات ہیں جو دراصل ہیں ہی نہیں۔

۔ انہوںنے کہاکہ علی وزیر کی سندھ اور خیبرپختونخوا میں تمام ضمانتیں منظور ہوگئی ہیں اور رہائی ہونے والی ہے۔انہوںنے کہاکہ کہیں حکومت کہیں اور سے کوئی کیس نہ نکال لے۔انہوںنے کہاکہ حکومتوں کے دعویٰ کے باوجود دہشت گردی کا مسئلہ آخر کیوں حل نہیں ہوتا۔انہوںنے کہاکہ ایوان میں جتنی تقاریر ہوئیں کسی نے سچ نہیں بولا۔انہوںنے کہاکہ پشاور پریس کلب کے سامنے پولیس نے نامعلوم افراد کے حوالے سے احتجاج کیا ہے،اس طرح آخر ریاست کیسے چلے گی ۔

انہوںنے کہاکہ اگر آپ کی فورس احتجاج پر مجبور ہوجائے تو آپ معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگالیں۔انہوںنے کہاکہ سارے معاملے کا بوجھ افغانستان پر ڈال دیا،جب ڈالر آرہے تھے تو افغان ٹھیک اور ہمارے مہمان تھے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے اپنا پورا ملک ڈالر کے لئے امریکہ کے حوالے کردیا۔انہوںنے کہاکہ ہماری یونیورسٹیوں کے لئے امریکہ سے نصاب بن کر آتا تھا،مجاہدین کا دور گزرگیا،پھر طالبان کا دور آیا۔

انہوںنے کہاکہ ولی خان کہتا تھا کہ یہ جنگ نہیں فساد ہے اور یہ بارڈر کے پار آجائیگی۔انہوںنے کہاکہ یہ جنگ جہاد نہیں فساد تھی،اگر ہم امریکہ کی مدد نہ کرتے تو وہ تباہی نہ ہوتی جو ہوئی۔انہوںنے کہاکہ ہم افغانستان کی تباہی کے ذمہ دار ہے،ہم نے طالبان کے اقتدار کو بطور ریاست سیلیبریٹ کیا۔محسن داوڈ نے کہاکہ جب تک افغانستان میں طالبان قابض رہیں گے صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔

انہوںنے کہاکہ 70 ہزار افراد نے اگر جانیں دیں تو ان میں سے 40 ہزار کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا۔انہوںنے کہاکہ ضرب عزب آپریشن سے کون سے بہتری آئی،آپریشن کی بجائے پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ چالیس برس سے ہم نے جنگ کو بطور کاروبار استعمال کیا ہے،ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ طالبان کو مذاکرات کے بہانے بسایا جارہا ہے۔اہوںنے کہاکہ یہ آگ پھیلے گی،ہمارے ذعما کہہ رہے تھے یہ جنگ سرحد پار جائے گی،ہم نے اگر اب سخت فیصلے نہ کئے تو ہم اس بوجھ تلے دب جائیں گے۔

انہوںنے کہاکہ اگر دہشت گردی سے بچنا ہے تو اس کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا ہوگا،پاکستان میں افغانستان کا ایکشن ری پلے ہونے جارہا ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم افغانستان میں دہشت گردی کے واقعے کی مذمت تو کرتے تھے مگر انہیں سپورٹ بھی کرتے تھے،اگر ہم نے اصلاح نہ کی تو یہ حالات ہمیں لے ڈوبیں گے۔وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں وہ کچھ عرصہ سے پیدا نہیں ہوئے ،پاکستان دنیا کی آنکھوں میں گھٹکتا ہے ،پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے ،پاکستان میں آگ لگائی جارہی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ بعض لوگ یہاں آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ آپریشن حل ہے ،بتایا جائے پرانے آپریشنز نے کیا مسئلہ حل کردیا ۔ انہوںنے کہاکہ کے پی کے حکومت کو 417ارب روپے دیئے گئے وہ کہاں لگے ہیں ،کیا سابقہ حکومت کے وزراء انہی عناصر کو چندہ نہیں دے رہے تھے ۔ انہوںنے کہاکہ لکی مروت میں تو پولیس سرشام تھانوں میں بند ہوجاتی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ پرانے آپریشنز کی طرح نئے آپریشنز بھی بے فائدہ رہیں گے ،پرانے آپریشنز کے متاثر لوگ آج تک گھروں میں نہیں جاسکے ۔

