اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2025ء) خضدار کے ڈپٹی کمشنر یاسر اقبال نے بتایا کہ آج صبح "آرمی پبلک اسکول کی بس میں مختلف مقامات سے بچوں کو سوار کر کے اسکول لے جایا جا رہا تھا کہ شہر کے قریب خودکش بمبار نے اسے نشانہ بنایا۔" بس میں تقریباﹰ چالیس بچے سوار تھے۔
پاکستان: بنوں میں فوجی اڈے پر خودکش حملے میں 12 افراد ہلاک
انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔
خضدار کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، تاہم شدید زخمیوں کو کوئٹہ یا کراچی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ایک عینی شاہد کے مطابق دھماکے سے بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ "دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ بس سڑک کے کنارے سے دور جا کر الٹ گئی اور آگ لگ گئی، سکیورٹی اہلکاروں اور امدادی کارکنوں نے بروقت پہنچ کر بچوں کو باہر نکالا۔
(جاری ہے)
"
شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ: چار بچوں کی ہلاکت پر احتجاج
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بس دھماکے میں بچوں کی اموات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا، "معصوم بچوں کو نشانہ بنانے والے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
"خیبر پختونخوا: خودکش حملے میں پانچ چینی ڈیم ورکر اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک
انہوں نے مزید کہا، "دشمن نے بربریت کا مظاہرہ کرکے معصوم بچوں پر حملہ کیا۔ اسکول بس پر حملہ دشمن کی ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔"
کسی گروپ نے فوری طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی
فوری طور پر کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
تاہم نسلی بلوچ علیحدگی پسندوں پر اس حملے کا شبہ کیا جارہا ہے، جو پہلے بھی اس طرح کے حملے کرتے رہے ہیں۔یہ تازہ ترین حملہ افغانستان کی سرحد سے متصل صوبہ بلوچستان کے شہر قلعہ عبداللہ میں ایک بازار کے قریب ہونے والے ایک کار بم دھماکے کے چند روز بعد ہوا ہے، جس میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
آرمی پبلک اسکول کے طلبہ کو اس سے قبل بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے، جب 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں اے پی ایس اسکول پر حملے میں 144 سے زائد افراد کو قتل کر دیا گیا تھا، جن میں سے بیشتر معصوم طلبہ تھے۔
پولیس حکام کے مطابق پولیس اور فورسز کی نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی ہے، اور علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اس بزدلانہ حملے کے منصوبہ ساز، سہولت کار اور حملہ آوروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا، لیکن آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ معدنی وسائل سے مالامال تقریباً 15 ملین آبادی والا یہ صوبہ کئی دہائیوں سے شورش کی زد میں ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین