پاکستان کی قوم پرست جماعتیں اور انتخابی سیاست

DW ڈی ڈبلیو پیر 5 فروری 2024 15:00

پاکستان کی قوم پرست جماعتیں اور انتخابی سیاست

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 فروری 2024ء) بہت سے حلقے اس بات پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ پاکستان میں قوم پرست جماعتوں کا انتخابی سیاست سے کیا تعلق ہے؟ ان کے چیلنجز کیا ہیں؟ کچھ قوم پرست جماعتیں اسٹریٹ پاور رکھنے کے باوجود انتخابات میں بھرپور حصہ کیوں نہیں لیتیں یا اگر حصہ لیتی ہیں تو وہ کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟

پاکستانی مذہبی جماعتیں اور انتخابی سیاست میں ناکامی

آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کی نشستیں مختص کیوں نہیں کی جاتیں؟

قوم پرست جماعتوں پر ایک نظر

پاکستان میں مہاجر قومی موومنٹ، جیے سندھ محاذ، عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پنجاب نیشنل پارٹی اور سرائیکی نیشنل پارٹی سمیت کئی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں لیکن ان میں سے بہت ساری جماعتوں کی انتخابی سیاست میں کوئی مضبوط موجودگی نظر نہیں آتی جب کہ کچھ جماعتوں کی موجودگی بالکل ہی نہیں ہے۔

(جاری ہے)

سندھ کی قوم پرست جماعتیں

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سندھی قوم پرستی سب سے زیادہ مضبوط ہے، جہاں سندھی قوم کے نام پر سندھی قوم پرست وفاقی پالیسیوں پہ بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کالا باغ ڈیم جیسے کئی میگا پراجیکٹس، قوم پرستوں کی مخالفت کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکے یا تکمیل کو نہیں پہنچے۔

سندھ کی سیاست پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار شکیل سومرو نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سندھ میں قوم پرستی کے سب سے بڑے علمبردار جی ایم سید تھے جنہوں نے 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن انہیں شکست ہوئی۔

اس کے بعد ان کی جماعت تقریباﹰ انتخابی سیاست سے دور ہو گئی اور وہ علیحدگی پسندی کی طرف چلی گئی۔ ان کی موت کے بعد جماعت میں کئی دھڑے بن گئے اور وہ سب انتخابی سیاست سے دور ہیں۔‘‘

شکیل سومرو کے مطابق عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی اور کچھ اور جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں لیکن انہیں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔

مزید یہ کہ جی ایم سید کے گھرانے کے کچھ افراد نے انفرادی طور پر یا چھوٹی موٹی پارٹیاں بنا کر انتخابات میں حصہ لیا اور ان کو کچھ کامیابی بھی ہوئی، ''لیکن پارٹی بحیثیت مجموعی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔‘‘

انتخابی سیاست اور پختون بلیٹ

صوبہ خیبر پختون خوامیں، جسے اٹھارویں ترمیم سے پہلے شمال مغربی صوبہ کہا جاتا تھا، قوم پرستانہ سیاست کئی عشروں تک حاوی رہی۔

تاہم گزشتہ 10 برسوں میں وہاں پر پاکستان تحریک انصاف ایک بہت بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور اسے دو بار منتخب کیا گیا۔

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ قوم پرستوں کا اس صوبے اور بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں شروع سے ہی بہت اثر و رسوخ رہا ہے: '' تخلیق پاکستان کے وقت خدائی خدمت گار کانگریس کے اتحادی تھے اور صوبے میں کانگریس کی حکومت تھی۔

بعد میں اس حکومت کے خاتمے اور بھابڑہ میں پختون سیاسی کارکنان کے قتل عام نے قوم پرستانہ جذبات کو مزید مضبوط کیا۔‘‘

ڈاکٹر سرفراز خان کے مطابق بلوچستان کے پختون بیلٹ میں صمد خان اچکزئی، محمود خان اچکزئی اور دوسرے پختون قوم پرستوں کو بہت اثر ورسوخ رہا اور انہوں نے انتخابی سیاست میں کامیابی بھی حاصل کی: ''ایوب خان کے مقابلے میں ولی خان اور دوسرے قوم پرستوں نے فاطمہ جناح کی بنیادی جمہوریتوں والے انتخابات میں حمایت کی اور 70 کے الیکشن میں نیشنل عوامی پارٹی نے صوبے میں اچھی خاصی نشستیں حاصل کیں۔

‘‘

بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست

بلوچستان شاید وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر قوم پرستانہ سیاست روز اول سے ہی بہت طاقتور ہے اور وہاں وفاق کی سیاست کرنے والی جماعتوں کو بہت کم پذیرائی حاصل ہوئی۔ بلوچستان حکومت کے سابق مشیر برائے منصوبہ بندی اسحاق بلوچ کا کہنا ہے کہ آج بھی صوبے میں اگر منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں تو نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سب سے طاقتور جماعتیں بن کر ابھریں گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قوم پرستانہ تحریک مکران ڈویژن میں بہت طاقت ور رہی ہے جہاں پر کوئی سرداری نظام نہیں ہے جبکہ جلاوان اور سراوان کے مختلف علاقوں میں سرداری نظام طاقتور ہے۔ تاہم ابھرتی ہوئی قوم پرست تحریکوں نے ان خطوں میں بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔‘‘

ڈاکٹر اسحاق بلوچ کے مطابق عطا اللہ مینگل، اختر مینگل، ڈاکٹر مالک اور نواب اکبر بگٹی جو مختلف مواقع پہ صوبے کے وزیراعلیٰ بنے ان سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح قوم پرستانہ سیاست سے تھا۔

ناکامی کے اسباب

شکیل سومرو کا کہنا ہے کہ سندھ کی انتخابی سیاست میں قوم پرستوں کو پذیرائی اس لیے نہیں مل پائی کیونکہ پیپلز پارٹی نے ان کے سارے نعروں کو اپنا لیا ہے: ''کالا باغ ڈیم ہو یا سندھ کے پانی کا مسئلہ، پیپلز پارٹی سندھ کے تمام قومی سوالات پر قوم پرستانہ لائن لیتی ہے، جس کی وجہ سے انتخابی سیاست میں قوم پرستوں کی گنجائش نہیں بن پاتی۔

‘‘ شکیل سومرو کے مطابق اس کے علاوہ زیادہ تر قوم پرست جماعتیں مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں، ''اور ان کے پاس وڈیروں کی طرح کروڑوں یا اربوں روپے نہیں ہیں جو وہ انتخابی سیاست پر خرچ کریں۔ اس کے علاوہ وہ تھانہ اور کچہری کی سیاست بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ موروثی سیاست، مذہبی جماعتوں کا ابھار اور اسٹیبلشمنٹ کی قوم پرست مخالف پالیسیوں نے قوم پرستوں کی انتخابی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ہے: ''انتخابی سیاست میں جی ایچ کیو یہ فیصلہ کرتا ہے کس کو اقتدار میں لانا ہے اور کسے روکنا ہے۔

اس کی وجہ سے قوم پرستوں کو انتخابی سیاست میں بہت مشکلات ہوئی ہیں۔‘‘

بلوچ قوم پرستوں جماعتوں کے لیے چیلنج

اسحاق بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا ابھار قوم پرست تحریکوں کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے: ''انتخابی سیاست پر تو شاید وہ اتنے اثر انداز نہ ہوں کیونکہ وہ لوگ انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔ تاہم مزاحمتی سیاست کی وجہ سے بلوچستان میں انتخابات کے دوران نوجوانوں کے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ کم ہوا ہے، جو یقینا قوم پرستانہ انتخابی سیاست کے لیے ایک چیلنج ہے۔

‘‘

واضح رہے کہ پاکستان میں پنجاب نیشنل پارٹی اور سرائیکی نیشنل پارٹی سمیت دوسری کئی قوم پرست جماعتیں بھی سیاست میں سرگرم ہیں لیکن ان کی انتخابی سیاست میں کوئی خاص موجودگی نظر نہیں آتی۔