انہوںنے کہاکہ دہشتگردی کی وجوہات جان کر حل نکالنا ہوگا آپریشن حل نہیں۔انہوںنے کہاکہ کب تک ہم اس آگ میں جلتے رہیں گے ۔انہوںنے کہاکہ محسود، بیٹنی، جنڈولہ، میر علی، میران شاہ کا علاقہ ابھی تک مسمار ہے ،اصل حقائق تک پہنچنا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ جب تک حقائق تک نہ پہنچیں مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ پیپلز پارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے کہاکہ ہمیں بھول جانے کی عادت ہے، یہاں اس ایوان میں دہشت گردوں کو شہید کون کہہ رہا تھا،کیا ہم اے پی ایس سانحہ بھول سکتے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ وہ آج بھی لاڈلا ہے، وہ آج بھی لوگوں کو دہشت گردی پر راغب کر رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت رہی ،یہ لوگ، ان کی پوری کابینہ ان کو بھتے دیتی تھی،یہ اس پارٹی پہ الزام لگا رہے ہیں جو دہشت گردی کا نشانہ بنی۔ انہوںنے کہاکہ ایسے لوگ کھڑے ہو کر ہماری قیادت پہ گھٹیا الزام لگاتے ہیں جو خود دہشت گردوں کو پالتے رہے۔

انہوںنے کہاکہ ہم نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دیں مگر کٹھ پتلی سیاستدان ہم پر الزام لگا رہا ہے۔غوث بخش مہر کی آغا رفیع اللہ کی تقریر میں مداخلت کی اور کہاکہ یہ دہشت گردی آپ سندھ میں کر رہے ہیں۔آغا رفیع اللہ نے کرارا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ضیاء کی باقیات کو ہماری باتوں پہ تکلیف ہو گی۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے مولانا جمال الدین نے کہاکہ میں نقیب اللہ شہید کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں ،مجھے عدالتوں سے گلہ ہے جن سے ہم انصاف کی توقع رکھتے ہیں ،سابق چیف جسٹس نے ایک کمیشن بنایا ،کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ راؤ انوار نقیب اللہ کی شہادت میں ملوث تھا ۔

انہوںنے کہاکہ عدالتوں نے کس طرح اس رپورٹ کو ایک طرف رکھ کر راؤ انوار کو بری کیا ۔ انہوںنے کہاکہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نقیب اللہ کے نام پر کالج بناتا ہے ،پھر سابق وزیر اعظم سے پوچھا جائے کہ ان کے نام پر کالج کیوں منظور کیا ۔ انہوںنے کہاکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج ہمارا وزیر داخلہ موجود نہیں ہے ۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم پشاور گئے ہم ان کے مشکور ہے ،کئی سال پہلے شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے ،ٹینکر حادثے میں جلنے والوں کیلئے دس دس لاکھ دئیے گئے ،پشاور کے شہداء کیلئے وزیر اعظم نے کوئی اعلان نہیں کیا ۔

انہوںنے کہاکہ میانوالی میں بھی واقعہ ہوا لیکن آپریشن کی بات صرف خیبرپختونخواہ کے حوالے سے کی جاتی ہے ،ہم سے پوچھیں آپریشن کے کیا اثرات ہوتے ہیں،وزیرستان میں تین آپریشن ہوئے لیکن گنتی میں طالبان ہلاک ہوئے ۔ انہوںنے کہاکہ آپریشن والوں کیلئے ہمارے گھر کا سامان ایسے جائز ہے جیسے اسرائیلیوں کیلئے فلسطینیوں کا مال جائز ہے ،اگر وہاں آپریشن ہونا ہے تو پنجاب میں بھی آپریشن ہونا چاہیے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ دہشت گرد نہ پنجابی ہے نہ پٹھان ہے ،دہشت گردوں کا تعلق کسی علاقوں سے نہیں ہوتا ،آپ یہ بتائیں کونسے اقدامات کرنے چاہئیں ۔رکن قومی اسمبلی جمال الدین نے کہاکہ ایجنسیوں سے پوچھا جائے کہ آپ کیوں ناکام ہوئے ،پوچھا جائے کہ آخر کار کیوں ناکامی ہوئی ،ان کو پابند کیا جائے کہ آپ نے ملک کی حفاظت کرنی ہے ،جب آپ ان کو بٹھائیں گے تو مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔

رکن اسمبلی صلاح الدین نے کہاکہ پشاور میں دہشتگردی کا واقعہ پیش آیا،ٹی وی چینلز پر دیکھا تو پریشانی ہوئی،سوگ پورے ملک میں پھیل گیا ۔ انہوںنے کہاکہ 100 سے زائد شہید اور متعدد زخمی ہوئے،یہ واقعہ تشویش کا باعث ہے۔ انہوںنے کہاکہ دہشتگردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے جبکہ ہم نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ انہوںنے کہاکہ جب پاکستان میں افغان جہاد کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو یہ زمانہ بھی بالکل اسی طرح ہے،ہماری ریاست کی طرف سے کچھ غلطیاں ہوئیں،جب آپ بلائوں کو اپنے گھر میں پالیں گے تو وہ آپ کو کھائیں گی،یہ بلائیں 40 سال سے ہم نے پالی ہوئی ہیں،بتایا جاتا تھا کہ اسلام خطرے میں ہے۔

انہوںنے کہاکہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے بہتر اسلامی تعلیمات پر عمل ہوتا ہے،ہم نے یہاں ملاازم قائم کر دیا،ہم نے پاکستان کو پتہ نہیں کہاں لا کر چھوڑ دیا ہے،ہماری مساجد، مندر اور چرچ محفوظ نہیں ہیں۔وفاقی وزیر مولانا اسعد محمود نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ارکان نے صرف اپنے جذبات کی ترجمانی نہیں کی، پوری قوم کے غم کی ترجمانی کی، پشاور سانحہ کی خبر جس نے سنی وہ آج بھی غمزدہ ہیں، جو شہید ہوئے ان کے گھر نہیں پورے علاقے میں سوگ کی کیفیت ہے۔

انہوںنے کہاکہ کچھ لوگوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے خطہ میں آگ لگی،یہ آگ ہمارے گھروں میں آئی، پڑوس میں گئی جس میں آج بھی ہم جل رہے ہیں۔ انہ;ںنے کہاکہ جو پڑوسی بھی سوچتا ہے کہ ہمسایہ کی معیشت تباہ ہو گی، امن نہیں ہو گا مگر وہ خوشحال ہو گا تو وہ غلط ہے ،ہم نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی، پڑھتے رہے اور دھماکے ہوتے رہے، یہاں پالیسیاں اور حکمت عملی بنتی رہی مگر اس میں ہم شامل نہیں رہے آپ فیصلہ کر لیں کہ داخلہ، ،خارجہ پالیسیاں یہ ایوان بنائے گا تو معیشت ترقی کرے گی اس پارلیمان اور سیاستدان پر فیصلے چھوڑنا ہوں گے۔

انہوںنے کہاکہ مجھے عسکریت پسندی پہ اتنا ہی اعتراض ہے ،جتنا کسی اور رکن کو ہو گامگر دہشتٴْگردی کو مدرسہ اور علما سے جوڑنا درست نہیں۔جی ڈی اے کی رکن سائرہ بانو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں یہ آنا کی جنگ ہے ،آج تک ہم کوئی پالیسی نہیں بنا سکے ،ادارے مضبوط ہوں گے تو ہمارا ملک مضبوط ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ کراچی پریس کلب میں افغانستان کے جھنڈے لہرائے گئے ۔

انہوںنے کہاکہ ایک طرف ہم مہنگائی کی چکی میں پس رہے تو دوسری طرف دہشت گردی ہورہی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جب تک احساس محرومی ختم نہیں ہوگا دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ۔ انہوںنے کہاکہ ہماری سی وی تو بیرونی آقاؤں سے ہوکر آتی ہیں ،سب فیصلے وہاں سے ہوتے ہیں ہم تو ایسے ہی ہیں ۔انہوںنے کہاکہ مہنگائی کا بتاؤ ناں کہ کیسے کم ہوگی ۔ انہوںنے کہاکہ 75 بندے لگائے ہوئے ہیں بتائیں ناں کیسے مہنگائی ختم ہوگی ۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا