کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 جون2025ء) بلوچستان کے 8مختلف محکموں کے سیکرٹریز نے کہاہے کہ حکومت بلوچستان آبپاشی، توانائی،زراعت ،ٹرانسپورٹ، آئی ٹی ،ایکسائز ،جنگلات ،فشریز میں اصلاحات کیلئے کوشاں ہے،محکموں کے میڈیا کے ساتھ روابط سے حکومتی اقدامات کوعوام کے سامنے اجاگر کرنے میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ بلوچستان کا قومی میڈیا میں مثبت امیج بنے گا،پٹ فیڈر کینال،گرین پاکستان پروگرام ،فری لانسنگ ،گرین بس ،زرعی ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر منتقلی اور پرائیویٹ گاڑیوں کو سمارٹ کارڈ جیسے منصوبوں سے عوام کو فائدہ حاصل ہوگا۔
ان خیالات کااظہار سیکرٹری آبپاشی حافظ عبدالماجد، سیکرٹری توانائی دائود بازئی، سیکرٹری زراعت نور احمد پرکانی، سیکرٹری ٹرانسپورٹ حیات کاکڑ، سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی ایاز مندوخیل، سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سید ظفر بخاری، سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات عبد الفتح بھنگر، سیکرٹری فشریز طارق قمر بلوچ، کمشنر کوئٹہ ڈویژن و ایڈمنسٹریٹر میٹرو پولیٹن کارپوریشن محمد حمزہ شفقات اور سیکرٹری اطلاعات عمران خان نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔
(جاری ہے)
اس موقع پرڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ محمد نور کھیتران،ایڈیشنل سیکرٹری توانائی صاحبزادہ نجیب اللہ ودیگر بھی موجود تھے ۔ سیکرٹری اطلاعات عمران خان نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے قومی میڈیا پر کوریج نہ ہونے کے برابر ہے ،ہماری کوشش ہے کہ میڈیا کے محکموں کے ساتھ روابط بڑھ جائیں اور بلوچستان کا امیج بہتر طور اجاگر کیا جائے، فلیگ شپ قسم کے منصوبے عوام کے سامنے اجاگر کیا جائے۔
سیکرٹری آبپاشی حافظ عبد الماجد نے کہا کہ بلوچستان میں امسال 6 سکیمیں مکمل کررہے ہیں ان منصوبوں سے پانی کا مسئلہ بہت سے علاقوں میں کافی حد تک حل ہو جائے گا بلکہ زراعت کے شعبے میں یہ منصوبے اہمیت کے حامل ہیں،پٹ فیڈرز کینال جو 128 کلو میٹر لائنڈ کینال اور 79 کلو میٹر ان لائنڈ اراضی ہیں، بسول ڈیم 54 کلو میٹر ہے جس پر 18 سو 679 ملین روپے لاگت آرہی ہے، اس ڈیم سے 56 ہزار افراد لوگ مستفید ہو سکتے ہیں، یہ ڈیم 6 ہزار 650 ایکڑ زمین زیر آب ممکن ہو پائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 18 واٹر بیسنز ہیں زیر زمین پانی کا استعمال صرف پینے کیلئے نہیں ہو رہا بلکہ زراعت کے شعبے میں بھی زیر زمین پانی کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے، اس حوالے سے کوشش کررہے ہیں کہ استعمال کم سے کم ہو۔ سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات عبد الفتح بھونگر نے کہا کہ گرین پاکستان پروگرام کے تحت 5087 ملین کی لاگت سے بلوچستان بھر میں 60 ملین درخت لگائے جائیں گے، اس منصوبے سے 2 ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، 3 لاکھ 51 ہزار سے زائد اراضی کی ری ہبلی ٹیشن ہوگی، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آگ کے واقعات رونما ہوتے ہیں، امسال آگ لگنے کے11 واقعات ہوئے ہیں پودے بچوں کی طرح ہوتے ہیں،زیارت میں ایل پی جی پلانٹ لگایا جائے تاکہ لوگوں کو گیس کی سہولت میسر ہوں،10 بائیو لوجیکل زون ہے جن میں ان درختوں کی سائنٹفک ریسرچ کے بعد لگایا جاتا ہے۔
سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی ایاز مندوخیل نے کہا کہ 2025 سے 2027 تک فری لانسنگ و انٹرپرینیورشپ کے تحت 15 سو افراد کو تربیت دی ہے، جن کو تربیت دی ہے انہوں نے فری لانسنگ کے ذریعے 4 لاکھ 56 ہزار ڈالرز کمائے جا چکے ہیں،کوئٹہ و گوادر کے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت تربت، لورالائی، خضدار، دالبندین، بھیکرسمیت دیگر میں کام شروع کیاجائے گا،ٹرانسپیرنٹ گورننس کیلئے حاضری کا نظام 100 مقامات پر لگایا گیا ہے، سول سیکرٹریٹ میں حاضری کا مسئلہ تھا اب صرف کیمرے کے سامنے گزر کر ان کا حاضری لگ جاتا ہے،18 کالجز میں ورچول ایجوکیشن نظام لگایا ہے ،100 ملین کی لاگت سے اس منصوبے پر جاری ہے کسی طالب علم سے کوئی کلاس مس نہیں ہوگی۔
آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے کوئٹہ و خضدار میں سیٹیزن فیسلی ٹیشن سینٹر قائم کیا گیا ہے جس میں ایک چھت کے نیچے مختلف سہولیات میسر ہوتی ہے۔ گوادر سی پیک کا اہم پوائنٹ ہے گوادر کی سیفٹی پر کام شروع کردیا گیا ہے،کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ کے دوسرے فیز میں آرٹیفیشل بیسڈ کیمرے کا فیچر شامل ہے، ڈیجیٹل بزنس اہم پروجیکٹ ہے، سکیورٹی کا مسئلہ بہت سے علاقوں میں درپیش ہے، انٹرنیٹ کی وجہ سے صوبے بھر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کوئٹہ شہر میں 1402 کیمرے لگے ہوئے ہیں۔
سیکرٹری ٹرانسپورٹ حیات کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کا گرین بس منصوبے اہم ہے ،یہ منصوبہ روزانہ 9 ہزار سے 10 ہزار مسافروں کو سفری سہولت میسر کرتا ہے،اس منصوبے کے تحت 5 بسیں خواتین کیلئے مختص کی گئی ہے، 59 فیصد کوئٹہ کے لوگ موٹر سائیکل سواری کرتے ہیں ،22 فیصد رکشے چل کررہے ہیں، 18 فیصد گاڑی کا سفر کرتے ہیں، کوئٹہ کے روڈوں پر گرین بسیں چلیں تو ٹریفک کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا، ٹریول کی صورت میں 27 کروڑ روپے دیئے جا رہے ہیں، جس میں 14 کروڑ واپس خزانے میں جمع ہوتے ہیں جبکہ 13 کروڑ حکومت کی جانب سے سبسڈی ہے ، فی فرد کا حساب لگایا جائے تو حکومت ایک بندے پر 34 روپے سبسڈی دے رہی ہے، پشاور 48، لاہور 93، راولپنڈی اور اسلام آباد میں 123 روپے جبکہ ملتان میں 186 روپے فی فرد سبسڈی دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 21 میں 5 بسیں پنک جو خواتین کیلئے ہیں جبکہ 4 بسیں تربت میں چلائی جائیں گی، 21 بسوں سے ریونیو 32 کروڑ تک پہنچ جائے گا۔ سیکرٹری فشریز اینڈ کوسٹل ڈویلپمنٹ طارق قمر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کا 700 کلو میٹر کا ایریا کوسٹل بیلٹ ہے، فشریز کا حدود 20 کلو میٹر تک ہے،کراچی سے باقی ٹرالرز چل رہے ہیں،فشریز کا صوبائی ایکٹ تیار ہے۔ کمشنر کوئٹہ ڈویژن و ایڈمنسٹریٹر میٹرو پولیٹن کارپوریشن محمد حمزہ شفقات نے کہا کہ سرکلر پلازہ میں 800 گاڑیاں پارک کی جاتی ہیں، بلدیہ پلازہ کی انڈر گرائونڈ پارکنگ بنائی جا رہی ہے، بلوچستان ہائی کورٹ اور ٹیکسی سٹینڈ میں پارکنگ پلازے بنائے جا رہے ہیں جس سے پارکنگ کا مسئلہ بہت حد تک حل ہو جائے گا، بلدیہ کیفے کا 5000 کرایہ ملتا تھا اب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جا رہا ہے، اب مہینہ 10 لاکھ روپے کمائے جا رہے ہیں، جناح روڈ، لیاقت بازار، پرنس روڈ کو نو کارٹ زون و نو پارکنگ قرار دیا گیا ہے، کیسکو کو کارپوریشن ماہانہ بجلی کی مد میں 60 لاکھ روپے دئیے جا رہے ہیں۔
صاف کوئٹہ پروجیکٹ کی ٹرانزیشن مکمل ہوگئی ہے ،ماحول کو صاف بنانے کیلئے کرش پلانٹس بند کئے گئے ہیں، چمن ماسٹر پلان پر کئی سال بعد کام شروع کردیا گیا ہے جس میں 10 ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے،پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت مذبح خانہ مکمل کرلیا گیا،کارپوریشن کی 900 دکانیں ہیں ،8 ماہ میں 900 کیسز ہوئے۔ سیکرٹری توانائی دائود بازئی نے کہا کہ توانائی ڈیپارٹمنٹ کے تحت چین کے گرانٹ سے 15 ہزار آف گرڈ ہومز سے 25 اضلاع میں کام مکمل ہوا ہے، اس منصوبے سے وہ لوگ مستفید ہوں گے جن کی بجلی تک رسائی نہیں ہوگی اور ایسے ایک لاکھ لوگ مستفید ہوں گے،حکومت 2001 سے لیکر 2025 تک سبسڈی دے رہی ہے 27 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے،13 ہزار کو رقم منتقل ہو چکی ہے،30 جولائی تک سولرائزیشن کا منصوبہ مکمل کیا جائے گا،پہلی مرتبہ ایک بہترین معاہدہ ہوا ہے،سولر کنزیومر کیلئے ایکٹ میں سزا ایک سال اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے اور معاون پر بھی یہی سزا لاگو ہوگی۔
سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سید ظفر بخاری نے کہا کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے،یکم جولائی سے پرائیویٹ گاڑیوں کو اسمارٹ کارڈ فراہم کیا جائے گا،بلوچستان کی رجسٹرڈ گاڑیوں کے مالکان پاکستان بھر سے ٹیکسز جمع کروا سکیں گے،پرانی نمبر پلیٹس تبدیل کی جائیں گی، من پسند نام کی نمبر پلیٹس کا منصوبہ بھی شروع کیا جائے گا، مخصوص رقم فیس رکھی جائے گی یہ مرحلہ قانون سازی کے مراحل میں ہے، کوئٹہ والے بھی ایسے ہی نمبرز جاری کرتے ہیں جیسے باقی کرتے ہیں ، اب کوئٹہ کی گاڑیوں کی رجسٹریشن پورے پاکستان میں تصدیق ہو سکتی ہے۔
سیکرٹری زراعت نور احمد پرکانی نے کہا کہ بلوچستان کی زرعی رقبہ 18.35 ہیکٹر ہیں، بلوچستان میں کسان کارڈ لانچ کیا جا رہا ہے ،اس کے علاہ بلوچستان میں سبسڈی والا ٹریکٹر منصوبے کا فیز ٹو چل رہا ہے، 20 اضلاع میں کولڈ سٹوریج بنائے جا رہے ہیں ،جس کی لاگت 6 ارب 76 کروڑ آرہی ہے۔سیکرٹری اطلاعات نے کہاکہ عید کے بعد سیکرٹریز کے ساتھ دوسرا سیشن منعقد کیاجائے گا۔