اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 مئی2025ء) آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اورسینئر سفارت کار سردار مسعود خان نے کہا ہے بھارت کی تاریخ وعدوں کے انحراف سے بھری پڑی ہے، بھارت جب بھی کسی مشکل سے دوچار ہوتا ہے تو وہ وعدے کرتا ہے لیکن جب مشکلات ختم ہو جاتیں ہیں تو وہ اپنے وعدوں سے پھر جاتا ہے۔ حالیہ جنگ کے دوران پاکستان کی فوج کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد جب اس نے اپنے جنگی منصوبوں کو خاک میں ملتے دیکھا اور یہ محسوس کیا کہ مزید جنگ سے اسے زبردست مالی اور جانی نقصان ہوسکتا تو اس نے نہ صرف جنگ بندی کو قبول کیا بلکہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کی بھی حامی بھری، لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا بھارت اب اس سے پیچھے ہٹ جائے۔
پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دیتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ حالیہ جنگ کے بعد ہندوستان اور پوری دنیا پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ دو جوہری ریاستوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر ہی وہ کلیدی تنازعہ ہے جس کو اگر حل نہ کیا گیا تو اس خطہ میں امن و سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور اس خطے کے امن سے دنیا کی سلامتی جڑی ہوئی ہے۔
(جاری ہے)
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش پر اظہار خیال کرتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرکے ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی ایجنڈے پر لایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس سے قبل بھی 2016 اور 2019 میں ثالثی کی پیشکش کی تھی لیکن وہ ہندوستان کے عدم تعاون کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی۔
اب ایک بار پھر اُنہوں نے اپنے اس عزم کا اعادہ سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے بھی کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ دونوں اس بات کے لئے تیار ہیں کہ کسی غیر جانبدار ملک میں وسیع تر موضوعات، جن میں مسئلہ کشمیر کلیدی جزو ہو، پر مذاکرات ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اہم پیشرفت ہے لیکن اب یہ ہندوستان پر منحصر ہے کہ وہ اس کے لئے آمادہ ہوتا ہے یا نہیں۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز کئے جانے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یوں تو یہ اعزاز ان کی جنگ میں کارکردگی کی بنیاد پر دیا گیا لیکن اس میں بھارت کے لئے بھی پیغام جانا چاہیے کہ اگر وہ کوئی جارحانہ منصوبہ بنا رہا ہے تو ہم بھی بھارت سے وسیع تر جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہندوستان سے ملے جلے اشارے مل رہے ہیں۔
وہ کبھی کہتے ہیں جنگ بندی برقرار رکھنے کے لئے تیار ہیں اور کبھی اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے اپنی ہار کو جیت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ دو دن قبل لائن آف کنٹرول کے عباس پور سیکٹر کے دورے پر گئے تھے جہاں انہوں نے ایک فوجی چوکی پر شہدا کے لئے فاتحہ خوانی اور اپنے بہادر اور جری فوج کے جوانوں سے ملاقات کی اور ان کا حوصلہ دیکھا جو مثالی ہے۔
یہ وہ جوان اور محافظین ہیں جو اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر ہمارا دفاع کر رہے ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں راہول گاندھی کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ کانگریس کی یہ پالیسی رہی ہے کہ چین اور پاکستان ایک دوسرے سے دور رہیں لیکن بی جے پی حکومت کی احمقانہ پالیسی سے وہ مزید ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں، سردار مسعود خان نے کہا کہ راہول گاندھی کا بیان ہندوستان کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔
بی جے پی حکومت اور اس سے پہلے کانگریسی حکومتیں ہمیشہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتیں رہی ہیں لیکن وہ اس میں ناکام رہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے دلی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے لئے تربیت گاہیں قائم کرنے کے علاوہ افغانستان اور ایران میں جو اڈے قائم کئے ہوئے ہیں جہاں وہ دنیا کو دکھانے کے سفارتی پرچم لہراتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنے پراکسیز کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت گردی کرواتے ہیں۔
بھارت نے خاص طور پر داسو اور کراچی میں چینی شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر پاکستان اور چین کے درمیان بداعتمادی کی ایک دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اور افغانستان کے وزیر خارجہ چین میں بیٹھ کر چین پاکستان اقتصادی راہداری اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے فریم ورک کے اندر افغانستان پاکستان کے تعلقات پر بات چیت کرتے ہیں تو یہ ہماری سوچ کی وسعت کا غماز ہے جبکہ دوسری طرف ہندوستان کی سوچ چھوٹی اور محدود ہے کیونکہ وہ دہشتگردی کے ذریعے ملکوں اور پڑوسیوں سے تعلقات خراب کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب جنگ ہوتی ہے تو کشیدگی بڑھ کر کسی بھی لیول پر جاسکتی ہے جس سے پوری دنیا میں سپلائی چین متاثر ہوتے ہیں۔ چین کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ وہ جب اپنی آزادی کے سو سال پورے کرے تو وہ دنیا کی ایک معاشی اور اسٹرٹیجیک پاور ہو۔ دو پڑوسی ملکوں میں اگر جنگ ہوتی ہے تو چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ متزلزل ہوسکتا اور اس سے چین کی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
چین کی سرمایہ کاری سو سے زیادہ ملکوں اور تمام براعظموں میں ہے اس لئے چین امن و سلامتی کا داعی ہے اور یہی پالیسی پاکستان کی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ افغانستان کو سی پیک کا حصہ بنانے سے کیا امریکہ ناراض نہیں ہوگا، سردار مسعود خان نے کہا کہ امریکی دانشور طبقہ اور دوراندیشی رکھنے والے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں چین، پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئی اعتماد کی فضا اگر قائم ہوتی ہے تو یہ خود امریکہ کے مفاد میں ہے کیونکہ امریکہ بھی اس خطہ میں معدنیات کے سیکٹر میں سرمایہ کاری اور شراکت داری میں دلچسپی رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات ایک پیچیدہ عمل ہے جسے بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں تقسیم کیا جا سکتا۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران افغان طالبان کی بھارت کی طرف جھکاؤ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ افغانستان کے عوام اور پاکستان کے عوام اور ریاست کی ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی اور یکجہتی کوئی چالیس پنتالیس سال پر محیط ہے۔
پاکستان نے نہ صرف لاکھوں لٹے پٹے افغانوں کو اپنے ملک میں پناہ دی بلکہ ان کی آزادی کی جنگ میں بھی بھرپور ساتھ دیا لیکن جب پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی، ایک جارح اور ظالم ملک نے حملہ کرکے پاکستان میں عورتوں اور بچوں کو قتل کیا تو ایسے وقت میں افغان طالبان کا پاکستان کے دشمن کی طرف جھکاؤ افسوسناک ہے لیکن ہمیں معلوم ہے بھارت نے چالاکی اور مکاری سے افغانوں کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر گھولا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان میں دھڑے بندیاں ہیں، کچھ پاکستان کے حمایتی اور کچھ بھارت کے دام فریب میں پھنسے ہوئے ہیں۔